سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی سماعت اگلے ماہ تک کے لیے ملتوی


ٹرمپ
امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹس اور رپبلکن اراکین کے مابین طے پانے والے معاہدے کے تحت سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے مواخذے کی سماعت آئندہ ماہ شروع ہوگی۔

ایوان نمائندگان کے ڈیموکریٹس سوموار کو سینیٹ کو ‘بغاوت پر اکسانے’ کے الزامات بھیجیں گے۔

لیکن اس کے متعلق سماعت اور دلائل کی ابتدا آٹھ فروری والے ہفتے سے قبل شروع نہیں ہوسکے گی کیونکہ مسٹر ٹرمپ کے وکلا کو دو ہفتوں کے لیے دفاعی خاکہ تیار کرنے کی مہلت دی جائے گی۔

ڈیموکریٹس کا سابق صدر پر چھ جنوری کو امریکی کیپٹل ہل میں ہونے والے مہلک فساد کو بھڑکانے کا الزام ہے۔

ایوان نے گذشتہ ہفتے مسٹر ٹرمپ پر تشدد کو بھڑکانے کا الزام عائد کرکے سینیٹ کی کارروائی کی راہ ہموار کی تھی۔ اس روز کے فسادات میں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

ٹرمپ کا مواخذہ، بائیڈن کی صدارت کے پہلے 100 دنوں پر کس طرح اثرانداز ہو گا؟

صدر ٹرمپ کا مواخذہ تو ہو گیا لیکن کیا وہ خود کو معاف بھی کر سکتے ہیں؟

ٹرمپ مواخذہ: ڈیمو کریٹس کا بولٹن سے گواہی کا مطالبہ

ان کے دوسرے مواخذے کی سماعت ٹھیک ایک سال بعد شروع ہوگی۔ اس سے قبل والی سماعت کے دوران سینیٹ نے انھیں طاقت کے ناجائز استعمال اور کانگریس کی کارروائی میں رکاوٹ کے الزامات سے بری الذمہ قرار دیا تھا۔

اُس معاملے میں ان پر یہ الزامات لگے تھے کہ انھوں نے یوکرین پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ جو بائیڈن اور ان کے بیٹے کو داغدار بنانے میں تعاون کرے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی میعاد صدارت بدھ کے روز ختم ہوگئی اور وہ اپنے جانشین جو بائیڈن کی حلف برداری کی مخالفت کرتے ہوئے واشنگٹن سے روانہ ہوگئے۔

کیپیٹل ہل کے فسادات سے قبل ایک ریلی سے ان کا خطاب ان کے خلاف ہونے والے مواخذے کے مقدمے کا مرکز ہے۔

جب مظاہرین کیپیٹل ہل کی عمارت کی جانب بڑھ رہے تھے تو اس وقت کے صدر نے وائٹ ہاؤس کے قریب مظاہرین سے کہا تھا کہ وہ ‘پُرامن اور وطن پرستانہ انداز’ میں اپنی آواز اٹھائیں تاکہ وہ سنیں جائیں۔

خیال رہے کہ کیپیٹل ہل امریکی کانگریس کا دفتر ہے۔ اس وقت انھوں نے مظاہرین سے ‘بری طرح لڑنے’ کے لیے بھی کہا تھا۔

کیپیٹل ہل

کیپیٹل ہل پر حملے کی تصاویر پوری دنیا میں دیکھی گئیں

سینیٹ کے قائدین نے کس بات پر اتفاق کیا؟

سینیٹ کے اعلی ڈیموکریٹک رہنما چک شومر نے جمعہ کے روز کہا کہ ایوان سوموار کے روز مواخذے کا مضمون – یا چارج عائد کرے گا۔

مسٹر شومر نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: ‘سینیٹ ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کا مقدمہ چلائے گا۔ یہ ایک مکمل ٹرائل ہوگا۔ یہ ایک منصفانہ سماعت ہوگی۔’

ایوان کے ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ اس مضمون کو سوموار کے روز مقامی وقت کے مطابق شام سات بجے بجے کانگریس کے ایوان بالا میں پہنچایا جائے گا۔

مواخذے کے ڈیموکریٹ منتظمین، ایوان کے قانون ساز جو سینیٹ کے مقدمے کی سماعت کے دوران استغاثہ کے فرائض سرانجام دیں گے، وہ منگل کو حلف اٹھائیں گے۔

سینیٹ کے رپبلکن رہنما مچ مککونل کے دفتر نے کہا کہ انھیں خوشی ہے کہ مسٹر شومر نے مقدمے کی سماعت سے پہلے کے مرحلے کے لیے مزید وقت کے مطالبے کی ان کی درخواست پر اتفاق کیا اور یہ کہ یہ مقدمہ اب نو فروری کو شروع ہوگا۔

ایک بیان میں کہا گیا ہےکہ ‘ایوان میں خاص طور پر تیز اور کم سے کم پراسیس کے تحت رپبلیکن اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تیار ہیں سینیٹ کے اگلے اقدامات میں سابق صدر ٹرمپ کے حقوق اور واجب پراسیس کے ساتھ سینیٹ کے ادارے اور صدارت کے دفتر کا احترام کیا جائے گا۔

‘مقصد حاصل کرلیا گیا ہے۔ یہ مناسب پراسیس اور انصاف کی جیت ہے۔’

چک شومر

چک شومر

مواخذے کی بنیادی باتیں

مواخذہ کیا ہے؟ مواخذہ تب ہوتا ہے جب کسی صدر پر ان کے دور اقتدار میں جرائم کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں سابق صدر ٹرمپ پر الزام ہے کہ انھوں نے بغاوت کو اکسایا۔

اب تک کیا ہوچکا ہے؟ ایوان نمائندگان نے مسٹر ٹرمپ کے خلاف 13 جنوری کو دوسری بار مواخذہ کرنے کے حق میں ووٹ دیا، اس عمل پر سماعت کے لیے اس ے سینیٹ میں منتقل کردیا، لیکن ابھی سماعت شروع بھی نہ ہو سکتی تھی کہ 20 جنوری کو ان کا دور اقتدار ختم ہو گیا۔

تو اب اس کا کیا مطلب ہے؟ اگرچہ مسٹر ٹرمپ کی صدارت کی میعاد ختم ہوگئی ہے تاہم ابھی بھی ان کے خلاف مقدمے کی سماعت ہو سکتی ہے اور سینیٹرز انھیں دوبارہ عوامی عہدے پر فائز ہونے سے روکنے کے لیے ووٹ دے سکتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کا کیا موقف ہے؟

اس سے قبل جمعہ کے روز صدر بائیڈن بھی یہ عندیہ دیتے نظر آئے کہ وہ مقدمے کی سماعت میں تاخیر کو ترجیح دیں گے۔ انھوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ فوری طور پر داخلہ امور کے حل کے لیے قانون سازی کرنا چاہتے ہیں: ‘ان بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں اٹھنے اور دوڑنے میں جتنا زیادہ وقت ملے گا اتنا ہی بہتر ہے۔’

ٹرمپ

بہرحال وائٹ ہاؤس یہ نہیں کہے گا کہ آیا مسٹر بائیڈن کے خیال میں مسٹر ٹرمپ کو سزا سنائی جانی چاہیے یا نہیں۔

پریس سکریٹری جین ساکی سے جب جمعہ کے روز پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ‘[جو جو بائیڈن] اب سینیٹ میں نہیں ہیں اور یہ سینیٹ اور کانگریس پر ہے کہ وہ سابق صدر کو جوابدہ ٹھہرائیں۔’

کیا ٹرمپ کو سزا سنائی جائے گی؟

اگرچہ اب ڈیموکریٹس کو سینیٹ میں خفیف سی اکثریت حاصل ہے تاہم انھیں مسٹر ٹرمپ کو مجرم قرار دینے کے لیے انہیں کم از کم 17 رپبلیکنز کی حمایت کی ضرورت ہوگی، کیونکہ اس طرح کے معاملے میں دو تہائی ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

لیکن مسیسیپی سے ریپبلکن سینیٹر روجر ویکر نے جمعہ کے روز سی این این کو بتایا: ‘سزا ملنے کے امکانات عملی طور پر صفر ہیں۔’

صرف پانچ رپبلیکن سینیٹرز۔ یوٹاہ کے مٹ رومنی، الاسکا کی لیزا مرکووسکی، نیبراسکا کے بین ساسے، مین کے سوسن کولنز اور پنسلوانیا کے پیٹ ٹومی کو ممکنہ طور پر منحرف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

امریکہ

ہاؤس سپیکر نینسی پیلوسی مواخذے کے مضمون کے ساتھ

مسٹر ٹرمپ اب تک کے پہلے سابق صدر ہوں گے جن پر سینیٹ کے ذریعہ مقدمہ چلایا جائے گا۔ کسی بھی صدر کو کبھی بھی ایسی کارروائی میں سزا نہیں سنائی گئی ہے، اور اگر مسٹر ٹرمپ کو قصوروار ٹھہرایا گیا تو انھیں مستقبل میں کسی عہدے پر فائز ہونے سے روک دیا جاسکتا ہے۔

جمعہ کے روز مسٹر ٹرمپ سے فلوریڈا کے ویسٹ پام بیچ میں واقع ٹرمپ انٹرنیشنل گالف کلب میں واشنگٹن ایگزامینر کے ایک رپورٹر نے رابطہ کیا۔

سابق صدر سے ان کے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے نجی کلب میں اپنے باقاعدہ دسترخوان سے صحافی کو بتایا کہ اس کے متعلق ‘ہم کچھ کریں گے، لیکن ابھی نہیں۔’ انھوں نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ ان کے ایک معاون نے اس مختصر ملاقات کو ختم کر دیا۔

مسٹر ٹرمپ اپنے دوسرے گولف کلب مار-اے-لاگو میں پانچ میل دور مقیم ہیں، جسے وہ اپنا ‘سرمائی وائٹ ہاؤس’ کہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp