افغان جنگ: بائیڈن انتظامیہ سابق صدر ٹرمپ اور طالبان کے امن معاہدے کا جائزہ لے گی


افغانستان
امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ سابق صدر ٹرمپ اور طالبان کے درمیان طے ہوئے افغان امن معاہدے کا جائزہ لے گی۔

امریکی صدارتی دفتر کی ترجمان کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاوس اس بات کی یقین دہانی کرنا چاہتا ہے کہ افغان طالبان ملک میں تشدد میں کمی اور دہشت گرد عناصر سے اپنے تعلقات ختم کرنے سمیت اس معاہدے کے تحت کیے گئے ‘اپنے وعدوں کی پاسداری کر رہے ہیں’

امریکی صدر جو بائیڈن کے اعلیٰ مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان نے اس جائزے کی تصدیق کے لیے افغان حکام سے بات کی ہے۔

افغانستان میں حالیہ چند ماہ کے دوران ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آئی ہے۔

افغانستان میں امریکہ فوجی کی موجودگی کی تاریخ سنہ 2001 سے شروع ہوئی جب امریکی فوج نے گیارہ ستمبر کے بعد طالبان کی حکومت گرانے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا گیا تھا۔

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ یہ تحریک طالبان ایک عسکریت قوت کی حیثیت سے دوبارہ منظم ہوگئی اور 2018 تک منتخب ہونے والی حکومتوں کے لیے ایک خطرہ بنی رہی اور افغانستان کے دوتہائی سے زیادہ حصے میں سرگرم عمل رہی۔

افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح نے رواں ماہ بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کے خیال میں امریکہ نے اس افغان امن معاہدے میں طالبان کی بہت سے شرائط مان لی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

افغان حکومت، طالبان کے درمیان معاہدہ: کیا ’دیرپا امن‘ کی راہ ہموار ہو رہی ہے؟

افغان امن مذاکرات کی کامیابی ’کابل اور دلی کو اور قریب لے آئے گی‘

جو بائیڈن کی نئی انتظامیہ کو مشرق وسطیٰ میں کن مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے؟

افغانستان

امریکہ طالبان معاہدہ ہے کیا؟

سابق امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے افغانستان سے ترجیحی بنیادوں پر اپنی فوج واپس بلانے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

گذشتہ برس فروری 2020 میں طے پانے والے معاہدے میں کہا گیا تھا کہ اگر طالبان اپنے وعدوں پر عمل کرتے ہیں اور اگر وہ القاعدہ یا دیگر عسکریت پسندوں کو وہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں کام نہیں کرنے دیں گے اور قومی امن مذاکرات کے تحت آگے بڑھیں گے تو امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی 14 ماہ میں تمام فوجیں افغانستان سے واپس بلا لیں گے۔

البتہ قدامت پسند اسلامی تحریک طالبان نے اس تاریخی معاہدے کے تحت بین الاقوامی فوجوں پر حملوں کو روک دیا تھا مگر وہ افغان حکومت کے ساتھ لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس معاہدے میں افغان حکومت سے مذاکرات کے لیے طالبان نے قیدیوں کے تبادلے میں اپنے ہزاروں افراد کو رہا کرنے کی شرط بھی رکھی تھی۔

اس معاہدے پر براہ راست مذاکرات کا آغاز گذشتہ برس سمتبر میں دوحا میں ہوا تھا تاہم اس پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

واضح رہے کہ ان مذاکرات کے باوجود ملک میں تشدد کے واقعات اب بھی بہت زیادہ ہیں اور گذشتہ چند ماہ کے دوران صحافیوں، سیاستدانوں، خواتین ججوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ٹارگٹ گلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ کیا کرنا چاہتی ہے؟

امریکہ کی قومی سلامتی کونسل نے جمعے کو اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ صدر بائیڈن کے نئے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان نے افغان ہم منصب حمد اللہ محب سے رابطہ کیا ہے اور ‘ان پر واضح کیا ہے کہ امریکہ اس معاہدہ کا جائزہ لینے کا خواہش مند ہے،’ تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ طالبان اس معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کی پاسداری کر رہے ہیں یا نہیں۔

افغانستان

ترجمان نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ امریکی مشیر برائے قومی سلامتی سلیوان نے افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے امریکی حمایت پر تبادلہ خیال بھی کیا ہے۔

امریکی ایوان صدر کی ترجمان ایملی ہورنی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘مسٹر سلیوان نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ ایک مضبوط اور علاقائی سفارتی کوششوں کے ذریعے افغان امن عمل کی حمایت کرے گا ، جس کا مقصد دونوں فریقوں کو پائیدار اور انصاف پسندانہ سیاسی تصفیہ اور مستقل جنگ بندی کے حصول میں مدد فراہم کرنا ہوگا۔’

ترجمان نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ امریکی مشیر برائے قومی سلامتی سلیوان نے افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے امریکی حمایت پر تبادلہ خیال بھی کیا ہے۔

سنہ 1990 کی دہائی میں طالبان کے دور میں خواتین کو سکول جانے یا ملازمت کی اجازت نہیں تھی۔ عسکریت پسندوں کا کہنا ہے کہ وہ اب خواتین کی تعلیم ، یا ان کے کام کرنے کی مخالفت نہیں کرتے ہیں ، لیکن افغانستان میں بہت سے لوگوں میں اس حوالے سے شکوک و شبہات ہیں۔

یہ اطلاعات صدر بائیڈن کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے انتخاب کے ایک دن بعد ان کی باضابطہ تقرری کے موقع پر سامنے آئی تھیں کہ بائیڈن انتظامیہ ‘اس نام نہاد طویل جنگ کا خاتمہ’ کرنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے ہم ان حالات تک پہنچے ہیں۔’

اس وقت افغانستان میں امریکہ کے تقریباً 2500 فوجی تعینات ہیں جو کہ اس جنگ کے 20 برس قبل آغاز سے لے کر اب تک کی سب سے کم تعداد ہے۔

طالبان نے اس سے قبل بی بی سی کو بتایا تھا کہ اگر تمام بین الاقوامی فوجیوں کو موسم بہار سے قبل واپس نہیں بلایا جاتا جیسا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے قبول کیا تھا تو وہ دوبارہ بین الاقوامی فوجوں پر حملے شروع کر دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp