ٹیٹوال کے کتوں کے پٹے کہاں ہیں؟


منٹو بھی عجیب آزاد مرد تھا، کتے بھی اس کی افسانہ گردی سے محفوظ نہیں رہ پائے، شاید منٹو کو کتوں کی ہی ہائے لگی اور اس پر پے درپے اینٹی افسانہ گردی کے تحت پرچے کٹے۔ کتوں کی وفا یاد رکھنے کے لائق ہوتی ہے۔ ٹیٹوال کے کتے منٹو کی بے لاگ افسانہ گردی کی بنیاد پر مشہور ہوئے، مگر پھر یوں ہوا کہ ٹیٹوال بھی نہ بچ پایا اور کتوں سمیت دشمن کے ہاتھ لگ گیا۔

ٹیٹوال اور کتوں کے ہاتھ سے جانے کے بعد ہمارے ماحول میں مختلف الانواع کتوں نے جنم لیا، ٹیٹوالیوں کے غم میں چند انسانوں نے بھی کتوں کی عادات پال لیں، یہ کتے ٹیٹوال کے تو نہیں بن سکے البتہ ٹیٹوال کے کتے بن گئے۔ شروع شروع میں یہ کتے صرف ٹیٹ کے کتے تھے مگر سائنس کی برق رفتار ترقی نے انہیں ’وال‘ عطا کی اور یہ ٹیٹوال کے کتے بن گئے۔

ٹیٹوال کے کتے، قریہ قریہ بستی بستی ان سے آباد ہے۔ کسی گاڑی میں محو سفر ہوں، ٹرین کی چھکا چھک سے لطف اندوز ہو رہے ہوں یا ہوائی جہاز میں سوار ہوئے بادلوں کو للکار رہے ہوں، ٹیٹوالیے آپ پر ٹکٹکی باندھے بیٹھے ہوں گے۔ کون کہاں جا رہا ہے، کیا کھا رہا ہے، کون سی لڑکی کالج اور یونیورسٹی میں کس سے بات کرتی ہے، موبائل فون کون سی کمپنی اور ماڈل کا رکھتی ہے، کس گاڑی یا رکشہ پر سفر کرتی ہے، الغرض ہر قسم کی معلومات اکٹھی کرنا اور اپنی ’وال‘ پر لگانا ٹیٹوالیوں کی خدمات کے اہم پہلو ہیں۔

سائبر قانون سے عاری ملک میں جہاں نام نہاد عزت سے بلیک میل ہو کر لوگ دبکے رہتے ہیں وہاں تو ٹیٹوال کے کتوں کی چاندی ہے۔ نوجوان لڑکیاں ٹیٹوال کے کتوں کا پسندیدہ اور آسان ہدف ہیں۔ ٹیٹوال کے کتوں کو بھی بخوبی علم ہے کہ کوئی بھی باعزت شخص ان کے خلاف علم جہاد بلند نہیں کر سکتا کیونکہ ہم تک پہنچنے سے پہلے اسے عزت سے معرکہ آراء ہونا پڑے گا اور عزت کے پل صراط سے گزر کر آج تک کوئی جنت میں نہیں پہنچ پایا۔

سائبر قانون سے عدم واقفیت، اس قانون پر عمل درآمد کا فقدان ، اداروں کی ناقص پیشہ ورانہ قابلیت اور پولیس کے شہریوں کے ساتھ چبھتے رویے نے ٹیٹوال کے کتوں کی پانچوں گھی میں کی ہوئی ہیں۔ کتے اپنی وال پر جس پر مرضی آئے بھونک لیں، مختلف سافٹ ویئرز کی مدد سے جس کی چاہیں من چاہی تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر ٹانگ  دیں، واٹس ایپ گروپوں میں وائرل کر دیں کسی کو کیا پروا، عوام کو تو بس چسکے کا سامان چاہیے جو ٹیٹوال کے کتے ہمہ وقت بہم پہنچا رہے ہیں۔

ٹیٹوال کے کتوں نے بہت ساری زندگیوں پر ہاتھ صاف کر لیے ہیں، کئی گھر اور مستقبل اجاڑ دیے ہیں، کئی عزتیں خاک میں ملا دی ہیں، مگر کس کی جرأت کہ وہ کسی کتے پر پتھر اٹھا پائے۔ کتا تو کتا ہے جس پر مرضی ہوئی بھونک لیا، سائبر قانون کے کاغذی گورکھ دھندے اور متاثرہ افراد کی پرائیویسی کی عدم موجودگی ٹیٹوال کے کتوں کی اہم خوراک ہے۔

سبھی لوگ جانتے ہیں کہ وہ شکایت لے کر پولیس کے پاس نہیں جا سکتے، جائیں گے تو کیا کہیں گے کہ کیا شکایت درج کریں، ان جرائم کے ابھی تک ریٹ تک طے نہیں ہوئے تو شکایت کی فیس کیا دیں گے؟پولیس کے آڑے ترچھے سوالوں کے کیا جواب دیں گے؟ پھر پولیس پرائیویسی بھی تو نہیں رکھتی، اس کا کیا کریں گے؟

اس قبیل کے بہت سارے دوسرے سوالات کے جوابات گولی، زہر، دریا میں چھلانگ، ٹرین کی پٹڑی، تیزاب یا غیرت کے نام پر قتل کی صورت میں برآمد ہوتے ہیں۔ ٹیٹوال کے کتے تو اطمینان سے جام و مینا سے لطف اندوز ہو رہے ہیں کہ یار بس وہ تو ہم نے کچھ نہیں کیا۔ ذمہ دار ادارے بھی تنخواہیں جیب میں ڈالے بازاروں کا رخ کر لیتے ہیں اور ٹیٹوال کے کتے مزید کتے ہو جاتے ہیں۔

ٹیٹوال کے کتوں کے خلاف بہ وجوہ شکایات نہیں ہوتیں، شکایات نہیں ہوتیں تو ظاہر ہے کہ کارروائیاں بھی نہیں ہوتیں، اس ضمن میں گنتی کے چند لوگ خود ہی کتوں کو پٹہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پٹے ڈالنے کے عمل کے دوران بہت سے کتے باز بھی آ گئے، بہت سوں کو معذوری کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے اور بہت سے ہلاک بھی ہوئے مگر ٹیٹوالیے تو ٹیٹوالیے ہیں کہاں باز آتے ہیں۔

سوال مگر یہ ہے کہ اس دور میں جب سوشل میڈیا ایک تفریحی اور معلوماتی مقام بن چکا ہے، لوگوں کی روزمرہ زندگی کا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر گزر رہا ہے، یوں کہیے کہ سوشل میڈیا اب زندگی کا جزو لاینفک بن گیا ہے تو اس سے متعلقہ قوانین کیوں نافذ نہیں ہیں؟ نافذ ہیں بھی تو ان سے مستفید ہونے کے لیے کیا کیا جائے؟ فرد کی پرائیویسی کی کیا ضمانت ہے اور پرائیویسی لیک کرنے والے اہل کار کے لیے کیا سزا ہے؟ تحقیقات کے دوران متاثرہ فرد کی عزت نفس کی کیا ضمانت ہے؟ کیا کتے بھونکتے رہتے ہیں اور قافلے چلتے رہتے ہیں ہی سے کام چلایا جاتا رہے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).