عجیب دُکھ ہے


ہمارے معاشرے کو میرج کونسلنگ کی ضرورت ہے تاکہ اس رشتے میں بڑھتے ہوئے بدصورت رویوں کو دور کیا جا سکے۔ یاد رکھیے رشتوں یا تعلقات میں توازن اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک دوسرے کو سننے اور سمجھنے کا حوصلہ ہو۔ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹیوں کا نصیب اچھا ہو۔ پیدا ہوتی ہے تو اسے نیک نصیبوں کی دعا دی جاتی ہے۔ شادی ہونے تک اسے یہی دعا ملتی ہے، یعنی ہمارے ہاں لوگ بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی ایک خوف کا شکار ہو جاتے ہیں اور وہ ہے اس کے مقدر کا خوف۔

والدین بھول جاتے ہیں کہ مقدر کے لکھے کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ جو امر ہونا ہے وہ ہو کر رہنا ہے۔ شادی شدہ زندگی کی پہیلیوں کو کوئی بھی نہیں سمجھ سکا۔ شادی صرف ایک عورت کی ذات کی تکمیل نہیں بلکہ نکاح سے مرد کی ذات کی بھی تکمیل بھی ہوتی ہے۔ مگر بعض اوقات یہ مرد کہیں احساس برتری تو کہیں احساس کمتری میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ ان سے وابستہ افراد ان سے بہت دور ہو جاتے ہیں۔

نکاح کا رشتہ صرف سچ کی بنیاد پر ہی قائم کیا جا سکتا ہے، اگر اس میں جھوٹ شامل ہو جائے تو پھر یہ زیادہ دور تک نہیں چل سکتا۔ جھوٹ کی بنیاد پر رکھے جانے والے رشتوں کی بنیاد بہت کھوکھلی ہوتی ہے اور عمر مختصر۔ تاہم اسے صرف اہل عقل و شعور والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔

وہ جو کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے، وہ غلط کہتے ہیں کیونکہ محبت کا اپنا فلسفہ ہے اور جنگ کا اپنا۔ جنگ فتح کے لیے، غلبے کے لیے لڑی جاتی ہے جبکہ محبت تکمیل ذات کا سفر ہے، جس میں کسی کو تکلیف دینے کا رواج ہی نہیں۔ اس لیے جن رشتوں کی بنیاد سچ پر ہو وہ ادھورے ہو کر بھی ایک دوسرے کو مکمل کر دیتے ہیں۔

ہمارے ہاں سماجی زندگی میں دکھاوا اور بناوٹ اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ دوسروں کی بیٹیوں کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ ایک باپ کی اس بے حسی کا نوحہ معروف شاعر ارشاد احمد نے یوں لکھا ہے :

عجیب دکھ ہے
کسی کو کچھ بھی خبر نہیں ہے کہ بوڑھے ماں باپ کس اذیت میں اپنی بیٹی بیاہتے ہیں
کہاں پہ عزت کو گروی دھر کے جہیز دیتے ہیں تاکہ بیٹی سکون سے زندگی گزارے
عجیب دکھ ہے
کہ بیٹی آئے تو خوب روئے
یہ بوڑھی روحوں سے کیسے برداشت ہو گا
ان کو خبر ملے جب
کہ ان کا داماد مرد بننے کی جستجو میں گلی کے آوارہ کتے جیسا سلوک کرتا ہے، ان کی نازوں پلی کو دانتوں سے کاٹتا ہے، غراتا ہے اور بھونکتا ہے
نہیں بتاتا کہ عمر اس نے گزار دی ہے برائیوں میں۔

اگرچہ لہجے میں خوب سختی ہے اور سختی نہیں بدن میں تو ڈھیلے پن کی ندامتوں کا وہ سارا ملبہ گرا کے منکوحہ پر دکھاتا ہے زور مردانگی، اگرچہ یہ زور مردانگی نہیں ہے کمینگی ہے

عجیب دکھ ہے

کمینے لوگوں کو اس کا احساس تک نہیں ہے، جنم دیا ہے جو ایک بھڑوے کو جس کی عادات ہیجڑوں جیسی ہیں تو شادی بیاہ کی پھر ہے کیا ضرورت، کسی کے گھر کو تباہ کرنے کی کیا ضرورت

نماز روزہ زکوٰۃ اور حج سبھی فرائض نبھانے والے، عقیدتوں کی یہ بھاری گٹھڑی اٹھانے والے کسی کی عزت کو روندتے ہیں تو اجر کیا ان کو پھر ملے گا

انہیں بتاؤ کوئی تو ان کو خدایا سمجھاؤ کہ کسی کی جب ایسے عزت سے کھیلتے ہیں تو ان کی عزت بھی کوئی روندے گا اور یونہی گلہ کریں گے، خدا کے ہاں دیر ہے نہیں ہے اندھیر کوئی، ڈریں خدا سے نماز روزے زکوٰۃ حج کا انہیں کوئی اجر نہ ملے گا۔

عجیب دکھ ہے

یہ بھڑوے اپنی ندامتوں کو حقیقتوں کو نہیں چھپائیں، انہیں بتاؤ پہن کے ملبوس فاحشہ کا، سجا کے چہرہ لبوں پہ سرخی، غلیظ آنکھوں میں تیز سرمے کی ڈوریاں اور اپنی پلکوں پہ دھار مسکارے کی لگا کر کسی سڑک پر اشارے کرتے بلاتے گاہک کو تاکہ ان کی ادھوری مردانگی کو تسکین آئے، کوئی اجاڑے نہ گھر کسی کا

عجیب دکھ ہے
کسی کی بیٹی کے دکھ کو سمجھو

تمہاری بیٹی اگر نہیں ہے تو یہ اذیت نہیں کھلے گی تمہارے ذہنوں پہ، تم تو مردانگی کے دعوے سے پیچھے ہٹنے کی جستجو سے ڈرے ہوئے ہو

مرے ہوئے ہو
عجیب دکھ ہے
عجیب دکھ ہے

اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں ہر 3 میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں جسمانی، جنسی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ اس کا عورت ہونا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنا، ان پر جسمانی تشدد کرنا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا یا جنسی طور پر ہراساں کرنا، ایسا رویہ اختیار کرنا جو صنفی تفریق کو ظاہر کرے، غیرت کے نام پر قتل، کم عمری کی یا جبری شادی، وراثت سے محرومی، تیزاب گردی اور تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا نہ صرف خواتین بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس خواتین پر تشدد کے حوالے سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں گھر کو ہی خواتین کے لیے سب سے زیادہ غیر محفوظ قرار دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں 50 ہزار خواتین اپنے ہی گھر میں اپنوں ہی کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے کے بعد قتل ہوئیں۔ ان خواتین کے خلاف پرتشدد اور جان لیوا کارروائیوں میں ان کے خاوند، بھائی، والدین، پارٹنرز یا اہل خانہ ملوث تھے۔

کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن نے خواتین کے لیے گھر کو مزید غیر محفوظ بنا دیا۔ گزشتہ 8 ماہ کے دوران کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کی وجہ سے مردوں نے گھروں پر رہنا شروع کیا تو گھریلو تشدد میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق خواتین اپنے پرتشدد شوہر یا پارٹنرز کے ساتھ گھروں میں قید ہو گئیں اور ان کے لیے کوئی جائے فرار نہیں بچی۔ صرف برطانیہ میں گھریلو تشدد کے سبب ہاٹ لائن پر مدد مانگنے والوں کی تعداد میں 120 فیصد اضافہ ہوا، امریکا میں یہ شرح 20 فیصد زیادہ رہی۔

مرد اپنی ہر طرح کی وحشت کا نشانہ عورت کو ہی بناتا ہے۔ جہاں اسے جسمانی تشدد کا موقع نہیں ملتا وہاں وہ لفظوں کے نشتر سے اسے اس حد تک خوفزدہ کر دیتا ہے کہ کہیں کہیں وہ خود کشی جیسا انتہائی قدم بھی اٹھانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ نئی تحقیق کے مطابق تمام جانداروں میں انسان ہی اپنی نسل کی مادہ پر سب سے زیادہ تشدد کرتا ہے۔

فرانسیسی پیلیو اینتھروپولوجسٹ پاسکل پیک نے اپنی حالیہ تحقیق ’اور ارتقا نے عورت کو تخلیق کیا‘ میں وہ ابتدائی انسانی معاشروں میں مردوں اور عورتوں کے مابین تعلقات کے مسئلے پر توجہ دیتے ہیں۔ اپنی تحقیق میں وہ کہتے ہیں کہ اپنی نوع کے تمام حیوانات میں انسان اپنی جنس مخالف کی طرف سب سے زیادہ متشدد رویہ رکھتا ہے۔

کہتے ہیں کہ بات کرنے سے، اپنوں سے شیئر کرنے سے مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے ان کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔ مگر اسے ہماری معاشرتی تربیت کا نام دیں، بزدلی کا یا والدین سے محبت کا، ہماری عورت شوہر یا سسرال کے تشدد کو اپنی قسمت کا لکھا ہوا سمجھ کر قبول کر لیتی ہے۔ وہ شوہر کے کردار کی خامیوں کو بھی قبول کر لیتی ہے کیونکہ اسے پتہ ہے کہ جہاں اس نے آواز بلند کی وہیں اسے جسمانی کے ساتھ ساتھ ذہنی، روحانی اور قلبی تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ جی یہاں اس کے کردار کو بدنما بنا کر پیش کیا جائے گا کہ پتہ نہیں کس یار کی وجہ سے زبان چلا رہی ہے۔ باہر یارانہ ہے اس لیے شوہر کے ساتھ نباہ نہیں کر رہی۔ یہ باتیں عورت کو ایک تھپڑ سے کہیں زیادہ اذیت پہنچاتی ہیں۔

والدین، بہن بھائی کوئی بھی اس کو سننے، سمجھنے اور ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ مرد کے متشدد رویے کو اس کے پیار کا ایک انداز قرار دے کر عورت کو اسے جہاں ہے جیسا ہے کہ بنیاد پر قبول کرنے کا درس دیا جاتا ہے۔ اسے بچوں کی خاطر سمجھوتہ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مرد بھی جانتا ہے کہ سب کی اپنی اپنی زندگی ہے، کوئی بھی اس کا ساتھ نہیں دے گا۔ جبکہ بات کرنے سے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ایک دوسرے کی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ گالی دے کر بات کرنے والے رویہ بدلے جا سکتے ہیں۔

بات کرنے سے ہی غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے اور سننے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے فریقین کے بڑوں کا کردار نہایت اہم ہے۔ رشتے نبھانے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور نبھانے کے لیے سچ، احترام اور ایثار اہم ترین پہلو ہیں۔ مرد اگر عورت کو بطور انسان تسلیم کر لے تو اس کی اپنی زندگی آسان ہو جائے۔ عورت بھی ایسے مرد کی بہت عزت کرتی ہے جو اس کے وقار کا احترام کرے۔ محبت وقتی جذبہ نہیں ہے جبکہ رشتے میں پنپنے والی محبت صرف دو انسانوں کو نہیں بلکہ ایک پوری نسل کو انسان دوست بنا دیتی ہے اور معاشرے کو انسان دوست لوگوں کی ضرورت ہے نہ کہ متشدد ذہنیت کے حامل افراد کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).