ڈونلڈ ٹرمپ: امریکہ کے سابق صدر کی سیاست کیا اب ختم ہو جائے گی؟


ٹرمپ
بدھ کو ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک آخری بار ایئر فورس ون طیارے میں سفر کیا۔ جب فرینک سیناٹرا کا گانا ’مائی وے‘ جوائنٹ بیس اینڈریوز میں لاؤڈ سپیکر پر چل رہا تھا تو اس وقت جلد ہی سابق صدر بننے والے ٹرمپ فلوریڈا میں اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے تھے۔

انھوں نے اپنے حامیوں کی ایک چھوٹی سی محفل میں وعدہ کیا تھا کہ وہ ’کسی بھی کردار‘ میں واپسی کر سکتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ کی سیاسی تحریک جو انھوں نے 2016 میں کامیابی سے شروع تھی اس کا مستقبل غیر واضح ہے۔

دو ماہ قبل نومبر میں وہ اپنی شکست کے بعد بھی امریکی سیاست میں ایک طاقتور قوت بننے کی حیثیت رکھتے تھے۔ انھیں رپبلکنز کی حمایت حاصل تھی۔ جماعت کے سیاستدان انھیں پسند کرتے تھے یا ان سے ڈرتے تھے۔ عوامی رائے شماری کے نتائج میں بتایا جاتا تھا کہ تقریباً نصف امریکہ انھیں مثبت سمجھتا ہے۔

پھر ٹرمپ نے یہ دو ماہ بغیر ثبوت انتخابی دھاندلی کے الزامات لگانے میں گزارے، الیکشن میں کڑے مقابلے والی ریاستوں میں جماعت کے اہلکاروں سے جھگڑے کیے، جارجیا کے انتخابات میں دو موجودہ رپبلکن رہنماؤں کے حق میں ناکام مہم چلائی اور اپنے حامیوں کے ہجوم کو تشدد پر اکسایا جنھوں نے امریکی کیپیٹل ہِل کے مقام پر حملہ کردیا۔

ٹرمپ کا مواخذہ دوسری مرتبہ امریکی ایوان نمائندگان نے منظور کیا اور اگر سینیٹ میں ان کے خلاف الزامات ثابت ہوجاتے ہیں تو ان کے سرکاری عہدہ رکھنے پر تاحیات پابندی لگ جائے گی۔

یہ بھی پڑھیے

تاریخ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کیسے یاد رکھے گی؟

چھ جنوری صدر ٹرمپ کی سیاسی میراث کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟

جب ٹرمپ حلف برداری میں ہی نہیں آئے تو ’ایٹمی بریف کیس‘ نئے صدر تک کیسے پہنچا؟

سیاست میں اپنے پانچ سالہ کریئر کے دوران ٹرمپ ایسی مشکل گھڑیوں سے باآسانی نکل گئے جو ویسے اکثر رہنماؤں کو ڈبو سکتی تھیں۔ فریڈی کروگر سے بھی زیادہ ان کے بارے میں یہ کہا گیا کہ ’اس کی سیاست تو اب ختم ہے۔‘ لیکن اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کو ڈبویا نہیں جاسکتا۔ وہ کشتیوں کی دنیا میں آب دوز ہیں۔

لیکن اب ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

اب ان کی صدارتی قوت اور سوشل میڈیا پر طاقت چھین لی گئی ہے۔ انھیں قانونی اور مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ کیا اب بھی وہ ایک کامیاب سیاسی واپسی کر سکتے ہیں؟ فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ مار اے لاگو میں ان کی واپسی کیا ویسی ہی ہوگی جیسے فرانسیسی رہنما نپولین کو سینٹ ہیلینا جزیرے پر قید کیا گیا تھا؟ یا ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ ٹرمپ کی حمایت کرنے والے کروڑوں لوگ اب کسی اور رہنما سے امید لگائیں گے؟

ٹرمپ کی حمایت کرنے والے اب بھی بہت زیادہ

امریکی کیپیٹل ہِل پر ہنگاموں کے بعد عوامی رائے شماری کے نتائج میں ان کے بارے میں مثبت رائے مکمل صدارتی دور کی نسبت سب سے کم ہوگئی تھی۔ اس سے لگتا ہے جیسے ان کا سیاسی مستقبل ہمیشہ کے لیے کمزور پڑ چکا ہے۔

لیکن اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو ابھی بھی سابق صدر ٹرمپ کی ساکھ اتنی کمزور نہیں ہوئی۔ سفید فام ڈیموکریٹ افراد، آزاد خیال لوگ اور اعتدال پسند رپبلکنز ان کے خلاف ہیں لیکن مجموعی طور پر رپبلکن جماعت میں انھیں ابھی بھی حمایت حاصل ہے۔

عوامی رائے شماری کی کمپنی ایپسوس میں امریکی عوامی امور کے صدر کلیفرڈ یونگ کے مطابق ’میرا نہیں خیال جو ہم دیکھ رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر اپنی مقبولیت یا گونج کھو چکے ہیں۔ جسے بھی یہ لگتا ہے وہ غلط ہے۔ ابھی بھی ان کے بہت سارے حمایتی ہیں۔‘

ٹرمپ کے کئی حامی ان کی اس رائے پر یقین کرتے ہیں کہ انتخاب کے دوران کئی ریاستوں میں ڈیموکریٹس اور رپبلکنز نے دھاندلی کی۔ انھوں نے قدامت پسند میڈیا میں ایسی خبریں دیکھی ہیں جس میں دعویٰ کیا گیا کہ کیپیٹل ہِل پر ہونے والے حملہ بائیں بازو کے اینٹیفا (اینٹی فاشسٹ) گروہ نے کروایا اور وہ ان شواہد کو مسترد کرتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے دائیں بازو ملیشیا گروہ اور ٹرمپ کے حمایت یافتہ کارکنان تھے۔

ٹرمپ

گیری کیفر ریاست مغربی ورجینیا کے شہر بیکلے سے تعلق رکھنے والے 67 سالہ سابق ڈیموکریٹ ہیں جنھوں نے 2016 اور 2020 میں ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ سابق صدر الیکشن کے بارے میں سوالات اٹھانے کے بارے میں بالکل درست تھے۔ انھیں شک ہے کہ کیپیٹل پر حملے میں بائیں بازو کے کارکنان شامل تھے اور وہ اب بھی مکمل طور پر سابق صدر کی حمایت کرتے ہیں اور انھیں امید ہے کہ وہ چار سال بعد دوبارہ انتخاب لڑیں گے۔

کیفر کہتے ہیں ’اُنھوں نے ہمارے ملک کے لیے بہت کچھ کیا۔ میں نے کبھی کسی صدر کو ان کے جتنا کام کرتے ہوئے اور پھر الیکشن ہارتے ہوئے نہیں دیکھا، اور وہ ایکشن ہارے نہیں ہیں۔‘

ٹرمپ میں بہت مسائل ہوں گے مگر ان کے پرستار، جو جلسوں میں جاتے ہیں، بڑے بڑے پرچم اور بورڈ خریدتے ہیں، ان کی وفاداری مسئلہ نہیں ہے۔

پارٹی میں تقسیم

ڈونلڈ ٹرمپ نے رپبلکن اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنے والے ایک باہر کے شخص کے طور پر انتخاب لڑا۔ ان کی اپنی پارٹی کے رہنما اور صدارتی نامزدگی کے لیے اُن کے مخالفین اس گروہ کا حصہ تھے جس کا وہ مذاق اڑاتے ہوئے ڈیموکریٹس کی طرح ’کیچڑ‘ قرار دیتے تھے۔

اپنی جیت کے ساتھ وہ رپبلکن اسٹیبلشمنٹ بن گیے اور ٹرمپ کے سخت ترین مخالفین بھی بالآخر ان کی مرضی کے سامنے جھک گئے۔

رپبلکن لابیسٹ اور سینیٹ کی مہم کی حکمتِ عملی بنانے والے لیام ڈونووان کہتے ہیں کہ وہ اس لیے جھکے کیونکہ پارٹی کی رکنیت انھیں وہاں لے گئی۔ ٹرمپ نے پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں مثلاً رپبلکن نیشنل کمیٹی کی سربراہ رونا میک ڈینیئل کا تقرر کیا۔ اور ریاستی اور مقامی سطح پر رپبلکن پارٹی کے حکام ٹرمپ کے سچے ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔

ڈونووان کہتے ہیں کہ پارٹی کے ریاستی رہنما کارکن ہیں، اشرافیہ نہیں۔ پارٹی کی صفیں سخت گیر رپبلکن ہیں اور سخت گیر رپبلکن ٹرمپ کے سخت گیر حامی ہیں۔ انھوں نے انھیں بالکل تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔‘

جب تنازعات اٹھے جن میں ورجینیا میں سفید فام قوم پرستوں کے مارچ کے بعد تشدد، تارکینِ وطن کے بچوں کے رونے کی ویڈیوز سامنے آنا کیونکہ انتظامیہ کی پالیسی خاندانوں کو الگ کرنا تھا، وائٹ ہاؤس کے قریب بلیک لائیوز میٹر احتجاج کے خلاف آنسو گیس اور طاقت کا بے جا استعمال، یوکرین کے صدر پر سیاسی مدد کے حصول کے لیے دباؤ ڈالنے پر مواخذہ، اور غصے سے بھری ہوئی کئی ٹویٹس، تو رپبلکن سیاستدانوں کا عمومی ردِعمل چپ کر کے طوفان کے ٹلنے کا انتظار کرنا ہوتا تھا۔

مگر ٹرمپ کی صدارت کے آخری ہفتوں میں دراڑیں نظر آنی شروع ہوگئی تھیں۔

ٹرمپ کے حامی مشتعل ہجوم کی جانب سے چھ جنوری کو کیپیٹل پر حملے سے پہلے اس وقت سینیٹ میں اکثریتی رہنما رپبلکن پارٹی کے مچ میکونل نے خبردار کیا تھا کہ سنہ 2020 کے صدارتی انتخاب پر عوامی اعتماد کو ختم کرنے کی صدر کی کوششوں نے امریکی جمہوریت کو ’موت کے راستے‘ پر ڈال دیا ہے۔

تشدد کے بعد ان کے قریبی ساتھیوں نے یہ عندیہ دیا کہ وہ ایوانِ نمائندگان میں بغاوت پر اکسانے پر صدر کے مواخذے کی کوششوں پر ’خوش‘ تھے۔ اس ووٹ میں رپبلکن قیادت کے ایک رکن سمیت 10 رپبلکنز نے پارٹی کے خلاف جاتے ہوئے ووٹ دیا۔

اس ہفتے کے آغاز میں مچ میکونل نے اس ہنگامہ آرائی پر اپنا سب سے زیادہ براہِ راست تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس مشتعل ہجوم کو ٹرمپ اور دیگر طاقتور افراد نے ’جھوٹ سنائے‘ اور ’اشتعال دلایا‘ تھا۔

ٹرمپ

ٹرمپ سینیٹ میں رپبلکن رہنما مچ میکونل (بائیں) سے گفتگو کرتے ہوئے

میکونل کے اقدامات اس بات کا واضح ترین اشارہ ہیں کہ کم از کم کچھ رپبلکنز پارٹی اور ٹرمپ کے درمیان لکیر کھینچنا چاہ رہے ہیں۔

مگر دیگر افراد مثلاً ایوانِ نمائندگان کے 138 رپبلکنز جنھوں نے کیپیٹل ہل پر ہنگامہ آرائی کے بعد پینسلوینیا میں صدارتی انتخاب کو چیلنج کرنے کا ووٹ دیا تھا یا وہ 197 رپبلکن افراد جنھوں نے ٹرمپ کے مواخذے کے خلاف ووٹ دیا تھا، وہ اب بھی سابق صدر کے ساتھ کھڑے ہیں۔

فلوریڈا سے رپبلکن کانگریس رکن اور ٹرمپ کے وفادار حامی میٹ گیٹز نے جمعرات کو ٹویٹ کی کہ ’صدر ٹرمپ اب بھی رپبلکن پارٹی اور ’سب سے پہلے امریکہ‘ تحریک کے رہنما ہیں۔

ڈونووان کہتے ہیں کہ ایوانِ نمائندگان میں موجود رپبلکنز سینیٹ کے مقابلے میں پارٹی کی بنیادی حمایت کی زیادہ بہتر عکاسی کرتے ہیں، کیونکہ سینیٹ کے برعکس انھیں ہر دو سال میں منتخب ہونا ہوتا ہے۔ اگر میکونل اور رپبلکن پارٹی کی اعلیٰ قیادت ٹرمپ سے بالکل دوری اختیار کر لینا چاہتی ہے تو اس سے پارٹی ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہوجائے گی۔

ایک کارپوریٹ بغاوت

کئی دہائیوں سے رپبلکن پارٹی سماجی قدامت پسندوں اور کاروباری مفادات کا ایک سنگم رہی ہے۔ کاروباری مفادات پارٹی کی جانب سے کم ٹیکسوں اور کم ضوابط کی پارٹی پالیسی کو پسند کرتے رہے اور اسقاطِ حمل پر پابندی، مذہبی آزادی کے اقدامات، اسلحہ رکھنے کے حقوق اور دیگر اہم سماجی مسائل پر قدامت پسندوں کی حمایت کو برداشت کرتے رہے۔

ٹرمپ کی صدارت اور ان کی جانب سے رپبلکن اتحاد کو امیگریشن مخالف اور تجارت مخالف پالیسیوں کے ذریعے وسعت دیتے ہوئے مزدور سفید فام طبقے کے لیے اپنے دروازے کھولنے کی کوشش نے اس اتحاد پر دباؤ قائم کیا ہے۔

سنہ 2018 میں مضافاتی علاقوں میں رہنے والے افراد جو رپبلکن حامی کاروبار میں کام کرتے اور انھیں چلاتے ہیں، ڈیموکریٹس کی جانب جھکاؤ رکھنے لگے تھے۔

پھر کیپیٹل ہل پر ہنگامہ آرائی کے بعد تو جیسے بند ہی ٹوٹ گیا۔ بڑی کمپنیوں بشمول والمارٹ، جے پی مورگن چیز، اے ٹی اینڈ ٹی، کوم کاسٹ اور ایمازون نے اعلان کیا کہ وہ ٹرمپ کی جانب سے صدارتی انتخاب کو چیلنج کرنے کی حمایت کرنے والے رپبلکن سیاستدانوں کی حمایت ختم کر رہے ہیں یا پھر اپنے سیاسی عطیات کو معطل کر رہے ہیں۔

ڈونووان کہتے ہیں کہ جب سیاسی پانیوں میں اتھل پتھل ختم ہوجائے تو بڑے کاروبار ایک مرتبہ پھر عطیات کے اپنے معمول کے رجحان کی جانب واپس آ سکتے ہیں یا پھر وہ یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان کے مفادات اب ٹرمپ کی وفادار رپبلکن پارٹی سے مطابقت نہیں رکھتے۔

ڈونووان کہتے ہیں کہ ’یہ ایک طویل عرصے سے ہو رہا تھا۔ ہم اب اس مقام سے کہیں آگے نکل گئے ہیں جہاں کاروبار اپنا ووٹ ہر حالت میں رپبلکنز کو دیتے تھے۔‘

کارپوریٹ عطیات ویسے تو رپبلکن پارٹی کی فنڈنگ کا صرف ایک حصہ ہیں مگر جس رفتار اور جس شدت سے یہ تبدیلی آئی، اس نے قدامت پسندوں کو حیران کر دیا ہے۔ اور تازہ ترین اقدامات پارٹی قیادت کی جانب سے مزید کوششوں کو فروغ دیں گے کہ وہ ٹرمپ کی پالیسیوں اور ان کے اندازِ سیاست کی مخالفت کریں کیونکہ وہ ڈالرز کو توجہ دیتے ہیں اور یہ کہ ڈالرز کہاں سے آتے ہیں۔

مذہبی بارگین

اگر رپبلکن پارٹی کا کارپوریٹ ونگ ٹرمپ ازم سے راستے جدا کرنے پر غور کر رہا ہے تو سماجی قدامت پسند بھی شاید زیادہ پیچھے نہ ہوں۔ دو طلاقوں، کئی معاشقوں اور غصیلی طبعیت والے شخص کے لیے ایونجلیکل مسیحیوں کی جانب سے سخت حمایت ہمیشہ متضاد نظر آتی تھی، مگر مذہبی قدامت پسند پھر بھی 2020 میں ٹرمپ کے ساتھ اس وقت جڑے رہے جب اعتدال پسند مضافاتی شہری ان سے دور ہو گئے۔

کچھ حد تک اسے وفاقی عدالتوں میں 200 آسامیوں کو پُر کرنے میں ٹرمپ کی کامیابی سے بھی سمجھایا جا سکتا ہے جن میں سپریم کورٹ کے تین ججز بھی شامل ہیں۔ ان ہی میں سے ایک مائیک پینس کو بطور نائب صدر چننے سے بھی ان کو مدد ملی۔ پالیسی کے اعتبار سے ٹرمپ انتظامیہ نے ایسا سماجی ایجنڈا آگے بڑھایا جو مسیحی قدامت پسندوں میں بھی مقبول تھا۔ اس نے عدالتوں میں مذہبی پابندیوں کی مخالفت کی اور وفاقی ہیلتھ کیئر قانون میں مانع حمل ادویات کے حوالے سے ضوابط کو مذہبی طبقے کی حمایت میں تبدیل کیا۔

ٹرمپ

اب جبکہ ٹرمپ اقتدار میں نہیں رہے ہیں، اس لیے کچھ ایونجلیکل مسیحی شاید ٹرمپ اور اُن کے سیاسی ایجنڈے کے لیے اپنی حمایت کے بارے میں دوبارہ سوچ رہے ہوں۔

آج کرسچینیٹی ٹوڈے نے اینجلکن وزیر ٹِش ہیریسن وارن کے ایک مضمون کی شہ سرخی لگائی کہ ہم (حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے والے) دانا لوگوں کے ساتھ عبادت کرتے ہیں، نہ کہ ’امریکہ دوبارہ عظیم بناؤ‘ والوں کے ساتھ۔

انھوں نے لکھا: ’ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کیپیٹل پر حملہ مسیحی روایات کے خلاف ہے۔ یہ سیاہ ہے اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ مذہبی علامات مثلاً صلیب، حضرت عیسیٰ کے نام اور پیغام کو ٹرمپ ازم کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔‘

وہ امریکہ میں مذہبی رہنماؤں پر الزام عائد کرتی ہیں کہ انھوں نے سیاسی قوت کے حصول کے لیے اخلاقیات کو بھلا دیا اور کہا کہ مذہبی برادری کے اندر اس کا احساس پیدا ہونے کا وقت قریب ہے۔

ریاست کنساس کے شہر ڈربی سے تعلق رکھنے والی لیگل اسسٹنٹ ڈییانا لسک کہتی ہیں کہ ان کی ووٹنگ میں مذہب کو اہمیت حاصل ہے اور سنہ 2016 کے رپبلکن پرائمریز میں ٹرمپ ان کا پہلا انتخاب نہیں تھے، لیکن اس کے باوجود انھوں نے اس سال اور پھر 2020 میں ان کو ووٹ دیا۔

مگر وہ کہتی ہیں کہ وہ ٹرمپ کی حمایت اور ان کے ایجنڈے کے آگے بڑھنے کو بہت اہمیت نہیں دیں گی اور اگر ٹرمپ نے دوبارہ انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تو وہ دیگر امکانات پر غور کریں گی۔

وہ کہتی ہیں: ’سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہزاروں امیدوار ایسے ہیں جو مذہبی آزادیوں کی حمایت کرتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ ہم آخر میں ایسے ہی امیدوار کی تلاش کریں گے۔‘

ٹرمپ

ٹرمپ کے بغیر زندگی

ظاہر ہے کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ اپنے احتجاج اور وعدوں کے باوجود ٹرمپ سیاسی منظر نامے سے غائب ہوجاییں۔ نئی سیاسی جماعتوں، نئے میڈیا ہاؤسز اور نئی صدارتی مہم کی باتیں تھم سکتی ہیں۔

یا شاید سینیٹ میں کم از کم 17 رپبلکنز 50 ڈیموکریٹس کا ساتھ دیتے ہوئے سابق صدر پر بغاوت کی وجہ سے مواخذے کا مقدمہ چلا سکتے ہیں اور انھیں ہمیشہ کے لیے عوامی عہدہ رکھنے سے روک سکتے ہیں۔ ایسا کچھ ناممکن نہیں ہے۔

اگر وہ مواخذے سے بچ بھی گئے تو ٹرمپ کے سامنے کچھ بہت بڑے قانونی چیلنجز ہوں گے۔ نیویارک کے تفتیشی اہلکار ان کی جانب سے پورن سٹار سٹورمی ڈینیئلز کو رقم کی ادائیگی کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ریاست جارجیا ان کی جانب سے نومبر کے انتخاب کے بعد ریاستی سیکریٹری بریڈ رافینسپرگر پر ’ووٹ تلاش‘ کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے والی فون کال کی جانچ کر رہی ہے۔ اور وفاقی تفتیش کار شاید کیپیٹل پر حملے سے قبل ان کے الفاظ اور اقدامات کا جائزہ لیں۔

اس کے علاوہ وہ اپنے کاروبار کو چلائے رکھنے میں بھی بہت مصروف ہوں گے کیونکہ کورونا وائرس کی وبا اور برانڈ کی بدنامی کی وجہ سے اس کے منافعوں میں کمی ہو رہی ہے۔ ٹرمپ کی کمپنی کو اگلے چند سالوں میں کروڑوں ڈالر کا قرض واپس کرنا ہے اور اس کے سب سے قابلِ اعتماد قرض خواہ ڈوئچے بینک نے حال ہی میں ان کو اپنے کلائنٹس سے خارج کر دیا ہے۔

دوسرے لفظوں میں کہیں تو سیاسی حیاتِ نو اگلے چند دنوں میں کم ترجیح ہو سکتی ہے۔ اس مقام پر ٹرمپ بطور شخص ٹرمپ ازم بطور تحریک سے الگ ہوچکے ہوں گے۔

پرنسٹن یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنٹسٹ لورین رائٹ کہتی ہیں: ’مجھے لگتا ہے کہ اس سے وہ سلیبریٹی اور ایسی میڈیا شخصیت کی حیثیت حاصل کر لیں گے جو سیاست پر رائے رکھتا ہے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ کسی اور رپبلکن کے لیے بھی ٹرمپ کا انداز اپنا کر ان کا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانا مشکل ہو سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں: ’مجھے لگتا ہے کہ ٹرمپ اپنے پالیسی پیغام کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی پیکجنگ کی وجہ سے مختلف نظر آتے ہیں، اور یہ شو بزنس میں اُن کے پس منظر کی وجہ سے ہے۔ کوئی روایتی سیاستدان اسی انداز میں پرفارم نہیں کر سکتا۔‘

ٹرمپ ازم کی کامیابی کے لیے رپبلکنز کو ایک اور سیلبرٹی تلاش کرنا ہوگا یا پھر پچھلے امیدواروں مٹ رومنی اور جان مک کین کی طرح روایتی رپبلکن اقدار پر واپس جانا ہوگا۔

ڈونووان کو یقین نہیں ہے کہ رپبلکن واپس پیچھے جانا چاہتے ہیں یا ایسا کرنا بھی چاہیں گے۔

ٹرمپ

وہ کہتے ہیں: ’ٹرمپ نے جو ثابت کیا وہ یہ ہے کہ قدامت پسندوں کا غلام بننے کی ضرورت نہیں، اور نہ ہی یہ ضروری طور پر فائدہ مند ہوتا ہے۔‘

ٹرمپ نے آزادانہ تجارت، نرم امیگریشن اور سخت گیر خارجہ پالیسی کی مخالفت کی اور وہ سوشل سیکیورٹی میں کٹوتی کے سخت مخالف تھے۔

دیگر رپبلکن سیاستدان شاید یہ فیصلہ کریں کہ ٹرمپ نے ثابت کر دکھایا ہے کہ قدامت پسندی سے ہٹنا اتنا خطرناک بھی نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’کئی لوگ ٹرمپ کی کی ہوئی مختلف چیزوں پر تجربہ کر رہے ہیں مگر مجھے نہیں لگتا کہ کسی کو اب تک جواب ملا ہے۔‘

لیکن ہو سکتا ہے کہ انھیں یہ تلاش کرتے رہنے کی ضرورت بھی نہ پڑے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ حالیہ دنوں کے واقعات کے بعد بھی ٹرمپ ابھی چین سے نہیں بیٹھے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32469 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp