امریکی صدر جو بائیڈن کا افتتاحی خطاب


چیف جسٹس رابرٹس، نائب صدر ہیریس، اسپیکر پیلوسی، لیڈر شومر، لیڈر میکونل، نائب صدر پینس، معزز مہمان، اور میرے ساتھی امریکی۔

یہ امریکہ کا دن ہے۔
یہ جمہوریت کا دن ہے۔
تاریخ اور امید کا دن۔
تجدید اور عزم کا (دن) ۔
امریکہ مصائب کی بھٹی کی آزمائشوں سے گزر کر نئے مسائل سے دوچار ہوا ہے اور اسے نئے چیلنج کا سامنا ہے۔
آج ہم کسی امیدوار کی نہیں بلکہ ایک جمہوریت کی فتح کا جشن منار ہے ہیں۔
لوگوں کی مرضی سنی گئی ہے اور لوگوں کی مرضی پر دھیان دیا گیا ہے۔
ہم نے پھر سے سیکھا کہ جمہوریت قیمتی ہے۔
جمہوریت نازک ہے۔
اور اس وقت، میرے دوستو، جمہوریت غالب آئی ہے۔

چنانچہ اب، اس مقدس مقام پر جہاں کچھ دن پہلے ہی متشدد ہجوم نے اس دارالحکومت کی بنیاد کو ہلا دینے کی کوشش کی تھی، ہم خدا کے تحت ایک ناقابل تقسیم قوم کے طور پر جیسا کہ ہم دو صدیوں سے ہیں، اقتدار کو ایک حکومت سے دوسری حکومت میں منتقل کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔

ہماری نظریں اپنے منفرد بے چین، بے باک اور امید پسند امریکی انداز میں مستقبل کی جانب مرکوز ہیں اور ہم اپنی قوم کی جانب ان توقعات کے ساتھ دیکھتے ہیں جیسا کہ ہم ہوسکتے ہیں اور ہمیں ہونا چاہیے۔

میں دونوں (سیاسی ) جماعتوں کے اپنے پیش رووں کی یہاں موجودگی کے لئے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میں ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
آپ ہمارے آئین کی مضبوطی اور ہماری قوم کی طاقت کو جانتے ہیں۔

صدر کارٹر کی طرح، جن سے میں نے کل رات بات کی تھی جو آج ہمارے ساتھ موجود نہیں ہو سکے۔ ہم ان کی زندگی بھر کی خدمت کے لئے سلام پیش کرتے ہیں۔

میں نے ابھی حب الوطنی کا مقدس حلف لیا ہے جو کہ ان صدور میں سے ہر ایک نے لیا تھا۔ پہلی بار جارج واشنگٹن نے یہ حلف لیا۔

لیکن امریکی کہانی کا انحصار ہم میں سے کسی ایک پر نہیں بلکہ ہم سب پر ہے۔
”ہم عوام“ پر جو ایک کامل اتحاد کی کوشش میں ہیں۔
یہ (امریکی ) ایک عظیم قوم ہے اور ہم اچھے لوگ ہیں۔

صدیوں سے طوفان اور کشمکش کے دوران، امن اور جنگ میں، ہم اتنی دور پہنچے ہیں۔ لیکن مزید سفر ابھی باقی ہے۔

ہم تیزی اور عجلت کے ساتھ آگے بڑھیں گے، کیوں کہ خطرے اور امکان کے اس موسم سرما میں ہمیں بہت کچھ کرنا ہے۔

تعمیر نو کے لئے بہت کچھ۔
بحال کرنے کے لئے بہت کچھ۔
زخم بھرنے کے لیے بہت کچھ۔
ہمیں بہت کچھ تعمیر کرنا ہے۔
اور بہت کچھ حاصل کرنا ہے۔
ہماری قوم کی تاریخ میں کچھ ہی دیگر ادوار اس سے زیادہ چیلنج والے یا مشکل رہے ہیں جیسا کہ اس وقت ہیں۔
صدیوں میں ایک بار ہونے والا وائرس خاموشی سے ملک کا پیچھا کر رہا ہے۔
ایک سال میں اس نے اتنی جانیں لے لیں جتنی امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں گنوائی تھیں۔
لاکھوں ملازمتیں ختم ہو گئیں۔
ہزاروں اور لاکھوں کاروبار بند ہو گئے۔

چار سو سال سے گونجتی ہوئی نسلی انصاف کے لئے فریاد ہمیں متحرک کرتی ہے۔ اب سب کے لئے انصاف کا خواب مزید موخر نہیں کیا جاسکتا۔

(انسان کی پیدا کردہ ماحول کی تباہی کی وجہ سے ) زمین اپنی بقا کے لیے پکار رہی ہے۔ یہ ایسا رونا ہے جو مزید افسوسناک یا اس سے زیادہ واضح نہیں ہو سکتا ہے۔

اور آج جب کہ سیاسی انتہا پسندی، سفید بالادستی اور اندرونی دہشت گردی بڑھ رہی ہے، اس کا سامنا کرنا اور اس کو شکست دینا لازمی ہے۔

ان چیلنجوں پر قابو پانے کے لئے، امریکہ کی روح کی بحالی اور اس کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے محض الفاظ کافی نہیں۔

اس کا تقاضا جمہوریت کا سب سے مشکل مقصد ہے۔
اتحاد۔
اتحاد۔

واشنگٹن کی ایک اور جنوری میں، نئے سال کے دن 1863 میں، ابراہم لنکن نے آزادی کے اعلان پر دستخط کیے تھے۔ جب انہوں نے قلم کاغذ پر رکھا تو لکھا کہ ”اگر میرا نام تاریخ میں یاد رکھا جائے تو اس فعل کی وجہ سے ہوگا اور میری پوری روح اس میں ہے۔“

میری پوری روح اس میں ہے۔
آج، اس جنوری کے دن، میری بھی پوری روح اس (مقصد) میں ہے۔
امریکہ کو اکٹھا کرنا۔
اپنی عوام کو متحد کرنا۔
اور اپنی قوم کو متحد کرنا۔
میں ہر امریکی سے میرے اس مقصد میں شامل ہونے کو کہتا ہوں۔
کہ ہمارے سامنے آنے والے ان مشترک دشمنوں سے لڑنے کے لئے متحد ہوں۔
غصہ، ناراضگی، نفرت کے خلاف۔
انتہا پسندی، لاقانونیت، تشدد کے خلاف۔
بیماری، بے روزگاری، نا امیدی کے خلاف۔
اتحاد کے ساتھ ہم عظیم کام کر سکتے ہیں۔ اہم چیزیں۔
ہم غلطیوں کو دور کر سکتے ہیں۔
ہم لوگوں کو اچھی ملازمتوں میں کام کرنے کے لئے لگا سکتے ہیں۔
ہم اپنے بچوں کو محفوظ اسکولوں میں پڑھا سکتے ہیں۔
ہم اس مہلک وائرس پر قابو پا سکتے ہیں۔
ہم عمدہ کارکردگی پر انعام دے سکتے ہیں، متوسط طبقے کی تعمیر نو اور صحت کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں۔
سب کے لئے محفوظ۔
ہم نسلی انصاف فراہم کر سکتے ہیں۔
ہم امریکہ کو ایک بار پھر دنیا میں بھلائی کے لئے ایک اہم قوت بنا سکتے ہیں۔
میں جانتا ہوں کہ اتحاد کی باتیں کچھ لوگوں کو ایک بے وقوفانہ خیال کی طرح لگیں گی۔
میں جانتا ہوں کہ ایسی قوتیں جو ہمیں تقسیم کرتی ہیں وہ گہری ہیں اور وہ حقیقی ہیں۔
لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ نئی نہیں ہیں۔

ہماری تاریخ امریکی آدرش جس کے مطابق ہم سب کو مساوی طور پر تخلیق کیا گیا ہے اور سخت، بدصورت حقیقت جس میں نسل پرستی، امریکی پیدائشی برتری، خوف اور مختلف کو شیطانیت ثابت کرنے کے درمیان جدوجہد میں مصروف رہی ہے۔ اس نے ہمارے درمیان ایک عرصے سے خلیج کھڑی کردی ہے۔

یہ جنگ مسلسل جاری ہے۔
فتح کی کوئی یقین دہانی نہیں ہوتی۔

امریکی خانہ جنگی، گریٹ ڈپریشن، عالمی جنگوں، نائن الیون، جدوجہد، قربانیوں اور دھچکوں کے دوران، ہمارے ”بہتر فرشتے“ ہمیشہ غالب رہے ہیں۔

ان میں سے ہر ایک تاریخی لمحے میں، ہم میں سے کافی لوگ ہمیں آگے بڑھانے کے لیے سامنے آئے۔
اور، اب ہم پھر ایسا کر سکتے ہیں۔
تاریخ، ایمان اور دانشوری اتحاد کا راستہ سمجھاتے ہیں۔
ہم ایک دوسرے کو مخالف کے طور پر نہیں بلکہ پڑوسی کی حیثیت سے دیکھ سکتے ہیں۔
ہم ایک دوسرے کے ساتھ وقار اور احترام کے ساتھ پیش آسکتے ہیں۔
ہم متحد ہوسکتے ہیں، چلانا بند کر سکتے ہیں اور درجہ حرارت کو کم کر سکتے ہیں۔
کیونکہ اتحاد کے بغیر امن نہیں بلکہ صرف طیش اور تلخی ممکن ہے۔
کوئی پیشرفت نہیں، صرف غم و غصے کی تھکن۔
کوئی قوم نہیں، صرف انتشار۔
یہ بحران اور چیلنج کا تاریخی لمحہ ہے، اور اتحاد ہی آگے کا راستہ ہے۔
اور، ہمیں اس لمحے کا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حیثیت سے ہی سامنا کرنا چاہیے۔
اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو، میں آپ کی ضمانت دیتا ہوں کہ ہم ناکام نہیں ہوں گے۔
جب بھی ہم نے مل کر کام کیا تو ہم کبھی بھی امریکہ میں ناکام نہیں ہوئے۔
اور اسی طرح آج، اس وقت اور اس جگہ پر، آئیے نئے سرے سے آغاز کریں۔
ہم سب۔
آئیے ہم ایک دوسرے کو سنتے ہیں۔
ایک دوسرے کی سنیں۔
ایک دوسرے کو دیکھیں۔
ایک دوسرے کا احترام کریں۔
سیاست کو بھڑکتی ہوئی آگ کی ضرورت نہیں ہے جو اپنے راستے میں موجود ہر چیز کو تباہ کرتی ہے۔
ہر اختلاف رائے کو مکمل جنگ کا سبب بننے کی ضرورت نہیں ہے۔

اور، ہمیں ایک ایسی روایت کو مسترد کرنا ہوگا جس میں حقائق خود ہی جوڑ توڑ اور یہاں تک کہ تیار کیے جائیں۔

میرے ساتھی امریکی، ہمیں اس سے مختلف ہونا پڑے گا۔
امریکہ کو اس سے بہتر ہونا چاہیے۔
اور، مجھے یقین ہے کہ امریکہ اس سے بہتر ہے۔
ذرا ادھر دیکھو۔

یہاں ہم کھڑے ہیں، ایک کیپیٹل گنبد کے سائے میں جو خانہ جنگی کے دوران مکمل ہوا، جب یونین خود غیر متوازن تھی۔

پھر بھی ہم اسقامت کے ساتھ سرخرو نکلے۔
یہاں ہم اس عظیم میدان کے سامنے کھڑے ہیں جہاں ڈاکٹر کنگ نے اپنے خواب کی بات کی تھی۔

ہم وہاں کھڑے ہیں، جہاں 108 سال پہلے ایک اور افتتاحی موقع پر، ہزاروں مظاہرین نے بہادر خواتین کو ووٹ کے حق کے لئے مارچ کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔

آج، امریکی تاریخ کی پہلی خاتون نائب صدر منتخب ہونے کے بعد حلف لیتی ہیں۔ نائب صدر کملا ہیریس۔ مجھے مت بتائیں کہ چیزیں تبدیل نہیں ہو سکتی ہیں۔

یہاں ہم آرلنگٹن قومی قبرستان کے پار کھڑے ہیں، جہاں ہمارے قومی ہیرو عقیدت کی سب سے بلند قربانی دے کر دائمی سکون کے ساتھ مدفن ہیں۔

ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں کچھ ہی دن قبل ایک مشتعل ہجوم نے لوگوں کی خواہش کو خاموش کرنے، ہماری جمہوریت کے کام کو روکنے اور ہمیں اس مقدس زمین سے ہٹانے کے لئے تشدد کا استعمال کیا۔

ایسا نہیں ہوا۔
یہ کبھی نہیں ہوگا۔
آج نہیں۔
کل نہیں۔
کبھی نہیں۔

ان تمام لوگوں کے لئے جنہوں نے ہماری مہم کی حمایت کی، آپ نے ہم پر جو اعتماد ڈالا ہے اس کے لیے میں شکر گزار ہوں۔

ان سب لوگوں سے، جنہوں نے ہماری مدد نہیں کی، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مل کر آگے بڑھنے کے لیے میری پکار سنیں اور میرا اور میرے دل کا پیمانہ لیں۔

اور اگر آپ اب بھی متفق نہیں ہیں تو ہو جائیے۔

یہی جمہوریت ہے۔ یہی امریکہ ہے۔ ہماری جمہوریہ کی نگرانی میں، پر امن طور پر اختلاف رائے کا حق ہی شاید ہماری قوم کی سب سے بڑی طاقت ہے۔

پھر بھی مجھے صاف سنیں : اختلاف رائے باہمی اختلاف کا باعث نہیں بننا چاہیے۔
اور میں آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں : میں تمام امریکیوں کے لئے صدر بنوں گا۔

میں ان لوگوں کے لئے بھی اتنی ہی سخت جدوجہد کروں گا جنہوں نے میرا ساتھ نہیں دیا جیسا کہ ان لوگوں کے لیے جنہوں نے دیا۔

کئی صدیوں پہلے، سینٹ آگسٹائن، میرے چرچ کے ایک بزرگ، نے لکھا تھا کہ ایک عوام ایک ایسی بھیڑ ہے جس کی تعریف ان کی مشترکہ محبوب اشیا سے ہوتی ہے۔

ہمیں کون سی مشترک چیزیں پسند ہیں جو ہمیں امریکیوں کی طرح بیان کرتی ہیں؟
مجھے لگتا ہے کہ میں جانتا ہوں۔
موقع۔
تحفظ
آزادی
وقار
احترام کرنا۔
عزت۔
اور، ہاں، حقیقت۔
حالیہ ہفتوں اور مہینوں نے ہمیں تکلیف دہ سبق سکھایا ہے۔
کچھ باتیں سچ ہیں اور کچھ جھوٹ۔
جھوٹ طاقت اور منافع کے لئے بتایا گیا۔

اور ہم میں سے ہر ایک کا فرض اور ذمہ داری ہے، بطور شہری، بحیثیت امریکی، اور خاص طور پر قائدین کی۔ ان قائدین کی جنہوں نے ہمارے آئین کا احترام کرنے اور اپنی قوم کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے کہ وہ حق کا دفاع کریں اور جھوٹ کو شکست دیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے امریکی مستقبل کو خوف اور گھبراہٹ سے دیکھتے ہیں۔

میں جانتا ہوں کہ وہ اپنی ملازمتوں، اپنے کنبوں کی دیکھ بھال اور آگے آنے والی چیزوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔

میں سمجھتا ہوں۔

لیکن اس کا جواب باطن کی طرف مڑنا، مسابقتی گروہوں میں بٹنا، ان لوگوں پر شک کرنا جو آپ کی طرح نظر نہیں آتے، یا مختلف طرح سے عبادت کرتے ہیں، یا انہی ذرائع سے خبریں حاصل نہیں کرتے ہیں جہاں سے آپ کرتے ہیں، نہیں ہے۔

ہمیں اس غیر مہذب جنگ کو ختم کرنا ہوگا جو نیلے کو سرخ کے خلاف، دیہات کو شہر، قدامت پسند کو آزاد خیال کے خلاف کھڑا کرتی ہے۔

ہم ایسا کر سکتے ہیں اگر ہم اپنے دلوں کو سخت کرنے کی بجائے اپنی روح کا دروازہ کھولیں۔
اگر ہم تھوڑی رواداری اور عاجزی کا مظاہرہ کریں۔
اگر ہم صرف ایک لمحہ کے لئے دوسرے شخص کے جوتوں میں چلنے کو تیار ہوں۔
بات یہ ہے کہ زندگی کا کچھ پھرو سہ نہیں ہوتا کہ قسمت آپ کے ساتھ کیا معاملہ کرے گی۔
کچھ دن ایسے بھی ہوتے ہیں جب ہمیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایسے بھی دن ہیں جب ہم سے قرض دینے کے لئے کہا جاتا ہے۔
اسی طرح ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے۔
اور، اگر ہم اسی طرح سے چلیں تو، ہمارا ملک مضبوط، خوشحال اور آئندہ کے لئے زیادہ تیار ہوگا۔
میرے ساتھی امریکی، ہمارے آگے کام میں، ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہوگی۔
ہمیں ان تاریک سردیوں میں ثابت قدم رہنے کے لئے اپنی تمام تر طاقت کی ضرورت ہوگی۔
ہم اس دور میں داخل ہو رہے ہیں جو وائرس کا سب سے مشکل اور مہلک دور ہو سکتا ہے۔
ہمیں سیاست کو ایک طرف رکھنا چاہیے اور آخر کار ایک قوم کی حیثیت سے وبائی امراض کا سامنا کرنا چاہیے۔
میں آپ سے اس کا وعدہ کرتا ہوں : جیسا کہ بائبل کے مطابق اگر رات روتے ہوئے بھی گزر جائے تو بھی خوشی کی صبح طلوع ہوتی ہے۔
ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس مشکل وقت سے گزر جائیں گے۔
ساری دنیا آج ہمیں دیکھ رہی ہے۔ ہماری سرحدوں سے پار افراد کے لئے میرا پیغام یہ ہے : امریکہ ایک کڑے امتحان سے گزرا اور ہم اس سے مزید مضبوط ہو کر نکلے ہیں۔
ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات درست کریں گے اور ایک بار پھر دنیا کے معاملات میں شامل ہوں گے۔
گزرے ہوئے کل کے مسائل کے لیے نہیں بلکہ حال اور مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے۔
ہم محض اپنی طاقت کے زور پر نہیں بلکہ اپنی مثال کی طاقت سے رہنمائی کریں گے۔
ہم امن، پیشرفت اور سلامتی کے لئے مضبوط اور قابل اعتماد شراکت دار ہوں گے۔
ہم اس قوم کی تاریخ میں بہت کچھ سے گزر چکے ہیں۔
اور ایک صدر کے طور پر اپنے پہلے کام میں، میں آپ سے خاموشی کے ایک لمحے اور دعا میں شامل ہونے کے لئے کہنا چاہتا ہوں، تاکہ ہم ان تمام لوگوں کو یاد رکھیں جو گزشتہ سال وبائی مرض کا شکار ہوئے۔

ان 400000 ساتھی امریکیوں کے لئے (جو کورونا وائرس سے جاں بحق ہوئے)۔ ماؤں اور باپوں، شوہروں اور بیویوں، بیٹوں اور بیٹیوں، دوست، پڑوسی اور ساتھی کارکنوں کے لیے۔ ہم ان مرنے والوں کے احترام میں ایسی قوم بنیں گے جیسا کہ ہمیں بننا چاہیے۔

آئیے ہم ان لوگوں کے لئے خاموشی سے دعا مانگیں جنہوں نے اپنی جانیں ضائع کیں، ان لوگوں کے لئے جو ان کے پیچھے رہ گئے، اور ہمارے ملک کے لئے۔ آمین۔
یہ آزمائش کا وقت ہے۔
ہمیں جمہوریت اور سچائی پر حملے کا سامنا ہے۔
ایک مشتعل وائرس
بڑھتی ہوئی عدم مساوات۔
نظامی نسل پرستی کا ڈنکا۔
ماحولیات کا بحران۔
امریکہ کا دنیا میں کردار۔
ان میں سے کوئی بھی ایک مسئلہ ہمیں گہرے طریقوں سے چیلنج کرنے کے لئے کافی ہوگا۔

لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمیں ان تمام مسائل کا ایک ساتھ سامنا کرنا ہوگا جو کہ اس قوم کے سامنے سنجیدہ ذمہ داریوں کی طرح کھڑے ہیں۔
اب ہمیں قدم بڑھانا چاہیے۔
ہم سب کو۔
یہ ہمت کرنے کا وقت ہے، کیونکہ ہمیں بہت کچھ کرنا ہے۔
اور، یہ یقینی ہے۔
کہ مجھے یا آپ کو، ہم سب کو اسی بات سے جانچا جائے گا کہ ہم اپنے عہد کے تباہ کن بحرانوں کو کس طرح حل کرتے ہیں۔
کیا ہم اس اہم موقع پر ابھریں گے؟
کیا ہم اس نایاب اور مشکل گھڑی پر عبور حاصل کریں گے؟
کیا ہم اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں گے اور اپنے بچوں کے لئے ایک نئی اور بہتر دنیا چھوڑ کر جائیں گے؟
مجھے یقین ہے کہ یہ ہم پر لازمی ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم کر گزریں گے۔
اور جب ہم کریں گے تو ہم امریکی کہانی کا اگلا باب لکھیں گے۔
یہ ایک ایسی کہانی ہے جو ایک گیت کی طرح سنائی دیتی ہے جو کہ میرے لیے بے انتہا بامعنی ہے۔
اس کو ”امریکی ترانہ“ کہا جاتا ہے اور اس کے یہ الفاظ خاص طور پر مجھے پسند ہیں۔
”صدیوں کی محنت اور دعائیں
ہمیں آج یہاں لائے ہیں
ہماری میراث کیا ہوگی؟
ہمارے بچے کیا کہیں گے؟
میرے دل کو خبر دے دینا
جب میرے دن پورے ہوجائیں۔
امریکہ
امریکہ
میں تمہیں اپنا بہترین دیا۔ ”
چلیے ہم بھی اپنے بہترین کام اور اپنی دعاؤں کو اپنی قوم کی تغیر پذیر کہانی کا حصہ بنائیں۔
اگر ہم ایسا کریں گے تو جب ہمارے دن پورے ہو چکے ہوں گے تو ہمارے بچے اور ان کے بچے ہمارے لیے کہیں گے کہ انہوں نے اپنا بہترین دیا۔
انہوں نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔
انہوں نے ایک شکستہ زمین کے زخم بھرے۔
میرے ساتھی امریکیو! میں اپنی تقریر کو اس عہد نامے پر ختم کرتا ہوں۔
خدا کے سامنے اور آپ سب کے سامنے میں وعدہ کرتا ہوں۔
میں ہمیشہ آپ کے ساتھ انصاف کروں گا۔
میں امریکہ کے منشور کی حفاظت کروں گا۔
میں اس ملک کی جمہوریت کا دفاع کروں گا۔

میں اپنی تمام تر صلاحیت کو آپ کی خدمت میں استعمال کروں گا، طاقت کے بارے میں سوچتے ہوئے نہیں بلکہ ممکنات کے لیے۔

ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ عوام کی بھلائی کے لیے۔
اور مل کر ہم امریکی کہانی لکھیں گے، امید کی کہانی نہ کہ خوف کی۔
اتحاد کی، نہ کہ تقسیم کی۔
روشنی کی، نہ کہ اندھیرے کی۔
شائستگی اور وقار کی ایک امریکی کہانی۔
محبت اور شفا بخش کی۔
عظمت اور نیکی کی۔
یہ وہ کہانی ہو جو ہماری رہنمائی کرتی ہو۔
وہ کہانی جو ہمیں متاثر کرتی ہو۔
ایسی کہانی جو آنے والی عمروں کو بتائے کہ ہم نے تاریخ کی پکار کا جواب دیا۔
ہم نے اس مشکل لمحے کا سامنا کیا۔
جمہوریت اور امید، حق اور انصاف ہماری نگاہوں کے سامنے ختم نہیں ہوئے بلکہ مزید مضبوط ہوئے۔

کہ ہمارے ملک امریکہ نے اپنے گھر میں آزادی حاصل کی اور ایک بار پھر دنیا کے سامنے ایک امید کی کرن بن کر کھڑا ہوا۔

اسی کے لیے ہم اپنے پیشواؤں کے، ایک دوسرے کے، اور آنے والی نسلوں کے مقروض ہیں۔
لہذا، مقصد اور عزم کے ساتھ ہم اپنے زمانے کے کاموں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
ایمان کے ساتھ۔
یقین کے ساتھ۔
ایک دوسرے سے اور اپنے ملک سے عقیدت کے ساتھ ہم اپنے پورے دل سے محبت کرتے ہیں۔
خدا امریکہ کو سلامت رکھے اور خدا ہمارے فوجیوں کی حفاظت کرے۔
شکریہ، امریکہ۔

(ترجمہ: ڈاکٹر لبنیٰ مرزا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).