کریمہ بلوچ کی لاش لواحقین کے حوالے، تدفین آبائی علاقے تمپ میں ہو گی



کریمہ بلوچ (فائل فوٹو)
کینیڈا میں پر اسرار طور پر ہلاک ہونے والی بلوچ سیاسی کارکن کریمہ بلوچ کی میت پاکستان میں ان کے لواحقین کے حوالے کر دی گئی ہے۔ جس کے بعد ان کی تدفین 25 جنوری کو ان کے آبائی علاقے ضلع کیچ کے علاقے تمپ میں ہو گی۔

صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی کریمہ بلوچ جو خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے کینیڈا میں رہائش پذیر تھیں، ان کی پر اسرار ہلاکت کا واقعہ گزشتہ سال دسمبر میں پیش آیا تھا۔

ٹورنٹو پولیس نے پوسٹ مارٹم اور دیگر تحقیقات کے بعد کریمہ بلوچ کی موت کو غیر مجرمانہ کارروائی قرار دے کر لاش کو لواحقین کے حوالے کیا تھا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کریمہ بلوچ کی وصیت کے حوالے سے ان کی ایک تحریر کو پوسٹ کیا گیا ہے۔ جس میں سال 2015 میں پاکستان چھوڑنے سے قبل انہوں نے واپس اپنے آبائی علاقے تمپ آنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

تحریر میں کریمہ بلوچ نے لکھا تھا کہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تمپ میں گزارنا چاہتی ہیں، جہاں ان کی روح موجود ہے۔

کریمہ کی اس وصیت کے باعث ان کے لواحقین ان کی میت کینیڈا سے کراچی لائے۔ جہاں سے وہ ان کی میت لے کر تربت کے لیے روانہ ہوئے۔

کریمہ بلوچ کی میت ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب کراچی ایئر پورٹ پہنچی تھی۔ جہاں ان کی بہن ماہ گنج بلوچ سمیت دیگر لواحقین نے ان کی میت وصول کی۔

ماہ گنج بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ رات سے ہی سیکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد کراچی ایئرپورٹ پر موجود رہی۔ جنہوں نے ان کے خاندان کے لوگوں کو آگے جانے سے روک دیا اور کریمہ بلوچ کی لاش کو خصوصی طیارے سے تربت منتقل کرنے کی پیش کش کی جسے انہوں نے مسترد کردیا۔

ماہ گنج بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ فورسز نے ان کے احتجاج کرنے پر چار گھنٹے کی تاخیر سے صبح سات بجے کریمہ بلوچ کی لاش ان کے حوالے کی۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی کی مختلف شاہراہوں پر لوگ استقبال کرنے کے لیے موجود تھے۔ تاہم انہیں راستہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔

ماہ گنج بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ فورسز نے ان کے احتجاج کرنے پر چار گھنٹے کی تاخیر سے صبح 7 بجے کریمہ بلوچ کی لاش ان کے حوالے کی۔
ماہ گنج بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ فورسز نے ان کے احتجاج کرنے پر چار گھنٹے کی تاخیر سے صبح 7 بجے کریمہ بلوچ کی لاش ان کے حوالے کی۔

کریمہ بلوچ کے لواحقین کے مطابق ان کی تدفین وصیت کے مطابق 25 جنوری کو ضلع کیچ میں ان کے آبائی علاقے تمپ میں کی جائے گی۔

دوسری جانب کریمہ بلوچ کی تدفین کے سلسلے کیچ میں موبائل سروس معطل کی گئی ہے۔

تمپ میں لیویز اہلکاروں کے مطابق کریمہ بلوچ کی تمپ میں تدفین کے اعلان کے بعد 23 اور 24 جنوری کی درمیانی شب سے ضلع کیچ کے اکثر علاقوں میں موبائل نیٹ ورک کو جام کر دیا گیا۔

لیویز حکام کے مطابق کریمہ بلوچ کی تدفین کے پیشِ نظر مفاد عامہ کے لیے گزشتہ شب کیچ میں موبائل فون سروس بند کی گئی ہے۔

کریمہ بلوچ کون تھیں؟

کریمہ بلوچ سن 1986 میں دبئی میں پیدا ہوئیں۔ تاہم کچھ سال بعد اُن کے والدین بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تمپ منتقل ہو گئے۔

کریمہ بلوچ نے ابتدائی تعلیم تمپ سے ہی حاصل کی۔ بچپن سے ان کا رجحان آرٹ کی جانب تھا اور وہ اسکول کے ہر پروگرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔

کریمہ کے خاندان کے افراد کے مطابق وہ بچپن سے ہی انقلابی لٹریچر پڑھنے کی شوقین تھیں اور لوگوں کی غربت اور سیاسی بدحالی، وہ بنیادی وجوہات تھیں۔ جنہوں نے کریمہ بلوچ کو اسکول کے زمانے سے ہی سیاسی سرگرمیوں کے لیے متحرک کیا تھا۔

کریمہ بلوچ کے لواحقین کے مطابق ان کی تدفین وصیت کے مطابق 25 جنوری کو تربت میں ان کے آبائی علاقے تمپ میں کی جائے گی۔
کریمہ بلوچ کے لواحقین کے مطابق ان کی تدفین وصیت کے مطابق 25 جنوری کو تربت میں ان کے آبائی علاقے تمپ میں کی جائے گی۔

بی ایس او کے پلیٹ فارم سے جدو جہد کا آغاز

کریمہ بلوچ اسکول کے زمانے سے ہی بلوچستان اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن (بی ایس او) میں شامل ہونا چاہتی تھیں۔ اس کے لیے کریمہ نے اپنی سہیلیوں کوبھی راضی کیا تھا۔ لیکن اُس زمانے میں تنظیم میں لڑکیوں کو رکنیت دینا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے انہیں رکنیت نہیں ملی۔

سن 2005 میں کریمہ بلوچ نے خواتین کو جمع کر کے بلوچ قوم پرست پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی گرفتاری کے خلاف ریلی نکالی۔ یہ ریلی مکران کی تاریخ میں خواتین کی پہلی سیاسی ریلی تھی۔

سن 2006 میں کریمہ بلوچ باقاعدہ بی ایس او میں شامل ہو گئیں۔ سیاست میں شامل ہونے کی وجہ سے کریمہ کو بہت زیادہ سماجی دباؤ کا سامنا رہا۔ لیکن انہوں نے تمام مشکلات کا مقابلہ کیا اور 2008 کی کونسل سیشن میں وائس چیئرپرسن منتخب ہوئیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa