تیونس: عرب سپرنگ کے بعد بھی لوگ یہاں اتنے خوش کیوں نہیں، اور کیا وجہ ہے کہ اب بھی گلیوں میں جھڑپیں ہو رہی ہیں


AFP
دیانت داری سے بتائیں کیا واقعی چیزیں آج بہتر ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو مجھ سے اکثر تیونس کے غریب اور امیر لوگ پوچھتے ہیں اور وہ بھی جو ان دونوں طبقات کے درمیان ہیں۔

کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ آخر ’بہتری‘ کا پیمانہ ہے کیا؟

عرب سرنگ کی دسویں سالگرہ اس وقت ہو رہی ہے جب اتفاقاً ملک میں کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے کے لیے چار روزہ لاک ڈاؤن لگا ہوا ہے۔

ایک رات قبل ملک کے درجن کے قریب علاقوں میں نوجوانوں اور پولیس کے درمیان پرتشدد ہنگامہ آرائی بھی ہوئی ہے۔

پہلے تو یہ واضح ہی نہیں تھا کہ ہنگامے کس نے شروع کیے۔ پھر شہری اور حکام اس کی وضاحت کے حوالے سے بٹے ہوئے دکھائی دیے کہ آیا یہ مظاہرے تھے یا ہنگامہ آرائی۔ اور اس پر بھی کہ یہ کیوں کیے گئے۔

مزید پڑھیے

سوڈان: تختہ الٹنے والے فوجی سربراہ مستعفی

کیا عرب سپرنگ سوڈان تک پہنچ پائے گا؟

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں کرنے والے غربت و افلاس کا شکار ناراض نوجوانوں تھے۔ ان میں سے 600 سے زیادہ نوجوانوں کو بعد میں گرفتار کر لیا گیا۔ اگلے روز درجنوں مظاہرین دارالحکومت تیونس میں موجود تھے اور وہ حکومت کو گرانے کے لیے انقلابی نعروں کو دوبارہ دہرا رہے تھے۔

لیکن تیونس کے کچھ لوگوں کو اس بارے میں کوئی شبہات نہیں کہ ان (نعروں) کا مطلب آج کیا ہے۔ گذشتہ پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کو دو سال سے بھی کم ہوئے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کو تکلیف ہے: سماجی اور معاشی طور پر یا پھر اہم عوامی سروس یا سہولیات کی وجہ سے جو کم ہو رہی ہیں۔

وہاں حالیہ سالوں میں شہری بدامنی رہی ہے جس میں عام طور پر بہتر نوکریوں اور تنخواہوں کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔

گذشتہ دس برسوں میں میں نے اس خطے میں بہت کنفیوژن اور جدوجہد دیکھی ہے۔ ایک دن پا لینے کا احساس ہوتا ہے تو دوسرے دن کھو دینے کا۔ ایک سال امید کی جانب ایک انچ بڑھا جاتا ہے جسے اگلے سال ناامیدی کئی درجوں تک نگل لیتی ہے۔‘

تیونس اس بحران کے چکر میں پھنسا ہوا ہے۔

تیونس نے جو کچھ جمہوری تبدیلی کے عمل کی ابتدا میں حاصل کیا وہ پورے طور سے معاشی اور سماجی ترقی کی صورت میں اسے نہیں مل سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سابق صدر زین العابدین بن علی کو اقتدار سے ہٹایا گیا تھا تو معیشت میں گراوٹ آئی جو ابھی تک دوبارہ بحال نہیں ہو سکی۔

تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟

لوگ اس کی ذمہ داری اس نظام پر عائد کرتے ہیں جو کرپشن کی اجازت دیتا ہے یا پھر پارلیمان میں موجود ان سیاسی دشمنیوں کو جن کی وجہ سے بہت سی حکومتیں جاتی رہی ہیں۔

آئی ایم ایف کی جانب سے شرائط کے ساتھ دیے جانے والا قرض بھی معاشی دباؤ کی ایک وجہ ہے۔

اجرتوں پر تنازع کی وجہ سے اہم سیکٹرز میں، جن میں صحت، ٹرانسپورٹ اور قدرتی وسائل شامل ہیں، ہڑتالوں اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔

تو پھر لوگ کیا چاہتے ہیں؟

تیونس میں خوراک کی درآمد کا کاروبار کرنے والے ایک شخص نے مجھے حال ہی میں بتایا کہ ’ہمیں کچھ درمیان کا راستہ چاہیئے۔۔۔ ایسا رہنما بھی جو آزادی کی حمایت کرتا ہو۔ یہ پارلیمینٹ اور یہ تمام سیاسی جماعتیں جو ایک دوسرے کے خلاف کام کر رہی ہیں ملک کو مفلوج کر رہی ہیں۔‘

التضامن جو کہ دارالحکومت کا نواحی علاقہ ہے اور نہایت گنجان آباد اور پسماندہ ہے وہاں نوجوانوں نے اس ماہ گلیوں میں آکر احتجاجی مظاہرے اور پولیس سے جھڑپیں کیں۔

تیونس

وائل کی عمر 27 برس ہے اور وہ سماجی کارکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ یہاں مطالبہ کر رہے ہیں کہ پارلیمانی نظام کو ختم کر دیا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ صدر کے پاس کوئی اختیار نہیں اور وہ ریاست میں فقط ایک علامت ہیں۔

میں نے بڑے غور سے ان کی باتیں سنیں کیونکہ یہ اُس نواحی علاقے کا نوجوان بول رہا ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ سنہ 2011 کے انقلاب میں اس علاقے نے اہم کردار ادا تھا، جس نے ایک طاقتور صدر کو حکومت سے نکال باہر کیا تھا اور اب یہ ریاست کے صدر کو مزید اختیارات دیے جانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

انھوں نے تسلیم کہ ’یہ درست ہے کہ ہمارے پاس آپ آزادی ہے، لیکن ہمیں سمجھ آ گیا ہے کہ ہمارے خواب پورے نہیں ہوں گے۔‘

جب میں نے ان سے ان نوجوانوں کے بارے میں پوچھا جنھیں حال ہی میں گرفتار کیا گیا ہے تو وائل نے جلدی سے اپنے علاقے میں حال ہی میں سکول چھوڑ کے جانے والے بچوں کی بڑی تعداد کی جانب اشارہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شاید جو نظام ہمارے پاس ہے وہ کہیں اور کام کرتا ہو لیکن یہ یہاں کام نہیں کرتا اور تمام سیاسی جماعتوں نے ہمیں مایوس کیا ہے۔‘

میں نے ویڈیو کال پر چوکری الابدی سے رابطہ کیا جو اسی علاقے میں عربی زبان کے استاد ہیں۔

ایک وقت تھا جب انھوں نے سنہ 2011 میں ان گلیوں میں سابقہ اقتدار کے خلاف احتجاجی مظاہروں کو لیڈ کیا تھا۔

مجھے لگا کہ وہ حالیہ بدامنی سے خوش نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بغیر ٹھوس مطالبات کے مظاہرین پرتشدد انداز اپنائے ہوئے ہیں۔

گذشتہ دہائی کو دیکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ابھی بھی کیا غلط ہے، بجائے اس کے کہ کیا بہتر ہے۔

انھوں نے اس کی وضاحت کچھ ان الفاظ میں کی ‘تبدیلی جو لوگ چاہتے ہیں، اس کا انحصار وقت پر ہے۔’

میں نے ان سے پوچھا کہ تو پھر کیا بہتری آئی ہے؟ انھوں نے بتایا کہ میونسپلٹیز کو منتخب کیا گیا ہے اور ان کے پاس اب زیادہ طاقت ہے۔ آج اظہار رائے کی آزادی ہے، اور اب ایک طریقہ کار موجود ہے جس کے تحت کسی سے پوچھ گچھ کی جا سکتی ہے جو کہ اس سے پہلے ممکن نہیں تھا۔’

وہ اپنے فارغ وقت میں مقامی سطح پر موجود نوجوانوں کا ایک گروپ چلاتے ہیں۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ میں آزادی پر یقین رکھتا ہوں۔ ‘جب تک یہ یہاں موجود ہے، یہ تبدیلی کی گارنٹی ہے۔۔۔ اور ایک طریقہ بھی کہ کم غلطیاں ہوں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp