لغت غریب اور سردار علی ٹکر صاحب کا مشورہ


پاکستان سے تعلق رکھنے والے پشتو گلوکاروں میں جو شہرت سردار علی ٹکر صاحب کو نصیب ہوئی وہ اب تک کسی اور کے حصے میں نہ آ سکی۔ گزشتہ تین دہائیوں میں باچا خان کے صاحبزادے اور عہد ساز پشتو شاعر غنی خان کے نام اور ان کی شاعری کو، جس کا علم اس قبل صرف چند اہل ذوق تک محدود ہوا کرتا تھا، گھر گھر پہنچانے میں سردار علی ٹکر کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا پر پشتو شعر و ادب کے بارے میں بالعموم اور غنی خان کی شخصیت اور فلسفہ حیات کے حوالے سے بالخصوص آگہی کو فروغ دینے میں بھی ٹکر صاحب متحرک رہے ہیں۔ ملالہ یوسف زئی کو امن کے نوبل انعام سے نوازے جانے کی رسمی تقریب میں ہمارے دوست بہروز خان کے لکھے گئے ولولہ انگیز نغمے کو ترنم سے پیش کرنے کی سعادت بھی سردار علی ٹکر کو حاصل ہوئی۔ اسی سبب پشتون حلقوں میں ٹکر صاحب کی رائے کو اچھی خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔

ان دنوں ٹکر صاحب سے منسوب ایک ٹویٹ گردش کر رہا ہے جس میں انہوں نے ارباب اقتدار سے ایک دل چسپ مطالبہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اردو اور انگریزی کے ساتھ عربی زبان کو بھی لازمی قرار دیا جائے۔ اس کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو علوم تک براہ راست رسائی ہو جائے گی اور کوئی انہیں مذہب کے نام پر دھوکا نہیں دے پائے گا۔ تعلیمی نظام میں اردو، انگریزی یا مادری زبان کی بحث مدت سے جاری ہے اور جید ماہرین اس بارے میں مختلف بہ آرا رکھتے ہیں۔ ٹکر صاحب کی شعبہ تعلیم یا دینی علوم میں دست گاہ کا علم نہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ پشاور کی ایک یونیورسٹی سے انجینیئرنگ میں ڈگری حاصل کی تھی۔ قوی امید ہے کہ اس معاملے میں اس خادم کی نسبت زیادہ استعداد بہم پہنچائی ہو گی۔

یاد رہے کہ قومی و سرکاری زبان کی بحث قیام پاکستان کے وقت سے چلی آ رہی ہے۔ اور پاکستان کے دولخت ہونے میں اس عامل کی حیثیت تاریخ سے ذوق رکھنے والے احباب کی نظروں سے اوجھل نہ ہوگی۔ اس ضمن میں عربی کی اہمیت پر زور دینے میں ٹکر صاحب کو اولیت حاصل نہیں ہے۔ سر آغا خان سوم پہلے ہی یہ تجویز پیش کر چکے تھے۔ اور اسے قومی یک جہتی کا نسخہ بتا کر تجویز فرمایا تھا۔

اس خادم کو اس حوالے سے اس صدی کی ابتدا میں اسلام آباد میں ریٹائرڈ افسران کا ایک مشاورتی اجتماع یاد آتا ہے۔ یہ بزرگ ایک غیر سرکاری تنظیم تشکیل دینے کی غرض سے جمع ہوئے تھے۔ ایک سابق وفاقی وزیر اور صوبائی گورنر بھی مدعو تھے۔ شرکا بحث و تمحیص کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ تعلیم کے فروغ کو اولیت دی جائے۔ اس پر وزیر صاحب گویا ہوئے کہ ان کے پاس اس ضمن میں ایک غیر روایتی تجویز ہے۔ شرکا ہمہ تن گوش ہوئے تو فرمایا کہ ان کی رائے میں رسمی تعلیم میں عربی زبان کو لازمی قرار دینا چاہیے۔

کچھ دیر کو محفل میں سناٹا چھا گیا۔ پھر کسی نے ہمت کر کے اس کی حکمت کے بارے میں استفسار کر لیا تو تو فرمایا کہ اس کے دو فوائد ہیں۔ ایک تو دینی ماخذات تک براہ راست رسائی کے سبب اہل وطن کے اخلاق سنور جائیں گے۔ دوسرے خلیجی ریاستوں میں ہمارے مزدوروں کی طلب بڑھ جائے گی۔ اس پر ایک معمر سابق افسر نے ہمت کر کے فرمایا کہ عرب لوگ تو دینی ماخذات تک اپنی پہلی زبان میں رسائی رکھتے ہیں۔ ان کے اخلاق کیوں کر اس قدر بگڑے ہوئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہماری زبانوں کے کم از کم حروف تہجی عربی سے مستعار ہیں اور بہت سے اسما و افعال بھی عربی سے مشترک ہیں۔ اس کے باوجود ہماری نسبت فلپائن، سری لنکا، جنوبی بھارت اور بنگلا دیش کے مزدوروں کی مانگ خلیجی ممالک میں زیادہ کیوں ہے؟

اس منطق کا تو سابق وزیر موصوف کے پاس جواب نہ تھا، چنانچہ منغص ہو کر محفل سے تشریف لے گئے۔ اور اس غیر سرکاری تنظیم کا پودا بھی بن کھلے مرجھا گیا۔

اس خادم کے ذہن میں ٹکر صاحب سے منسوب اور مذکورہ وزیر صاحب سے شنیدہ بات کے حوالے سے ایک اور اشکال بھی ہے۔ بدنام زمانہ تشدد پسند، بنیاد پرست تنظیم داعش کا ظہور ٹھیٹھ عربی بولنے والے علاقوں میں ہوا۔ مسلمانوں کے سواد اعظم کی رائے میں داعش اسلام کا مسخ کردہ چہرہ پیش کرتی ہے چنانچہ گم راہ مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر عربی زبان سے ناواقفیت ہی دین کے درست فہم تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ ہے تو عرب مسلمانوں کی معتد بہ تعداد کیسے اس کے دام تزویر میں گرفتار ہو گئی۔ غالباً اس ضمن میں اصل راہ اختیار کرنے میں، بقول علامہ اقبال، قلندر کے دو حرف لا الہ لغت ہائے حجازی کی قارونی سے زیادہ اہم ہیں۔ دل و نگاہ کی مسلمانی کے لیے غالباً دلوں کی تسخیر ضروری ہے جس کے لیے صوفیا کرام کو اپنے معتقدین کو عربی زبان کی تحصیل کا حکم دینے کی ضرورت نہ پڑی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).