انڈیا: خواتین کو گھریلو کام پر معاوضے کی ادائیگی کی تحریک زور پکڑنے لگی


انڈیا
انڈیا میں ایک فلم سٹار کی جانب سے قائم کردہ ایک نئی سیاسی جماعت نے وعدہ کیا ہے کہ اگر اسے ووٹ دے کر منتخب کیا گیا تو وہ شادی شدہ گھریلو خواتین کو گھریلو کام کاج کرنے کے عوض تنخواہ دینا لازم بنائیں گے۔

ایک معروف قانون ساز نے اس خیال کو سراہا اور کہا کہ اس سے ’گھریلو خواتین کے کام کاج پر انھیں پیسے ملیں گے۔ ان کی خودمختاری اور طاقت بڑھے گی اور اس طرح اس سے سب کے لیے بنیادی آمدن عام ہو گی۔‘

یہ ایک دلچسپ بحث ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک میں خواتین آمدن کے معاملے میں مردوں سے پیچھے ہیں۔ دنیا بھر میں خواتین ایسے کام کاج کرتی ہیں جس کے بدلے انھیں پیسے نہیں ملتے۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق عراق میں خواتین ہر روز بغیر تنخواہ کے 345 منٹ کام کرتی ہیں جبکہ تائیوان میں یہ وقت 168 منٹ فی دن ہے۔ دنیا بھر کی اوسط کو دیکھا جائے تو مرد بغیر تنخواہ 83 منٹ کام کرتے ہیں جبکہ خواتین اس سے تین گنا زیادہ 265 منٹ گھریلو کام کاج میں گزار دیتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا: ‘تین طلاقیں آئین کے خلاف ہیں’

انڈیا: ملازم خواتین کو برہنہ کر کے ’حمل کے ٹیسٹ‘

انڈیا: نوجوان خواتین میں خودکشی کی شرح 40 فیصد

متھن لام: بمبئی ہائی کورٹ میں بطور واحد خاتون وکیل ’چڑیا گھر میں نئے جانور کی طرح محسوس ہوا‘

تو کیا خواتین کو گھریلو کام کرنے کے پیسے دیے جانے چاہییں؟

انڈیا میں نوکری کرنے کے بجائے اپنا گھر سنبھالنے والی خواتین کی تعداد 16 کروڑ ہے۔ باقی دنیا کی طرح وہ گھر کی صفائی کرتی ہیں، کھانا پکاتی ہیں، کپڑے دھوتی ہیں اور گھر کی جمع پونجی کے ساتھ خاندان کے مالی اخراجات کو دیکھتی ہیں۔ وہ اپنے گھر میں پانی، کھانے، آگ لگانے کے لیے لکڑی اور دیگر اشیا کا بندوبست بھی کرتی ہیں اور اس کے ساتھ اپنے بچوں کے علاوہ خاوند کے خاندان کا بھی خیال رکھتی ہیں۔

خواتین ہر روز گھریلو کام کاج میں 297 منٹ گزارتی ہیں۔ جبکہ مرد صرف 31 منٹ اس نوعیت کے کاموں کو دیتے ہیں۔ ایک چوتھائی مرد اپنا وقت بغیر تنخواہ گھریلو کام کاج میں گزارتے ہیں جبکہ 80 فیصد خواتین ایسا کرتی ہیں۔

قانونی ماہر گوتم بھاٹیا کہتے ہیں کہ بغیر تنخواہ گھریلو کام کاج کا مطلب ’جبری مزدوری‘ ہے۔ دلی یونیورسٹی کی ریسرچ سکالر ارپن تلسیان کہتی ہیں کہ ’بغیر تنخواہ کیے گئے گھریلو کام کاج کی اہمیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔‘

بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ نصف صدی سے قبل انڈیا کی عدالتیں گھریلو خواتین کے بغیر معاوضہ کیے گئے کام کاج کے عوض انھیں معاوضہ دے رہی ہیں، لیکن صرف ان کے مرنے کے بعد۔

انڈیا

کنگز کالج لندن میں قانون اور انصاف کی پروفیسر پرابھا کوتسوران نے سنہ 1968 سے 2021 کے درمیان ایسے 200 مقدمات کا جائزہ لیا ہے۔ ان مقدمات کو اس انڈین قانون کے تحت درج کروایا گیا ہے جس میں سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کی نگرانی کی جاتی ہے اور دیگر جرمانوں کی طرح گاڑی تیز چلانے پر جرمانہ عائد ہوتا ہے۔

انھیں یہ علم ہوا کہ ملک کی عدالتوں نے ’گھریلو کاموں کے لیے اجرت‘ سے متعلق ایک ’مضبوط‘ قانونی فریم ورک تیار کیا ہے: ججوں نے سڑک حادثات میں جاں بحق ہونے والی خواتین کے بلا معاوضہ کام کو اہمیت دیتے ہوئے ان کے معاوضے کا تعین کیا اور اس معاوضے کو انھیں ادا کروایا جن کا ان خواتین پر انحصار تھا۔

گھریلو کام کاج کی قیمت طے کرنے کے لیے ججز نے ان کی زندگی میں دوسرے مواقع دیکھے جن میں وہ کچھ اور کر سکتی تھیں اور اپنا کریئر بنا سکتی تھیں۔ خاتون کا گھر پر کام کرنے کا فیصلہ، ہنر یا بغیر ہنر کام کے بدلے کم از کم معاوضہ، تعلیمی قابلیت اور عمر کے ساتھ معاوضہ طے کرنے کے لیے یہ بھی دیکھا گیا کہ آیا اس خاتون کے بچے تھے یا نہیں۔

دسمبر میں ایک عدالت نے ایک 33 سالہ خاتون کے لیے 17 لاکھ کے معاوضے کا اعلان کیا جن کی ہلاکت ایک ٹریفک حادثے میں ہوئی تھی۔ یہ طے کیا گیا کہ انھیں ماہانہ پانچ ہزار روپے تنخواہ مل سکتی تھی۔

سپریم کورٹ نے مرحوم گھریلو خاتون جس کی عمر 34 سے 59 سال تھی، اس کے لیے نو ہزار ماہانہ تنخواہ کی رقم کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ 62 سے 72 سال عمر کی خواتین کے لیے اس سے کم رقم طے کی گئی ہے۔ عمر کے ساتھ معاوضہ کم ہوتا ہے کیونکہ عدالتوں کے مطابق بچوں کے بڑے ہو جانے کے بعد خواتین بچوں کی دیکھ بھال میں کم وقت گزارتی ہیں۔

جہاں بھی ممکن ہو ججز نے کوشش کی ہے کہ اس معاوضے کو مہنگائی کے مطابق رکھا جائے۔ ایک فیصلے میں ججز نے شادی کو ’برابری کی معاشی شراکت‘ قرار دیا جس کا مطلب ہے کہ گھریلو خواتین کی آمدن ان کے خاوند کی تنخواہ کا نصف ہو گی۔

پروفیسر کوتسوران نے اس نوعیت کا سب سے پُرانا فیصلہ سنہ 1966 میں دیکھا جس میں عدالت نے حکم دیا تھا کہ اپنی اہلیہ کی دیکھ بھال کے لیے خاوند کی تنخواہ اس کے اخراجات جتنی بنتی ہے۔ اس دلیل کے ساتھ شوہر کو کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔

پروفیسر کوتسوران کا کہنا ہے کہ چند مقدمات میں عدالت کی جانب سے طے کردہ معاوضے بہت کم تھے ’لیکن بغیر تنخواہ کیے گئے کام کو تسلیم کرنے کا اصول نوکری کے برابر سمجھا گیا جو کہ اہم ہے۔‘

انڈیا

اس سے یہ سوال جنم لیتا ہے: اگر ایک خاندان کو گھریلو خواتین کی موت کے بعد اس کے بغیر تنخواہ والے کام کے عوض معاوضہ مل سکتا ہے تو اس خاتون کی زندگی میں یہ رقم کیوں نہیں دی جاتی؟

پروفیسر کوتسوران کے مطابق وکلا ان فیصلوں کو استعمال کر سکتے ہیں تاکہ آئین و قانون اور فیملی لا میں اصلاحات لا سکیں جس سے نہ صرف کسی مشکل صورتحال میں بلکہ عام زندگی میں بھی ایسی خواتین کے بغیر آمدن کیے گئے کام کو تسلیم کیا جا سکے۔

اگر گھر پر موجود خواتین کو ان کے کام کاج کے عوض پیسے دیے جاتے ہیں تو اس سے انڈیا میں خواتین کی کام کاج میں شمولیت کی گِرتی شرح بھی بہتر ہو سکتی ہے۔

پروفیسر کوتسوران کہتی ہیں کہ ’میں گھریلو خواتین کے لیے تنخواہ کا مطالبہ نہیں کر رہی بلکہ ایک وسیع مہم کی دلیل پیش کر رہی ہوں جس کا مقصد گھر کے کام کے بدلے پیسے دینا ہے۔ اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ خواتین کو ایسے کام کی طرف لانا ہے جس سے آمدن ہوتی ہے۔‘

’انڈیا میں خواتین کے حقوق کی مہم کئی بڑے مسائل پر مرکوز ہے لیکن شادی کے تعلق میں محنت مزدوری جیسے بڑے سوال نہیں پوچھے جاتے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اس مسئلے پر خواتین کی کوئی بڑی تحریک نہیں پائی جاتی۔ زیادہ تر اشرافیہ سمجھتی ہے کہ شادی شدہ گھریلو خواتین کے لیے تنخواہ ممکن نہیں یا یہ رجعت پسند عمل ہو گا۔ لیکن گھریلو کام کاج کو تسلیم کرنے کے لیے یہ ایک وسیع سیاسی بحث بن سکتی ہے۔‘

’انڈین گھرانوں میں لاکھوں خواتین کے ذمے اپنا گھر سنبھالنا ہوتا ہے اور یہ خواتین خود کو تنخواہ ملنے کی بات کا خیر مقدم کر سکتی ہیں۔‘

لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا، اس حوالے سے بہت سے سوالات ہیں۔

انڈیا

یہ تنخواہ پیسوں کی صورت میں دی جانی چاہیے، ریاست کو سبسڈی دینی چاہیے یا ملکی سطح پر ایک بنیادی آمدن کا ڈھانچہ ہونا چاہیے؟ خواتین کے بغیر آمدن کام کو تسلیم کرنے کے لیے کیا خاندانی قوانین میں تبدیلی لانی ہوگی؟ وہ مرد جو گھریلو کام کرتے ہیں کیا انھیں بھی اس کا معاوضہ ملنا چاہیے؟ اس آمدن کی سکیم میں کیا خواجہ سراؤں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے؟ گھریلو خواتین کو تنخواہ ملنے کے غیر ارادتاً کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟

پروفیسر کوتسوران کہتی ہیں کہ ’گھریلو خواتین کے لیے تنخواہوں کا مطالبہ کرنے یا اس کی تحریک چلانے سے پہلے ہمیں اس پر مسلسل بحث کرنا ہو گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp