واصفہ کمال: ’معاشرتی رویوں میں کچھ باتیں ایسی ہیں جو سُن سُن کر لڑکیاں تھک چکی ہیں‘


واصفہ کمال
واصفہ کمال
’ہمارے یہاں لڑکیوں کو بہت دبا کر رکھا جاتا ہے۔ اُنھیں اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرنے دی جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ تمھاری زندگی کا واحد مقصد شادی کر کے گھر بسانا ہے۔ یہ تو سراسر غلط بات ہے۔‘

یہ خیالات ہیں پاکستان کے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والی اُبھرتی ہوئی نوجوان ڈیجیٹل آرٹسٹ واصفہ کمال کے۔ واصفہ ’السٹریشن آرٹ‘ کی صنف میں کام کرتی ہیں اور اپنے فن کے ذریعے متعصبانہ معاشرتی رویوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

آئیے گول روٹی، کالی رنگت اور چھوٹے قد جیسے اچھوتے موضوعات پر انوکھا آرٹ تخلیق کرنے والی واصفہ کمال کی شخصیت اور آرٹ کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

لوگوں کی باتیں

22 سالہ واصفہ میڈیا سائنسز کی طالبہ ہیں۔ مصوری تو وہ بچپن سے کرتی آ رہی تھیں لیکن ڈیجیٹل آرٹ کی فیلڈ میں آنا محض اتفاق تھا۔

’سوشل میڈیا پر خواتین کے کئی گروپس بنے ہوئے ہیں۔ میں نے وہ گروپس جوائن کیے تو جانا کہ لڑکیوں کے تو رشتے بھی صرف اِس بات پر مسترد ہو جاتے ہیں کہ وہ دکھنے میں ایک مخصوص معیار پر پوری نہیں اُترتیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

پلس سائز فیشن: ’پاکستان میں میرا ناپ نہیں ملتا‘

’چھوٹا قد یا موٹا جسم، ہر کمی آپ کی طاقت بن سکتی ہے‘

BBCShe#: ’پاکستانی عورت کی آواز دبانا اتنا آسان نہیں رہا‘

’کئی باتیں ایسی ہیں جو برس ہا برس سے چلی آ رہی ہیں جیسے کسی کی رنگت پر تبصرہ کرنا یا اُس کے وزن کو تنقید کا نشانہ بنانا۔ تو میں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نا ایسے موضوعات پر آرٹ تخلیق کیا جائے اور اِن مسائل کی نشاندہی کی جائے۔‘

آپ کی سوچ کالی

واصفہ کمال کے پہلے آرٹ ورک کا موضوع تھا ’آپ کی سوچ کالی ہے۔‘ اِس کے پسِ پردہ خیال کے بارے میں بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں اکثر لوگ گہری رنگت کے افراد خاص طور پر لڑکیوں کا مذاق اُڑاتے ہیں۔

’میں یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ انسان کا رنگ کالا ہو یا نہ ہو دیکھنے والے کی سوچ ضرور کالی یعنی غلط ہو سکتی ہے۔‘

واصفہ نے ذاتی تجربات کو بھی اپنے ’ڈیجیٹل آرٹ‘ کا موضوع بنایا۔

’میرا قد عام لڑکیوں کے مقابلے میں کچھ کم ہے۔ بچپن سے اب تک کوئی مجھے ’بونی‘ کہتا ہے تو کوئی ’ٹھگنی‘۔ تو میں نے اِس موضوع پر بھی السٹریشن بنائی۔‘

پرفیکٹ گول روٹی

واصفہ کمال کہتی ہیں کہ اُن کی فیملی کی سوچ کافی مثبت ہے اور وہ اُن کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ خاندان سے باہر دیکھتی ہیں تو حالات کافی مختلف ہیں۔

’میں نے دیکھا کہ اکثر والدین لڑکیوں کو تعلیم دلانے کے بجائے کم عمری میں ہی اُن کی شادی کر دینا چاہتے ہیں۔ میں نے کئی بار سُنا کہ لڑکیوں کو کہا جاتا ہے کہ تمھیں تو گول روٹی ہی بنانی نہیں آتی، تم سُسرال میں کیا کرو گی۔‘

اِس موضوع پر اُنھوں نے جو السٹریشن بنائی اُس میں ایک لڑکی مہندی لگے ہاتھوں سے روٹی بیل رہی ہے جو یونیورسٹی کانوکیشن کے موقع پر پہننے والی ٹوپی کے انداز میں بنائی گئی ہے۔

لڑکے روتے نہیں

واصفہ کے ایک اور آرٹ ورک کا موضوع تھا ’لڑکے روتے نہیں ہیں‘۔

اُن کے مطابق ہمارے معاشرے میں لڑکوں کو جذبات سے عاری سمجھا جاتا ہے اور اگر کوئی لڑکا اپنے احساسات کا اظہار کرے تو اُسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔

’اِس کے علاوہ میرے ایک اور آرٹ ورک میں لڑکے کو کھانا پکاتے ہوئے دکھایا گیا۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ اگر کوئی لڑکا کھانا پکانے میں اپنی بیوی کی مدد کرے تو لوگ اُسے ’جُورو کا غلام‘ کہنے لگتے ہیں۔‘

ٹانگ نہ اڑائیں

واصفہ کی کئی کامیاب السٹریشنز میں سے ایک السٹریشن کا موضوع تھا ’ہر چیز میں اپنی ٹانگ نہ اڑائیں۔‘ اِس آرٹ ورک میں ایک لڑکی کٹی ہوئی انسانی ٹانگ پلیٹ میں رکھ کر پیش کر رہی ہے۔

’اِس السٹریشن کے ذریعے میں نے ہلکے پھلکے انداز میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ دوسروں کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ ہر کسی کو آزادی سے جینے کا حق ملنا چاہیے۔‘

اِسی طرح واصفہ کے ایک آرٹ ورک کا موضوع تھا ’شادی میری، ٹینشن آپ کو کیوں۔‘ واصفہ کے مطابق شادی ایک انتہائی ذاتی نوعیت کا فیصلہ ہے جس کے بارے میں کسی سے سوال کرنا غلط ہے۔

ہر عورت کی کہانی

واصفہ کمال نے جب پہلی بار اپنا آرٹ ورک سوشل میڈیا پر شیئر کیا تو اُنھیں مثبت ردِعمل ملا۔ بے انتہا پذیرائی سے اُنھیں اندازہ ہوا کہ جن موضوعات پر بات کرتی ہیں وہ معاشرے کی ہر عورت کے مسئلے ہیں۔

’پہلی السٹریشن پوسٹ کرنے کے دو ماہ کے اندر اندر انسٹاگرام پر میرے بیس ہزار فالوورز ہو گئے جو بہت بڑی کامیابی تھی۔‘

کبھی کبھی واصفہ کو منفی ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن وہ اُس کی زیادہ پروا نہیں کرتیں۔

’لڑکیاں مجھ سے رابطہ کرتی ہیں اور اپنی کہانیاں بتاتی ہیں کہ یہ سارے واقعات اُن کے ساتھ ہو چکے ہیں۔ تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں تو صرف آرٹ ورک بنا رہی ہوں لیکن یہ لڑکیاں تو اِس سب سے گزری ہیں۔‘

بیلنس ضروری ہے

واصفہ کے بقول گھر داری کے کام سیکھنا اور کرنا کوئی بُری بات نہیں لیکن اِس سب کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم اور پروفیشنل زندگی بھی اہمیت رکھتی ہے۔

اپنا ذاتی تجربہ بتاتے ہوئے واصفہ کا کہنا تھا کہ اُنھیں گھر والوں کی طرف سے کبھی پریشر کا سامنا نہیں کرنا پڑا کہ تم بھی شادی کر لو یا گول روٹی بنانا سیکھو۔

’ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر دیسی خاندان کی طرح میری امّی بھی مجھے چھیڑتی رہتی ہیں کہ اگر تم یہ سب کام سیکھ لو تو آگے کام آئیں گے۔‘

اپنی آواز اُٹھائیں

واصفہ کمال سمجھتی ہیں کہ ’السٹریشن آرٹ‘ ایک ایسا میڈیم ہے جو اب پاکستان میں بھی مقبول ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِسے سماجی تبدیلی کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

’معاشرتی رویوں میں کچھ باتیں ایسی ہیں جو سُن سُن کر لڑکیاں تھک چکی ہیں۔ کئی تو ایسی باتوں کا جواب بھی نہیں دے پاتیں۔‘

’میں چاہتی ہوں کہ ایسی عورتوں کی آواز بنوں۔ جو خواتین براہ راست اِن مسائل پر بات نہیں کر سکتیں وہ میرے آرٹ کے ذریعے اپنی آواز اُٹھائیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp