عمران فاروق قتل کیس میں قید معظم علی کی کہانی


معاشروں میں ظلم کی روایت تو پرانی ہے مگر جدید دور میں ظلم کے خلاف انصاف کی دیوار کھڑی کی گئی ہے۔ معاشرے میں ظلم کا شکار افراد مظلومیت کا رونا رونے کی بجائے انصاف کی آخری امید لے کر عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔ عدالت ہی واحد ذریعہ ہے جو ظلم اور نا انصافی کا راستہ روکتا ہے۔ جس سے معاشروں میں تہذیب و تمدن پنپتی ہے اور معاشرہ ترقی کرتا ہے۔

جن معاشروں میں یہ توازن قائم نہیں رکھا جاتا ہے۔ وہاں ظلم کے راج کو تقویت ملتی ہے اور انسانیت سسکتی ہے۔ اخلاقی قدریں، مذاہب، ریاست اور عدالتیں محض کاروباری اڈے بن کر رہ جاتے ہیں۔ معاشرے کھوکھلے ہو کر تباہی و بربادی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔

ملکی صورتحال بہت واضح ہے۔ مشاہدے اور جائزے کی ضرورت نہیں ہے کہ ملکی حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج ظلم و بربریت کے نئے نئے حربے آزمائے جا رہے ہیں اورریاست کے انصاف کے ادارے بے بس نظر آتے ہیں۔ بھیانک اور المناک حالات کا سامنا ہے۔

نظام عدل و انصاف میں کمزوریوں سے بے شمار ایسے افراد ہیں جو محض شک کی بنا پر کئی کئی سال جیل کی سزا بھگتتے ہیں بلکہ ان کے متعلقین بھی ذلیل وخوار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ خواتین کو بالخصوص کئی قسم کی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بچے الگ سے متاثر ہوتے ہیں۔

ایم کیو ایم کے اہم رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو شمالی لندن کے علاقے ایجویئر میں ان کے گھر کے پاس شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب اینٹوں اور چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔

استغاثہ کے مطابق دو ملزمان محسن علی سید اور محمد کاشف کامران پہ الزام تھا کہ ان دونوں نے مل کر عمران فاروق کو قتل کیا ہے۔

پاکستان میں عمران فاروق قتل کیس کے سلسلے میں تحقیقات جون 2015 میں شروع کی گئیں۔ پانچ دسمبر 2015 کو ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین سمیت سات افراد کے خلاف قتل، مجرمانہ سازش، اعانت جرم اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ان میں ایک نام معظم علی کا ہے۔

سعدیہ معظم علی استاد ہیں۔ لکھاری ہیں اور دردل رکھنے والی خاتون ہیں۔ ان کے شوہر معظم علی ساہیوال جیل میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ معظم علی پر الزام ہے کہ انہوں نے لندن میں ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ جس پر معظم علی کو 25 سال کی سزا سنائی گئی ہے۔

معظم علی کے سات بچے ہیں۔ اہلیہ نجی سکول میں تدریس کرتی ہے۔ شوہر معظم علی کے کیس کی پیروی کے لیے انہیں عدالتوں کے چکر کاٹنا اور گھر داری کی ذمہ داریاں نبھانا، بچوں کی تعلیم اور زندگی کے دیگر لوازمات پورے کرنے سمیت ساہیوال جیل میں قید شوہر سے ملاقات کے لئے جانا پڑتا ہے۔

سعدیہ کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر معظم علی نے سٹوڈنٹ ویزے پرمحسن علی سید اور محمد کاشف کامران کو لندن جانے کے لئے مدد ضرور کی مگر وہ ان کے پلان اور نیت کے بارے میں لاعلم تھے۔ معظم کے فرشتوں کو بھی شبہ تک نہیں تھا کہ ان کے ساتھ یہ سانحہ پیش آئے گا۔ طالب علم لڑکے قتل جیسی واردات کریں گے۔ یہ ایک انہونی تھی۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس گیا ہے۔

عمران فاروق قتل کیس کے تفتیش کار معظم علی کو متعدد بار غیر متعلق قرار دے چکے ہیں۔ پاکستان کے تفتیش کاروں نے اڈیالہ جیل میں بھی معظم سے جرح کی اور مقدمہ سے غیر متعلق قرار دیا گیا ہے۔ واقعاتی شہادتیں بھی معظم کی بے گناہی اور مقدمہ سے لاتعلقی کو ظاہر کرتی ہیں۔

منطق اور دلیل کے مطابق بھی اگر ایک شخص کسی کو زاد راہ دے کر روانہ کرتا ہے اور مسافر منزل پر پہنچ کر جرم کا ارتکاب کرے گا تو کیا زاد راہ دینے والے کو قصور وار ٹھہرایا جائے گا، پنجاب سے اس وقت کے وزیرداخلہ چودھری نثار علی کے ذاتی جذبات کا بھی عمل دخل ان کے سخت بیانات سے نمایاں ہے۔ پنجاب میں ایم کیو ایم کے ہر کارکن کو دہشت گرد، جرائم پیشہ اور اجرتی قاتل سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس ایم کیو ایم میں اعلیٰ تعلیم یافتہ، دانشور، رائٹر، ادیب اور بہترین اوصاف کے لوگ ہیں۔

معظم علی کا کیس نظرثانی کا متقاضی ہے۔ محض شک کی بنیاد پر شامل تفتیش کر کے اور الزامات عائد کرنے کے بعد عمر قید کی سزا قرین انصاف نہیں ہے۔ جبکہ قاتل اپنے جرم کا اعتراف کر چکے ہیں۔ سکارٹ لینڈ یارڈ کا موقف بھی مرکزی مجرموں کے حوالے صاف ہے اور معظم علی کو غیرمتعلقہ قرار دیا گیا ہے۔ پاکستانی تفتیش کار بھی معظم کے براہ راست ملوث ہونے کے شواہد تلاش نہیں کر پائے ہیں۔

قرین انصاف ہے کہ سات بچوں اور اہلیہ جن کے شب روز شدید مشکلات سے گزر رہے ہیں انہیں مزید آزمائش سے دوچار کرنے کی بجائے معظم علی کی سزا میں تخفیف کی جائے۔ یہ انصاف کے ساتھ بھی ظلم ہے کہ اک بے گناہ شخص محض شک کی بنیاد پر سلاخوں کے پچھے سسک رہا ہے اور اس کے اہل و عیال زمانے کے بے رحم اور سفاک تھپیٹروں کاسامنا کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان، وزیراعظم عمران خان، انصاف کے اداروں سمیت انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل ہے کہ معظم علی اور اس کے بچوں کو انصاف فراہم کیا جائے۔ معظم علی بے گناہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).