قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کا پھر ہنگامہ اجلاس ایک روز قبل غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی


\"\"

اسلاام آباد (وقائع نگار خصوصی‘ سٹاف رپورٹر) پارلیمانی انتخابی اصلاحات کمیٹی انتخابی اصلاحات پیکیج کی منظوری نہ دے سکی، کمیٹی میں خواتین کے 10فیصد سے کم ووٹ پول ہونے پر انتخاب کالعدم قرار دینے کے معاملے پر سیاسی جماعتوں میں اختلاف برقرار رہا، کمیٹی نے سیاسی جماعتوں سے ذیلی کمیٹی کی رپورٹ پر 30 روز میں رائے طلب کرلی۔ کمیٹی کا اجلاس وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارکی صدارت میں ہوا تاہم پارلیمانی کمیٹی انتخابی اصلاحات کے مسودے کی منظوری نہ دے سکی۔ پارلیمانی کمیٹی نے تمام سیاسی جماعتوں سے مسودے پر 30 روز میں رائے طلب کرتے ہوئے اسے دونوں ایوانوں میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ اجلاس میں خواتین کے 10فیصد سے کم ووٹ پول ہونے پر انتخاب کالعدم قرار دینے کے معاملے پر سیاسی جماعتوں میں اختلاف سامنے آیا، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی نے خواتین کے 10فیصد سے کم ووٹ ڈالے جانے پر انتخاب کالعدم قرار دینے پر اتفاق کیا تو ایم کیو ایم اور حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) نے بھی تجویز کی حمایت کی تاہم آفتاب شیرپائو، فاٹا، جے یو آئی اور دیگر ارکان نے 5فیصد سے کم ووٹ پول ہونے پر الیکشن کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ کمیٹی نے ایک ماہ میں الیکشن کمیشن کو یونیفائیڈ الیکشن ایکٹ رولز تیار کرکے پیش کرنے کی ہدایت بھی کی۔ اعلامیہ کے مطابق کچھ ارکان نے خواتین کے 10فیصد ووٹ کو لازمی قرار دینے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ ارکان خواتین کے ووٹ ڈالنے کی کم سے کم شرح 5فیصد تک محدود کرنا چاہتے ہیں۔
انتخابی اصلاحات کمیٹی
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + نیوز ایجنسیاں) تحریک انصاف کی ہنگامہ آرائی کے بعد قومی اسمبلی کا رواں اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔ دو روز تک مسلسل دو گھنٹوں کی تاخیر سے شروع ہونے والا اجلاس گزشتہ روز محض پندرہ منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا لیکن کارروائی محض بیس منٹ ہی چل سکی تھی کہ تحریک انصاف کی شیریں مزاری نے کورم کی نشاندہی کر دی، کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس ملتوی کر دیا گیا جو نماز مغرب کے وقفہ کے بعد ہی شروع ہو سکا۔ بعد از وقفہ کارروائی کے دوران وزیر خزانہ اسحاق ڈا رنے انتخابی اصلاحات کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی کی عبوری رپورٹ پیش کی، اس کے بعد پیپلز پارٹی کی طرف سے ریگولیٹری اداروں کو وزارتوں کے ماتحت کرنے پر اعتراض کیا گیا، اس کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ کمیشن رپورٹ پر بحث کا آغاز ہوا تو تحریک انصاف کے اسد عمر نے زیر بحث موضوع کے بجائے پانامہ اور اس حوالہ سے ایوان میں وزیراعظم کی تقریر کو زیر بحث لانا چاہا تو ہنگامہ آرائی کا آغاز ہو گیا۔ سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ اسد عمر صاحب براہ کرم اپنی تقریر جسٹس فائز عیسیٰ رپورٹ تک محدود رکھیں۔ اسد عمر نے دانیال عزیز کا نام لئے بغیر جواب دیا پیر کے روز ایک سرکاری رکن نے وزیر اعظم کے حق میں طویل جواب دیا، اب ہمیں بھی حق ملنا چاہیے، سپیکر نے کہا آپ کی پارٹی نے چیزیں طے کی ہیں تو ان کے مطابق چلیں، اسد عمر نے دوبارہ اور سہ بارہ یہی کوشش دہرائی تو سپیکر نے کہا کہ آپ مجھے اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اس دوران تحریک انصاف کے ارکان چور چور اور نو نو کے نعرے لگاتے رہے۔ تحریک انصاف کے سعید مراد اور شیریں مزاری نعرے بازی میں پیش پیش تھے۔ تحریک انصاف کے ارکان نے نعرہ بازی تیز کی تو سپیکر نے اجلاس کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کا حکم پڑھ کر سنا دیا، تحریک انصاف کے ارکان نو نو کے نعرے بلند کرتے ایوان سے باہر نکلے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے جسٹس فائز عیسٰی رپورٹ پر جاری بحث پر جواب دینا تھا لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔آئی این پی کے مطابق قومی اسمبلی میں پانچویں روز بھی شدید ہنگامہ آرائی اور سخت نعرے بازی اور حکومتی اور تحریک انصاف کے ممبران کے درمیان تندوتیز حملوں کا تبادلہ بھی ہوا، تحریک انصاف کے ممبران کی جانب سے شدید نعرے بازی ہوئی اور انہوں نے چور بھاگ گئے کے نعرے لگائے۔ سپیکر نے اسد عمر کے تقریر محدود نہ کرنے پر اجلاس ملتوی کردیا۔ آن لائن کے مطابق اپوزیشن نے قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک اچانک ملتوی کرنے پر شدید احتجاج کیا ہے اور کہا حکومت رائج الوقت جمہوری امور پارلیمانی روایات کو بلڈوز نہ کرے ورنہ سخت نتائج بھگتنے پڑیں گے، حکومت پانامہ لیکس پر ایوان کے اندر احتجاج سے فرار اختیار کر رہی ہے لیکن حکومت کو ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر نوید قمر نے کہا حکومت ایڈوائزری کمیٹی میں کئے فیصلوں پر عمل نہیں کر رہی، غلط طریقہ سے اجلاس برخاست کرنا ارکان کو ان کے حقوق سے محروم کرنا ہے۔ شیریں مزاری نے کہا اجلاس21دسمبر تک شیڈول کے مطابق چلنا تھا لیکن حکومت اچانک اجلاس ملتوی کر کے کیا پیغام دینا چاہتی ہے، اسی اثناء میں شریں مزاری نے کورم کی نشاندہی بھی کردی جس پر ارکان نے شیریں مزاری پر آوازے بھی کسے۔اے پی پی کے مطابق قبل ازیں انتخابی اصلاحات کے لئے قائم پارلیمانی کمیٹی کی دوسری عبوری رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کردی گئی جبکہ 9 مختلف انتخابی قوانین کو یکجا کرکے انتخابی قانون 2017ء کا مسودہ 30 دن کیلئے ارکان اور دیگر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد سے تجاویز کیلئے پیش کردیا گیا، رپورٹ کو قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر بھی ڈالا جائے گا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے رولز معطل کرنے کی تحریک پیش کی تاکہ انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے میں تاخیر پر صرف نظر کیا جائے جس کی ایوان نے منظوری دیدی۔ اسحاق ڈار نے عبوری رپورٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے بتایا کہ قومی اسمبلی اور سینٹ کی کمیٹی25 جولائی 2014ء کو تشکیل دی، اس کے 33 ممبران ہیں۔ یہ دوسری عبوری رپورٹ ہے۔ پہلی عبوری رپورٹ پر 21ویں ترمیم آئی تھی۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کو چار ہزار صفحات پر 1200 سفارشات موصول ہوئیں اور پھر24 اکتوبر2014ء کو زاہد حامد کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی کے 70 اجلاس ہوئے۔ 22ویں ترمیم کمیٹی کی رپورٹ پر یہاں آئی۔ ترمیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کا تقرر ہوا۔ اس وقت انتخابات کے حوالے سے 9 الگ الگ قوانین موجود ہیں۔ اس کمیٹی کو صاف شفاف انتخابات کے لئے قوانین میں ترمیم کرنے کے ساتھ ایک یکساں قانون بنانے کا ٹاسک بھی دیا گیا۔ کمیٹی کے اجلاس میں نیا مجوزہ بل 2016ء پیش کیا گیا۔ ہم نے اس بل اور مسودے کو ارکان تک فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ایک ماہ تک ارکان اس پر غور کریں۔ جس کے بعد کمیٹی حتمی فہرست لائے گی۔ کمیٹی نے 27ویں ترمیم کا بل تیار کیا ہے تاہم اس پر مزید کام ہونا باقی ہے۔ کمیٹی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا۔ اس پر سول سوسائٹی‘ قانونی فورم‘ پارلیمنٹرینز اپنی تجویز دینا چاہیں تو دے دیں۔ اس کو زیر غور لایا جائے گا۔ آئندہ ایک دو روز میں اس کو سینٹ میں پیش کیا جائے گا۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بل پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ بھی قومی اسمبلی میں پیش کردی گئی۔ آن لائن کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے ریگولیٹری اتھارٹیز اداروں کو متعلقہ وزارتوں کے ماتحت کرنے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ پوائنٹ آف آرڈر پر پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر نوید قمر نے کہاحکومت کے اقدامات سے آئین کی نفی کی گئی۔ لگتا ہے ملک کے اندر مغل بادشاہت چل رہی ہے۔ ریگولیٹری اتھارٹی کے قانون ایک دن میں نہیں بنے کس کی بات بادشاہت کو ناگوار گزری ہے جس کے نتیجہ میں آئین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ریگولیٹری اتھارٹیز کی خود مختارانہ صلاحیت ختم کردی گئی ہے۔ حکومت فیصلے پر از سر نو غور کرے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جب حکومت وسعت قلب سے کام لیتی ہے تو اپوزیشن تعاون کرتی ہے حکومت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ریگولیٹری اتھارٹی کو وزارت کے اندر تابوت میں بند کردیا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا نوٹیفکیشن کے مطابق انتظامی کنٹرول وزارتوںکو دیا گیا ہے جبکہ ریگولیٹری اختیارات انہی اداروں کے پاس رہیں گے ریگولیٹری اختیارات کو قانون سازی کے ذریعے تحفظ دیا گیا ہے۔ خواجہ آصف نے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا یہ ادارے پہلے کابینہ ڈویژن کے تحت تھے اور اب انہیں متعلقہ وزارتوں کے تحت دے دیا گیا ہے۔ حکومت ان اداروں پر اثرانداز ہونا چاہتی تو کابینہ ڈویژن کے ذریعہ بھی ہوسکتی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments