جرنیلی سڑک اور خاکی ٹرک


”بابا اس سے آگے موڑ پر ہم ٹرک سے آگے نکل جائیں گے“
”نہ بیٹا۔ ہم ٹرک کے پیچھے ہی جائیں گے۔ دعا کریں کہ ٹرک سپیڈ پکڑے یا پھر ہم کو خود ہی آگے کر دے۔“

”لیکن بابا یہ ٹرک ہے آخر۔ ہم ٹیوٹا کار میں ہیں۔ آپ اور ٹیک کر لیں پلیز بابا۔ یہ دیکھو۔ اب رستہ کھل گیا۔ please now، be quick“

بابا کچھ کہنا چاہتا ہے۔ مگر ایک گہری زیر لب مسکراہٹ پر اکتفا کرتا ہے۔ جہاں مسکراہٹ کم، تکلیف کے آثار زیادہ ہیں۔

بارہ سال کا عدنان بضد چلا آ رہا تھا۔ عمر رسیدہ بابا کے ساتھ سفر کرتے ہوئے اسے یہ دقت ہمیشہ پیش رہی تھی کہ وہ سست روی اور اپنی موج میں چلتی ٹرک کو بائی پاس نہ کرتے اور اپنے ہی موشن کو کنٹرول میں رکھتے۔ اس ٹرک کا رنگ خاکی مائل ہے اور اس میں سامان کے بجائے کچھ بندوق بردار جوان لدے ہوئے ہیں۔ اگلی نشتوں پر بیٹھے ہوئے سواروں کا حال معلوم نہیں مگر جن کا رخ پشت کی طرف ہے، وہ عجب انداز سے گھور رہے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں غصہ ہے، بے زاری ہے اور رنجشیں ہیں۔ جو گاڑی قریب سے گزرنے کی کوشش کرتی ہے یا قریب آتی ہے، وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں اور وہ گاڑی اپنی سپیڈ پھر سلو کر لیتی ہیں۔

بابا نے بارہا یہ نظارہ کیا تھا کہ جو حضرات اپنی اوقات میں نہ رہتے اور جن کو اپنی رفتار پہ ناز ہوتا، جو خاکی ٹرک سے آگے نکلنے کے جتن کرتے، ان کو لاتوں اور بوٹوں سے پیٹا گیا۔ شاہراہ سے اتار دیے گئے، وہ ڈگمگاتے ہوئے پگڈنڈیوں پر چلتے دیکھے گئے۔ یہ تماشا دہائیوں سے چلا آ رہا تھا۔ بابا کی داڑھی میں چاندنی اتر آئی تھی۔ مگر ان کی نصف صدی اس خاکی ٹرک کے پیچھے طے ہوئی تھی۔ یہ جہاں دیدہ بابا آج نوخیز عدنان کے اصرار کے آگے ہتھیار ڈالنے والا نہیں کیونکہ ان کا ہتھیار ڈالنا، خاکی ٹرک میں بیٹھے جوان کے ہتھیار اٹھانے کے مترادف ہو گا۔

ٹرک کو منزل پر پہنچنے کی جلدی نہیں کہ یہ سب اس کی منزلیں ہیں۔ ساری رنگ برنگ اور بے رنگ گاڑیاں ٹرک کے پیچھے اسی رفتار سے لیکن ذرا پیچھے چل رہی ہیں ، جس موج سے ٹرک ڈانواں ڈول ہوتی جا رہی ہے، ایسے میں بابا بیٹے کا دل بہلانے کے لیے اور کچھ سفر کی اذیت کم کرنے کے لیے کہانیاں سنانے لگتا ہے۔ بابا کا سینہ رازوں کا دفینہ ہے۔ اس جرنیلی سڑک اور اسی خاکی ٹرک کے متعلق دسیوں واقعات اسے ازبر ہیں۔

”یہ سڑک جب نئی نئی بنی تو سکندر اعظم اس پر سفر کیا کرتا تھا۔ وہ خاکی ٹرک کا خاص خیال رکھتا۔ خود تو حد ادب ملحوظ رکھتے ہی مگر اس کی خاطر دوسروں کو بھی دن دہاڑے آڑے ہاتھوں لیتے۔ میری آنکھوں کے سامنے ایک دن کیا ہوا کہ گل فیروز خان اپنی گاڑی چلا رہا تھا۔ اگرچہ اس نے خاکی ٹرک کو کراس نہیں کیا تھا مگر سکندر اعظم کی بائیں جانب سے تیز گزر گیا۔ یہ گستاخی ان کو برداشت نہ ہوئی اور خاکی ٹرک کی مدد سے ان کی گاڑی کو سڑک سے نیچے پھینک دیا۔“

”اوہ۔ بے چارہ گل فیروز خان۔“ عدنان نے ٹھنڈی آہ بھری۔ ”سکندر اعظم کے ساتھ ٹرک والوں کی بڑی اچھی بنتی ہوگی نا بابا۔ یہ ان کی ہر بات مانتے تھے؟“

”نا بیٹا۔ یہ کسی کے مستقل دوست رہ سکتے ہیں اور نہ ہی دشمن۔ دوسرا دن تھا غالباً کہ سکندر اعظم پر پابندی لگا دی کہ وہ اس سڑک پر گاڑی نہیں چلا سکیں گے۔ بعد میں خبر آئی کہ ان کو یونان پہنچا دیا گیا۔“

”اللہ۔ کس قدر خود غرض ہیں۔“ عدنان نے بے زاری سے کہا۔

”وہ ٹرک جس نے پہلے گل فیروز خان اور پھر سکندر اعظم کو سڑک سے اتارا تھا، کوئی دہائی بھر چلتی رہی۔ پھر ڈرائیور تھک گیا اور ٹرک میں بھی کچھ فنی خرابیاں در آئیں۔ نیز پیچھے گاڑیوں کی لگی قطار میں بھی بے چینی بڑھ رہی تھی۔ لہٰذا ایک دوسرا ٹرک بلا لیا گیا اور ہم اس کے پیچھے چل پڑے۔“

”پھر کیا ہوا؟“

”ہونا کیا تھا۔ وہ ٹرک رکا تو ہم کچھ آگے چل نکلے۔ تیسرا پہنچ گیا اور ہم اس کے پیچھے ہو لیے۔ اس ٹرک کا ایکسڈنٹ ہو گیا۔ ڈرائیور سمیت کئی سوار ہلاک ہو گئے“

”اوہ۔ that is horrible۔ بابا لیکن آپ خوش بھی تو ہوئے ہوں گے کہ اب ٹرک کے پیچھے نہیں، اپنی مرضی اور رفتار سے سفر کریں گے؟“

”ہاہا۔ یوں نہیں بولتے مگر سچی بات ہے ہم نے سکھ کا سانس لیا تھا تب۔ سفر کی اس مسلسل اذیت نے بہت ہی بے کل کر دیا تھا۔ مگر ہماری خوش فہمیاں دیرپا ثابت نہ ہوئیں۔ جلد ہی ٹرک کمپنی کی طرف سے ہدایات آئیں کہ جب تک ٹرک ورک شاپ میں ہے اور نئے ڈرائیور کا موڈ نہیں بن جاتا، تب تک انہی میں سے ایک دو گاڑیاں پیش رو کے طور پر آگے کر دی جائیں، ایسا ہی کیا گیا۔ جو ڈرائیور حکم مانتا اور اس کی کمپنی تک شکایات نہ پہنچتیں، اسے آگے چلنے دیا جاتا مگر جیسے ہی اس ڈرائیور کی طرف سے من مانیاں شروع ہوئیں اور کمپنی کی ہدایات نظر انداز کر دی گئیں، اس کو ہٹا دیا اور کوئی دوسری گاڑی آگے کر کے باقی پیچھے لگا دی گئیں۔ کچھ سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر ٹرک بن کر آ گیا اور ڈرائیور بھی تازہ دم تھا۔ برسوں تک ہم اس کے پیچھے چلتے رہے۔“

”اوہ۔ awful۔ بابا کتنے سال ہو گئے ہیں آپ کو اس ٹرک کے پیچھے سفر کرتے ہوئے؟“

”میری عمر کوئی سات دہائیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس شاہراہ پر تین دہائیاں تو ایسی بیتیں کہ کمپنی کا اپنا ٹرک ہوتا اور ڈرائیور بھی اپنا، ہم پیچھے چل رہے ہوتے۔ جبکہ باقی چار دہائیوں میں ڈرائیور ہم میں سے ہی کسی کو بنا دیا جاتا اور ٹرک کا رنگ بھی خاکی مائل نہ ہوتا مگر یہ ڈرائیور اور وہ گاڑی انہی ہدایات پر چلتے جو ٹرک کمپنی کی طرف سے جاری ہوتیں۔ ہمارے لیے کم و بیش دونوں یکساں رہے۔ مگر کبھی کبھی اتنا ضرور ہوتا کہ ہماری گاڑیوں میں سے بعض ذرا تیز رفتار اور ڈرائیور منجھا ہوا نکل آتا۔اس طرح سفر کچھ اچھا کٹتا۔ مگر ایشو پھر یہ آ جاتا کہ ٹرک مالکان کو پتا چل جاتا۔ وہ جب یہ جان لیتے کہ خود سر گاڑی دوڑتی جا رہی ہے اور کمپنی کی ہدایات سے آنکھیں چرا رہی ہے، تب وہ اسے پیچھے کر دیتے اور کوئی دوسری فرمان بردار اور ہدایات پر چلنے والی گاڑی آگے کر دیتے۔

ہماری قسمت میں یہی لکھا ہے۔ نصف صدی سے زیادہ کا قصہ ہے یہ۔ ہمارے سامنے جو ٹرک جا رہا ہے، یہ بھی کمپنی کا اپنا نہیں۔ ہر چند اس کا رنگ بھی خاکی ہے اور سوار بھی زیادہ تر بندوق تانے بیٹھے ہیں۔ یہ ٹرک کمپنی کی ہدایات پر چلتا ہے۔ اس کے ڈرائیور کو Yes Man کہا جاتا ہے۔ یہ وہی کچھ کرتا ہے جس کی ہدایت ہو۔ کمپنی نے ہم میں سے جن گاڑیوں کو چنا اور ہم کو ان کی کمانڈ میں دیا، ان سب میں سے بد ترین یہی نکلی۔ ڈرائیور نکما، ٹرک ناکارہ۔“

عدنان کی نظریں دور افق پر کچھ ڈھونڈ رہی تھیں۔ بابا نے کن اکھیوں سے دیکھا اور سمجھ گیا کہ ان کی باتیں عدنان نے سنی نہیں۔ سورج کا رنگ سرخی مائل ہو چلا ہے۔ شام کے اداس دشت میں سورج کا چہرہ لال ہو کر اب نظروں سے اوجھل ہو رہا ہے۔ بابا پر ایسے سمے ایک وجد سا طاری ہو جاتا ہے۔ ٹرک کی رفتار میں یک لخت سستی آ گئی ہے۔ پرزہ پرزہ دہائیاں دے رہا ہے کہ اس سے چلا نہیں جاتا۔

بابا نے سائیڈ ونڈو سکرین سے سر نکال کر دیکھا تو پیچھے دور تک گاڑیاں دھیمی چال سے رینگ رہی تھیں۔ انہوں نے ریموٹ اٹھایا اور ٹیپ چلا دیا۔ مہدی حسن کی سریلی آواز کا جادو جاگنے لگا۔ وہ گا رہا تھا:

یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسبان اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خوان اس کے

بابا اپنی دھن میں ساتھ ساتھ گنگناتا جا رہا تھا۔ دو تین دفعہ یہی بول مغنی کے ساتھ دھرائے مگر اچانک اس کا ہاتھ سامنے ٹرک اور ٹرک میں بیٹھے مسلح افراد کی طرف اٹھا اور نغمے نے یہ صورت اختیار کر لی:

یہ وطن تمہارا ہے، ہم ہیں خوامخواہ اس میں
یہ چمن تمہارا ہے، ہم ہیں خوامخواہ اس میں

یہ تان عدنان کے اس سوال کے ساتھ ٹوٹی کہ کیا کبھی ہم اپنی مرضی سے اس سڑک پر چلا پھرا کریں گے اور کسی ٹرک کے پیچھے چلنے کے پابند نہ ہوں گے؟ بابا جواب کے موڈ میں نہ تھے۔ خاموش رہے۔ عدنان مشتعل ہو گیا۔ جانے کہاں سے اس کے اندر جاوید اختر کی روح در آئی۔ ”بابا یہ ٹرک کیا ہے؟ یہ کیا ہے آخر جو جا رہا ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کدھر کو جا رہا ہے؟ یہ کب سے کب تک کا سفر ہے بابا؟“

ان سب پریشان سوالوں کے جواب میں بابا کی ایک اداس اور پھیکی سی زیر لب مسکراہٹ ہوتی ہے۔ ٹرک کی رفتار نہیں بدلی ہے مگر تاریکی تیزی سے اپنی زلفیں پھیلا رہی ہے۔ ٹرک کی بتی اب تیز ہو گئی ہے۔ ساری گاڑیاں اس سرخ بتی کے پیچھے لگی ہوئی ہیں۔

ٹرک اب اچانک ایک سرنگ میں داخل ہوتا ہے۔ سالم ٹرک سمیت بندوق بردار غائب ہو گئے ہیں مگر بتی نظر آ رہی ہے۔ بابا سوچتا ہے کہ یہ بتی دن بھر جلتی رہی ہے مگر اجالے میں نظر نہیں آ رہی تھی۔ ہم کب سے اس بتی کے پیچھے سفر میں تھے۔ ایسی بتی جو نظر نہیں آ رہی تھی۔ اب کہ جو نظر آ رہی ہے۔ اور شمع امید بنی ہے۔ ”شمع امید؟“ بابا چونک اٹھتا ہے۔ ”جیسے صحرا میں مسافر کو دور پانی کی چمک نظر آتی ہے۔ دشت کا ستایا ہوا، پیاس کا مارا ہوا یہ گرتا اٹھتا جاتا ہے۔ نزدیک پہنچ کر معلوم ہوتا کہ وہ سراب ہے۔ ریت کی چمک نے صحرا میں امید کی بتی جلائی ہوتی ہے مگر اس سے وقتی طور پر ہی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے۔ جگر کی پیاس نہیں بجھتی۔“

ٹرک کی بتی کے پیچھے سب لگے ہوئے ہیں اور تاریک سرنگ میں رینگ رہے ہیں۔ نہ شور ہے نہ ہارن کی آواز۔ گورستان کی سی خموشی ہر سو چھائی ہے۔ بابا پر بھی مکمل سکوت طاری ہے۔ عدنان آنکھیں بند کر کے سیٹ پر لیٹا ہوا ہے۔

سب کی نظریں ٹرک کی بتی پر ہیں۔ اچانک بتی ساکت ہو جاتی ہے۔ ٹرک رک جاتی ہے۔ سب بریکیں دبا دیتے ہیں۔ بتی جلی ہوئی ہے مگر حرکت نہیں کر رہی۔ لوگ اپنی اپنی سیٹوں پر دبکے بیٹھے ہیں۔ کافی وقت گزر گیا ہے مگر سوار اترنے کی زحمت کر رہے ہیں اور نہ ٹرک سے آ کر کوئی خبر دیتا ہے۔

آخر کار بوٹوں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ شخص کا چہرہ تاریکی میں نظر نہیں آ رہا۔ آواز سنائی دے رہی ہے۔ ایک گھبرائی ہوئی نحیف سی آواز کانوں میں دیر تک گونجتی ہے۔

”سرنگ کا دوسرا دہانہ بند ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).