ٹرمپ کی شکست پرہیمنگ وے کا ناول کیوں یاد آیا؟


20 جنوری 2021ء کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے (چھیالیسویں ) نو منتخب صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری واشنگٹن ڈی سی کے پارلیمنٹ ہاؤس کیپیٹل ہل میں منعقد ہوئی تو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تقریب میں شرکت کی دعوت مسترد کر دی کیونکہ انھوں نے دوبارہ صدر بننے کی دوڑ میں اپنی شکست قبول نہیں کی تھی۔

اس سے قبل امریکی میڈیا نے ڈونلڈ ٹرمپ کو واشنگٹن سے رخصت ہوتے ہوئے دکھایا۔ وہ الوداعی خطاب کرتے ہوئے نا خوش نظر آتے تھے۔ قبل ازیں 6 جنوری کو الیکشن ہار جانے والے صدرٹرمپ نے اپنے حامیوں کو امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے پس منظر میں سیاسی جوش دلا کر کیپیٹل ہل پر حملہ تک بھی کروا دیا کیونکہ انھوں نے اپنی شکست قبول نہیں کی تھی۔

امریکی صدارتی انتخابات گزشتہ سال نومبر میں منعقد ہوئے تھے۔ ٹرمپ نے اپنی ہار کو اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر میڈیا پر واویلا شروع کر دیا اور اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے انہوں پہلے الیکشن کا عمل رکوانے کی کوشش کی اور پھر دو ریاستوں میں الیکشن رکوانے کے لئے امریکی عدالت عالیہ میں باقاعدہ درخواست بھی دائر کر دی جو پہلی پیشی پر ہی رد کر دی گئی۔ کیونکہ شواہد بتاتے تھے کہ الیکشن شفاف ہوئے ہیں۔ ایسا شاید امریکی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا کہ کسی صدارتی امیدوار نے اپنی ہار تسلیم کرنے کی بجائے، فریق ثانی اور عدالتوں پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی ہو۔

ملک پاکستان میں بھی ہم نے کوئی ایسا سیاسی لیڈر نہیں دیکھا جس نے الیکشن میں خندہ پیشانی سے اپنی شکست کر لی ہو۔ جیت جاؤ تو تاریخ کے شفاف ترین الیکشن، اگر ہار جاو تو دھاندلی کا رونا ، اور جی بھر کر رو کر ہی قرار آتا ہے۔ ماہرین نفسیات ایسی علت کو دیگر وجوہات کے علاوہ Grandiose Narcissism (پر شکوہ نرگسیت) کا نام دیتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی محبت اور عظمت کے فریب میں مبتلا ہوتے ہیں اور فطرتاً بزدل ہوتے ہیں۔

الوداعی صدارتی خطاب کے دوران ٹرمپ کی بدن بولی دیکھ کر، ہمارا دھیان امریکہ کے ہی مشہور ناول نگار، کہانی کار اور ادب میں نوبل انعام یافتہ ارنسٹ ہیمنگ وے  کے ناول : اولڈ مین اینڈ دا سی کی طرف چلا گیا۔ ناول کی کہانی مختصراً یوں ہے :

کیوبا کی ساحلی پٹی پر واقع ماہی گیروں کی بستی کا رہائشی سین تیاگو نامی ضعیف العمر شخص ایک تجربہ کار اور ماہر ماہی گیر (مچھیرہ) ہے۔ وہ اپنے کام سے عشق کرنے والا مگر کم آمیز مگر دلیر شخص ہے۔ بہت سے لوگ اس سے مچھلیاں پکڑنا سیکھ چکے ہیں۔ بیوی کی وفات کے بعد وہ تنہا ہے اور پکڑی ہوئی مچھلی مقامی مارکیٹ میں بیچ کر گزارا کرتا ہے۔ چونکہ وہ ایک دوست نما استاد ہے ، اس لیے نوجوان ماہی گیر اس سے یہ فن سیکھنا پسند کرتے ہیں۔ آج کل بھی اس کی شاگردی میں مینولن نامی کم عمر لڑکا ہے۔ جو بوڑھے کو اس کی سادہ اور فرخ دلانہ طبیعت کی وجہ سے پسند کرتا ہے۔

ایک دفعہ قدرت سین تیاگو کو ایک امتحان میں سے گزارنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ مسلسل چوراسی روز تک وہ کوئی مچھلی نہیں پکڑ سکتا۔ یہ ایک غیر معمولی بات ہوتی ہے۔ بد قسمتی سین تیاگو کو اس قدر گھیر لیتی ہے کہ ہر شام اس کے پڑوسی ماہی گیر اس پر طنز کے تیر چلاتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس کے نوجوان شاگرد کا والد بھی سین تیاگو کو منحوس سمجھ کر اپنے بیٹے کو اس کے ساتھ مچھلی کے شکار پر جانے تک سے روک دیتا ہے۔

سین تیاگو، ہمت نیں ہارتا بلکہ ایک بہت بڑی مچھلی پکڑنے کا خواب تواتر سے دیکھتا رہتا ہے اور پچاسیویں ( 85 ) دن تن تنہا خلیج کیوبا کے گہرے سمندر میں اپنی کشتی ڈال دیتا ہے۔ اس بات سے بے خبر کہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی اور خطرناک جنگ شروع ہونے والی ہے ، بوڑھا ماھی گیر اپنی کشتی پر آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ بالآخرشام کے وقت چھ سو گز گہرائی میں وہ ایک بڑی مارلن (مچھلی کی ایک قسم) کنڈی میں پھنسانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

مچھلی کا جثہ اتنا بڑا ہے کہ بوڑھے کو لگتا ہے کہ اگر مچھلی زندہ رہی تو اس کو کشتی سمیت لے ڈوبے گی۔ وہ ڈور اپنی کمر کے گرد لپیٹ کر کشتی کو پوری طاقت سے پکڑے رکھتا ہے۔ کانٹے میں قید مچھلی جب بھی رقص بسمل کرتی ہے، بوڑھے کے ناتواں جسم کا امتحان لیتی ہے۔ رات بھر کی تگ و دو کے بعد مردہ مچھلی سطح آب پر نمودار ہوتی ہے۔ تر و تازہ، خوبصورت اور الہڑ مارلن، اتنی عظیم الجثہ ہے کہ اس کو کشتی سہار نہ سکے گی۔ یہ سوچ کر سین تیاگو مچھلی کو کشتی کے پیچھے ایک مضبوط رسی کی مدد سے باندھ لیتا ہے۔ اب وہ اپنا رخ ساحل کی طرف کرتا ہے جو کم ازکم ایک اور دن کی مسافت پر ہے۔

مارلن سے رستا ہوا خون شارکوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ تین شارک یک بعد دیگرے سین تیاگو پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ بوڑھا سین تیاگو ناتوانی و بے سروسامانی کے باوجود شارکوں کے تمام حملے ناکام بنا دیتا ہے اور بھوک پیاس سے نڈھال بوڑھا کشتی کے چپو کے آگے خنجر لگا کر ہر حملہ آور شارک کو مار ڈالتا ہے۔ اگلی پوری رات یہ جنگ جاری رہتی ہے۔ اگلی دوپہر کو اس کو کنارہ نظر آتا ہے۔ مگر جب مچھلی پر نظر ڈالتا ہے تو اس کو صرف مارلن کا سر اور ہڈیوں کا ایک ڈھانچا نظر آتا ہے۔ بقیہ گوشت شارک کھا چکی ہوتی ہیں۔

بظاہر یہ ایک نہایت مایوس کن صورت حال ہوتی ہے مگر کسی اور کو دوش دینے، قسمت کا رونا رونے اور قدرت کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے خود کلامی کرتے ہوئے بوڑھا صرف اتنا کہتا ہے۔ ”اے ضعیف شخص! تم سمندر میں بہت دور چلے گئے تھے۔ زندگی میں ہمیشہ کامیابی ہی نہیں ہوتی۔ جان شکن محنت کے باوجود نتائج بسا اوقات وہ نہیں ہوتے جن کی آپ توقع رکھتے ہیں۔“

ارنسٹ ملر ہیمنگ وے ( 1899۔ 1961 ) نے سات ناول اور چھ کہانیوں کے مجموعے اور دو غیر ادبی کتب تحریر کیں۔ ان کا تخلیق کردہ ادب امریکی لٹریچر میں اہم مقام رکھتا ہے۔ ہیمنگ وے کو 1954ء میں ادب کا نوبل انعام بھی ملا۔ انہوں نے جنگ عظیم اول اور دوم میں امریکی فوج کی میڈیکل کور میں بطور ایمبولینس ڈرائیور حصہ لیا۔ جنگی ماحول کے اثرات نے نے ان کی ادبی و تخلیقی صلاحیتوں کو خوب سنوارا۔ وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانس کی آزادی اور نارمنڈی لینڈنگ کے چشم دید گواہ تھے۔ ان کے تین ناول اور افسانوں کے دو مجموعے بعد از وفات شائع ہوئے۔ اولڈ مین اینڈ دا سی، بین الاقوامی کلاسیکی ادب میں شمار ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).