پنجابی اپنی زبان کے بارے میں احساس کمتری کا شکار کیوں ہیں؟


کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو صارفین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں دو خواتین اپنے ریستوران کے منیجر کو بلا کر اس سے انگریزی میں گفتگو کرتی ہیں اور اس کو اپنا تعارف کروانے کا کہتی ہیں ، منیجر کمزور سی اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اپنا تعارف کرواتا ہے ، یوں سمجھ لیں جیسے کوئی انگریز اردو بول رہا ہو۔ اس بات پر دونوں خواتین قہقہہ لگا کر ہنستی ہیں اور ویڈیو کو سماجی رابطے کی ایک ایپ پر ڈال دیا جاتا ہے۔

میں اس ویڈیو کے پس منظر میں نہیں جاؤں گا نہ ہی ان خواتین پر کسی قسم کی تنقید کروں گا۔ میں پڑھنے والوں کی نظر اس ویڈیو کی مدد سے اس نئے معاشرے کا بھیانک چہرہ بے نقاب کرنے کی کوشش کروں گا۔

ہم آج بھی غلام ہیں۔ انگریزی بول کر اپنے آپ کو تعلیم یافتہ اور باقی اردو بولنے والوں سے بالاتر سمجھنا غلامی کی سوچ ہے۔ یہ اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ ہم نے قائداعظم محمد علی جناح کی ان تھک محنت، کوششوں اور کاوشوں کی وجہ سے اور آزادی کی راہ میں شہید ہونے والی ماؤں، بیٹیوں، نوجوانوں اور بزرگوں کی قربانیوں اور شہادتوں کے عوض یہ زمین کا ٹکرا تو حاصل کر لیا مگر ہماری سوچ ابھی بھی غلام ہے۔ ہم آج بھی ذہنی طور پر اپنے گورے آقاؤں کے غلام ہیں جنہیں یہ دھرتی چھوڑے ہوئے اور ہمیں آزاد کیے ہوئے 73 سال ہو چکے۔

تاریخ میں جن اقوام پر زوال جیسی ذلت آئی ، اس کی وجہ ہرگز یہ نہ تھی کہ خداوند تعالیٰ نے ان کے ہاں کوئی رہنما پیدا نہیں کیا، نہ ہی یہ تھی کہ ان کو کوئی اچھا جنگجو نہ مل سکا بلکہ ان کے زوال کی بہت سی وجوہات میں سے ایک سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اقوام اپنی زبان ، اپنا ادب اور اپنی ثقافت بھول گئیں۔

مثال کے طور پر ہم پنجابیوں کو ہی دیکھ لیں۔ اس مثال کا مقصد لسانیت یا صوبہ واریت پھیلانا ہرگز نہیں ہے۔ آزادی سے پہلے پنجاب کا کل رقبہ 357000 مربع میل تھا۔ پھر غیر منصفانہ تقسیم کے بعد پنجاب کے دو ٹکرے کیے گئے۔ آج ہمارے پاس جو پنجاب ہے اس کا کل رقبہ 206000 مربع میل ہے اور اس کی آبادی 2017 کی مردم شماری کے مطابق گیارہ کروڑ ہے جبکہ سرحد کے اس پار جو پنجاب ہے وہ آبادی کے اور رقبے کے لحاظ سے اس پنجاب سے چار گنا چھوٹا ہے۔ باڑ کے اس پار والا پنجاب 50362 مربع میل پر مشتمل ہے اور اس کی آبادی 2012 کی مردم شماری کے تحت تقریباً تین کروڑ ہے لیکن پنجابی زبان، پنجابی ادب اور پنجابی ثقافت کو دنیا میں آج سرحد کے اس پار والا پنجابی زندہ کیے ہوئے ہے۔

سکھ برادری آج دنیا میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہے ، مغربی دنیا میں بھی اس کا بول بالا ہے ، وجہ صرف یہی ہے کہ اس قوم نے اپنے ٹی وی، فلم اور موسیقی کی ذریعے اپنے ادب، اپنی ثقافت اور اپنی زبان کو زندہ رکھا ہوا ہے اور اپنی پگ کو برقرار کیا ہوا ہے۔

دوسری طرف سرحد کے اس طرف والے پنجابی ہیں جو عوام الناس میں پنجابی زبان میں گفتگو کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں، شہر میں آ کر اپنے ساگ، مکئی اور دیسی گھی کو چھوڑ کر برگر، پیزا اور اٹالین پاستہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم نے بھی ماضی میں اپنی زبان اور ثقافت کے لیے بڑا کام کیا لیکن حال برا ہے جس کے نتائج بھیانک ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کے پنجابی کو اب جاگنا ہو گا اپنی پگ کے لیے، اپنی ثقافت کے لیے، اپنی زبان کے لیے۔

اپنی 19 سالہ زندگی میں کبھی دو سندھیوں، پشتونوں اور بلوچوں کو اپنی مادری زبان کے علاوہ غیر رسمی گفتگو کسی اور زبان میں کرتے ہوئے نہیں دیکھا ، یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے اور دل میں اطمینان بھی پیدا ہوتا ہے کہ اب بھی ہمارے ملک کے دوسرے صوبوں میں رہنے والے ہمارے بھائی اپنی زبان بولتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں لیکن بعد میں شرمندگی، دکھ اور غم بھی ہوتا ہے کہ ہم پنجاب کے لوگ اپنی ثقافت اور زبان سے دور کیوں ہوتے جا رہے ہیں۔

جیسا حال پنجابی زبان کا پنجابی نے کیا ہے ، ویسا ہی اب پاکستانی اردو کا کر رہے ہیں۔ جیسے پنجابی اپنی زبان بولتے ہوئے شرم محسوس کرتا تھا ویسے ہی اب کچھ لوگ کہیں کسی پوش جگہ جا کر اردو بولتے ہوئے جھجھکتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ خود داری، انا اور غیرت جیسی خوبیوں سے نا آشنا ایک کمزور، غلام اور بکھرے ہوئے ہجوم کی نشانی ہے۔

اپنی ثقافت ، اپنی زبان اور اپنے ادب کو زندہ رکھنے سے ہی قوم زندہ رہتی ہے ورنہ وہ قوم نہیں رہتی، وہ ایک ہجوم بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ 22 کروڑ لوگوں کا ہجوم ہے اور اس ہجوم کو قوم بننے میں بہت وقت درکار ہے۔

انگریزی بولنا، پڑھنا اور لکھنا میرے نزدیک کوئی بری بات نہیں بلکہ یہ عمل قابل ستائش ہے ، ہمیں ضرور انگریزی بولنی چاہیے اور پڑھنی چاہیے لیکن انگریزی بول کر کسی دوسرے شخص کو جس کو انگریزی نہ آتی ہو نیچا دکھانا یا کسی کی انگریزی کمزور ہونے پر اس کا مذاق اڑانا، قابل مذمت اور قابل تنقید عمل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).