زائر حرمین (7)



مکہ مکرمہ میں سب سے کثیر تعداد ازبکستان سے تعلق رکھنے والے افراد کی دیکھی۔ سفید کرتا پاجامہ اور ایک ہی رنگ کی پتلی سی جیکیٹس ، جن کے پیچھے اور کندھے پر لٹکا ایک بیگ جس کے اوپر لکھا ”ازبکستان“ دور سے ہی نظر آ جاتا تھا۔ جس چیز نے انہیں دیگر ممالک کے زائرین سے ممتاز کیا ہوا تھا وہ ان کا یہ لباس تھا۔

دوسرے وہ لوگ ہمیشہ گروپ کی شکل میں چلتے۔ پھر چاہے وہ حرم ہو یا شاپنگ ٹرپ۔ ایک بات جو مجھے ان سے متعلق بھلی معلوم ہوئی ، وہ یہ کہ ان میں سے کوئی بھی شخص لیڈر بن کر اپنے باقی ساتھیوں کی گنتی کر لیتا اور کسی شخص کی عدم موجودگی میں اس کی بابت دریافت بھی کر لیتا اور اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا کہ اس کے تمام رفقاء اس کے ساتھ موجود ہیں، کوئی کہیں پیچھے رہ تو نہیں گیا۔ انگریزی سے وہ بھی زیادہ واقف نہ تھے لیکن کسی غیر ازبک کے کسی سوال پر اسے اپنے تئیں مطمئن کرنے کی کوشش ضرور کرتے اور کسی کو مدد کی ضرورت ہوتی تو بھی خندہ پیشانی سے از خود ہاتھ بٹانے لگتے۔

دیار غیر میں ہم اپنے ملک کے غیر سرکاری سفیر ہوتے ہیں۔ جو برتاؤ ہم لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں، لوگ اسی برتاؤ کو ہمارے ملک کا عمومی برتاؤ سمجھ لیتے ہیں۔ وہاں موجود لوگوں میں جن سے گفتگو ہوئی ، ان میں مصری، عراقی، فلسطینی، کُردی، افغانی، افریقی، انڈونیشین اور الجزائر کے باشندے تھے۔ پاکستانی تو خیر تھے ہی سہی۔ جس جس سے گھلنے ملنے کا موقع ملا، ایک اپنائیت کا احساس ہوا۔ کیسا رشتہ تھا ان سب لوگوں سے۔ کوئی رشتہ تھا بھی نہیں اور سب ایک ان دیکھے تعلق میں بندھے بھی تھے۔ جس جس چہرے کی طرف نگاہ کی، مسکراہٹوں سے خیر مقدم ہوا۔ شاید اس خوشگوار تجربے کی وجہ یہ ہو کہ سب ایک ہی مقصد سے وہاں موجود تھے اور وہ وجہ تھی رب کی خوشنودی۔

ایک دن عصر کی نماز کے وقت مسجد الحرام کے اندر پہنچنے میں تھوڑی سی تاخیر ہو گئی۔ باب بہتر، تہتر سے۔ وہاں ہمہ وقت ڈھیروں ڈھیر لوگ موجود ہوتے ہیں ، یہ تو پھر نماز عصر کا وقت تھا۔ ہم میں سے ایک کو تو باآسانی جگہ مل گئی البتہ دوسرے کو یعنی مجھے نہ ملی۔ اب میں جگہ کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھ رہی ہوں کہ اچانک ایک دو صف پیچھے سے اشارہ کر کے بلایا گیا کہ یہاں آ جاؤ۔ وہاں ایک بندے کی جگہ تو نہ تھی، آدھے بندے کی ضرور تھی۔

وہاں ایک خاتون انڈونیشیا کی اور دوسری الجزائر کی تھیں۔ دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ نماز کے لیے کھڑے ہوں گے تو آدھے بندے کی جگہ پورے بندے کی جگہ میں تبدیل ہو جائے گی سو مجھے جگہ تلاشنے کی مزید کوئی ضرورت نہیں۔ وہ نماز ان دونوں خواتین کے ایثار کے سبب یادگار ہو گئی۔ جماعت شروع ہونے سے قبل ہم انڈونیشین اور پاکستانی موسم پر اور ان دونوں ممالک میں تعلیمی زبان پر گفتگو کر چکے تھے۔

مکہ اور مدینہ میں سب سے زیادہ جس شخصیت کی یاد آئی وہ تھے ممتاز مفتی۔ بہت سے مواقعوں اور مقامات پر آنے والی ان کی یاد چہرے پر مسکراہٹ لانے کا سبب بن گئی اور اس یاد کا سلسلہ ان کی کتاب ”لبیک“ سے جا ملتا ہے۔ بہت سال پہلے لبیک پڑھی تھی لیکن اس وقت وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ زندگی میں جب کبھی ان مقامات پر جانے کا موقع ملے گا تو ممتاز مفتی بھی اپنے لفظوں کی بدولت ہمارے ساتھ محو سفر ہوں گے۔ دو ایک بار میں نے خانہ کعبہ کی طرف نگاہ کی کہ کیا معلوم مجھے بھی ممتاز مفتی کی مانند وہاں اللہ تعالیٰ نظر آ جائیں لیکن۔۔۔

امی اور بچوں کی ناسازی طبع نے ہمیں سر زمین حجاز کے اسپتالوں کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع دیا۔ ہمارے ہوٹل سے مستشفیٰ عبد العزیز یعنی عبدالعزیز میڈیکل سٹی تک کا کرایہ دس ریال اور واپسی کا بھی یہی ریٹ۔ معقول حد تک وسیع رقبے پر پھیلی اس عمارت میں بہت رش نہ تھا۔ تھوڑی دیر کے انتظار پر ہی ہماری باری آ گئی۔ لیڈی ڈاکٹر نے عربی لہجے کی انگریزی میں چند سوال جواب کر کے نسخہ تھما دیا کہ اسپتال کی فارمیسی سے دوائیں حاصل فرما لیجیے۔

فارمیسی میں نسخہ پیش کر کے دوائیں وصول کیں اور واپسی کی راہ پکڑی۔ اس سب سے جو نتیجہ اخذ کیا وہ یہ تھا کہ حجاز میں بیمار پڑنا چنداں مہنگا نہیں۔ بخار اور کھانسی کی جو ادویات باہر فارمیسی سے خریدنے میں پچاس سو ریال خرچہ آتا ہے وہ مستشفیٰ میں پاسپورٹ یا ویزہ کی کاپی دکھا کر ڈاکٹر کا نسخہ حاصل کر کے مفت لی جا سکتی ہیں۔ یعنی آم کے آم، گٹھلیوں کے دام۔

جاری ہے۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).