سعدی یوسف کا جنت سے جو بائیڈن کے نام خط


جو بائیڈن آپ کو چٹھی لکھنے کی وجہ بڑی خاص ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ گزشتہ کچھ دنوں سے ہم عراقی، فلسطینی، شامی اور مصری شاعر عالم بالا میں اپنی ال شابندر کافی شاپ میں باقاعدگی سے اکٹھے ہو رہے ہیں اور سچی بات ہے کہ ان دنوں آپ ہمارے درمیان کچھ زیادہ ہی زیربحث رہے ہیں۔ محمود درویش اور نازک الملائیکہ آپ کی بہت وکالت کر رہی ہیں۔ میں نے انہیں تنبیہہ کی ہے کہ وہ زیادہ جذباتی نہ بنیں۔

جو بائیڈن آپ مجھے نہیں جانتے ہیں۔ اصل میں اس میں کچھ آپ کا بھی قصور نہیں۔ اکثر امریکی صدور کا جنرل نالج کمزور ہی ہوتا ہے۔

آپ نے اپنے دفتر میں مارٹن لوتھرکنگ، رابرٹ کینیڈی، روزالوئیس پارکس اور کچھ اسی طرح کی دیگر امن پسند شخصیات کے مجسمے سجا دیے ہیں تاکہ آپ کو ہدایت ملتی رہے۔ مجھے یہ خبر پرسوں رات مظفر النواب نے ایک بڑے پاکستانی دانشور اور منفرد کالم نگار وجاہت مسعود کے کالم کے حوالے سے سنائی تھی۔

میں نے کہا مظفر النواب بس دعا کرو۔ اس کا ماضی بھی خون اور جنگ کے دھبوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہم بے چارے عراقیوں پر حملہ کرنے کی اس نے بڑی بھرپور حمایت کی تھی۔ گو حکومت میں بھی نہیں تھا مگر وزارت خارجہ کی کلیدی پوسٹ پر بیٹھا سپورٹ کیے جاتا تھا۔ پل بھر کے لیے بھی نہیں سوچتا تھا کہ ہم لاکھوں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرنے جا رہے ہیں۔ میں اور تم تو اس وقت صدام کے ڈر سے خود ساختہ جلاوطن ہوئے پڑے تھے۔

اس وقت تو یہ امریکی ہمارے نجات دہندہ بن کر ہمیں صدام جیسے آمر سے بچانے آئے تھے اور جب ہم پر قابض ہو گئے تو پہلا ٹھپا انہی لوگوں نے ہمارے ناموں پر لگایا تھا کہ عراق میں ان کے داخلے پر پابندی ہے۔ مظفر میں اور تم تو دونوں سرفہرست تھے۔ کوئی ہمارے جذبات جان سکتا ہے کہ ہم جن کی آنکھیں اپنے گھروں اور اپنے پیاروں کو دیکھنے کو ترس گئی تھیں۔ صدام ہمیں بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ آپ آئیں آپ لوگوں کو مجھ سے کوئی خطرہ نہیں۔ آپ لوگ عراق کا فخر ہیں۔ مگر ہمیں ڈر تھا کہ وہ ہمیں مروا دے گا۔ صدی کا چوتھائی حصہ یعنی پورے پچیس سال جب ہم نہ عراق جا سکے۔ بغداد دیکھ سکے اور نہ بصرہ۔ بصرہ جو میری جائے پیدائش تھی اور اسی طرح روتے کرلاتے اجنبی سرزمین سے اس عالم بالا میں آ گئے۔

چلو اگر تمہیں کچھ عقل آ گئی ہے تو اچھی بات ہے۔ صبح کا بھولا شام کو اگر گھر آ جائے تو اسے معاف کر دیتے ہیں۔ تم لوگ دنیا کے ساتھ جو کھلواڑ کرتے رہے ہیں۔ اس کا کچھ مزہ تو تمہارے سفید ہاتھی نے تمہیں چکھا ہی دیا ہے۔ نزار قبانی کا کہنا ہے کہ اب اللہ کرے کہ یہ انسان بن جائیں۔

ہاں میں اپنی نظم بھیج رہا ہوں۔ اسے اسی کمرے میں سامنے والی دیوار پر لگانا اور آتے جاتے اسے پڑھنا۔ جب پڑھو تو رک جانا۔ سوچنا اس وقت کو جب یہ میرے اندر کی بوٹیاں کاٹتی میری خون برساتی آنکھوں سے میرے گالوں پر بہتی تھی۔ صرف میرے گالوں پر نہیں ہر عراقی بچے، بوڑھے، جوان عورت، مرد سب کے گالوں پر۔

خدا امریکہ کو محفوظ رکھے
میرا گھر، میری جنت
جینز، جاز، خزانوں کے جزیرے
جان سلور کے طوطے اورنیو اور لینز New or Leans کی بالکونیاں
ان سے بے پایاں محبت مجھے بھی ہے
مارک ٹوئن، مسسپی کی دخانی کشتیوں
ابراہم لنکن کے کتوں اور ورجینا تمباکو
ان سے بڑا ہی پیار ہے مجھے
لیکن میں امریکی نہیں
پینٹم پائلٹ کے لیے اتنا ہی کافی ہے
کہ دھکیل دے پتھر کے زمانوں میں مجھے
تیل کی ضرورت نہیں، نہ ہی امریکہ کی
نہ ہاتھیوں اور نہ ہی گھوڑے گدھوں کی
پائلٹ! میرے گھاس پھونس کی چھت والے گھر
چوبی پل اور مجھ سمیت سب کو چھوڑ دو
تمہارے گولڈن گیٹ اور تمہاری فلک بوس عمارتیں
ان کی ضرورت کب ہے مجھے
اپنا گاؤں چاہیے، تمہارا نیویارک نہیں
تم مسلح سپاہی اپنے نویدا صحرا سے کیوں آئے
تم لوگ اتنی دور سے بصرہ کیا کرنے آئے
ہمارے گھر دروازوں پر مچھلیاں تیرتی ہیں
یہاں سور چارے کی تلاش میں نہیں پھرتے ہیں
میری بید کی چھڑی، جھونپڑی اور ڈوری کانٹا
چھوڑو سب اور چھوڑو مجھے بھی
اپنے سمگل شدہ سگریٹ لے لو
ہمارے آلو ہمیں واپس کردو
اپنی مشنری کی کتابیں لے لو
اور اپنے کاغذ ہمیں دے دو
کہ ہم تمہیں بدنام کرنے کے لیے نظمیں لکھیں
اپنے جھنڈے کی پٹیاں لے لو
اور ہمیں ستارے دے دو
افغان مجاہدین کی داڑھیاں لے لو
اور ہمیں والٹ وٹ مین کی
تتلیوں سے بھری داڑھی دے دو
صدام حسین کو لے لو
اور ہمیں ابراہم لنکن دے دو
اسے نہیں دینا چاہتے
تو پھر کچھ بھی نہ دو
امریکہ ہم یرغمالی تو نہیں
اور
تمہارے سپاہی کوئی خدائی خدمتگار نہیں
ہم غریب ہیں مگر ہماری
دھرتی غرقاب دیوتاؤں کی ہے
نڈر سانڈ دیوتاؤں کی
آگ دیوتاؤں کی
غم کے دیوتاؤں کی
جو خون اور مٹی کے ملاپ سے
نغمے تخلیق کرتے ہیں
ہم غریب ہیں
ہمارا خدا بھی غریبوں کا خدا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).