معاشرے میں ہراسانی کے واقعات اور ان کا سدباب


معاشرے میں ہراسانی کے واقعات اتنے بڑھتے جا رہے ہیں کہ خواتین معاشرے میں اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرنے لگی ہیں۔ ایسے واقعات میں جو لوگ ملوث پائے جاتے ہیں۔ اگر ان کے خاندانوں، ناموں اور اجداد کا تعلق دیکھا جائے تو کپکی تاری ہو جاتی ہے۔ کہ یہ کیسا تعلق ہے، کیسی تربیت ہے۔ میں یہاں پر صرف ریاست پاکستان کی بات نہیں کروں گا بلکہ پوری دنیا میں یہ واقعات ہوتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات منظر عام پر یا تو آتے نہیں یا پھر ان سوالات کے ساتھ وہیں دب جاتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟ گھر والے کیا سوچیں گے؟ کیا میں پھر گھر سے باہر نکل پاؤں گی؟ کیا معاشرہ میرے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف میرا ساتھ دے گا؟ یا اسے میرے ہی دامن پر لگا داغ سمجھ کر ساری عمر کا روگ بنا دے گا؟ یہ جس بہن، بیٹی کے ساتھ بیت رہی ہوتی ہے اسی کو پتہ ہوتا ہے۔

عورت کے ساتھ جب بھی ظلم و بربریت ہوتی ہے۔ اس کی آواز کیوں دب جاتی ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت ”صنف نازک“ ہے۔ وہ مرد کی بہ نسبت کمزور و کم ہمت ہے۔ جلد پریشان ہونے والی اور جلد گھبرا جانے والی ہے، گھریلو اور چھوٹے کاموں میں اس کا ذہن خوب چلتا ہے، بچوں کی نفسیات سمجھنے اور ان کی پرورش و تربیت میں اس کا کوئی ثانی ہے نہ بدل۔

ہمارے معاشرے کے وہ نوجوان سوچیں ، جو راستوں میں بلا وجہ ٹولے بنا کر کھڑے ہوتے ہیں اور گزرنے والی خواتین پر جملے کستے ہیں کہ روز قیامت آپ کے والدین، بہن بھائیوں، عزیزوں، اور پوری کائنات کے سامنے آپ کا اعمال نامہ آپ کو پیش کیا جائے گا۔ وہ اعمال نامہ آپ کے ہاتھوں میں ہو گا۔ اس دن پھر صرف اور صرف پچھتاوا ہی ہو گا۔ اگر آپ کبھی سفر بھی کر رہے ہیں تو وہاں موجود خواتین کی دل سے عزت کریں جو ہمارے مذہب اسلام نے آداب ہمیں بتائیں ہیں۔ ان تعلیمات کو بروئے کار لائیں۔

جو لوگ آداب کو بروئے کار نہیں لاتے ہیں اور ایسے مواقع پر حیوانیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ در اصل یہ انسان ان کا اصل اندر کا انسان ہے جو حیوان کی شکل میں باہر نکلا ہے، اپنے دوستوں، عزیزوں کے سامنے اس نے جو روپ دھار رکھا تھا وہ اس نے اپنی شخصیت پر لیبل لگایا ہوا تھا۔

اب جب معاشرے میں کوئی ایسا واقعہ پیش آ جاتا ہے تو ہم غم وغصہ کا اظہار کرتے ہیں لیکن ہماری یادداشت بہت ہی کمزور ہے۔جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا ہر جگہ پر شور و غل ہوتا ہے۔ چند دن سب اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں۔ اخباروں میں آرٹیکل/مضامین شائع ہوتے ہیں، میڈیا پر تجزیے ہوتے ہیں اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں لیکن اس واقعے پر کوئی ٹھوس اقدام نہ تو حکومت اٹھاتی ہے اور نہ ہی ہمارا معاشرہ۔ حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک باقاعدہ نظام قائم کرے۔

ہمیں بھی چاہیے کہ معاشرے میں اپنا مستقل کردار ادا کرتے رہیں۔ والدین گھروں میں اپنے بچوں کی رہنمائی کریں۔ اساتذہ کرام سکولوں، کالجز، یونیورسٹیز میں طلبا کی رہنمائی کریں۔ اساتذہ کرام بچوں کی رہنمائی میں جو کردار ادا کر سکتے ہیں وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔

بڑا ظلم کرتے ہیں وہ اساتذہ، جو اپنے طالب علموں کو ہراساں کرتے ہیں۔ایک استاد کا مقام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچوں کے لیے مثال بنا کر پیش کرے، کیوں کہ طالب علموں کو استاد پر یقین اور اعتماد ہوتا ہے۔ استاد وہ ہستی ہے جو اپنے طالب علموں کی رہبری و رہنمائی کر کے آسمان کی بلندیوں تک اسے لے کر جا سکتی ہے۔

اس طرح کے واقعات کے سدباب کے لیے ابتدا اپنے محلے، گاؤں اور شہر سے کی جائے۔ خود کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھیں۔ اپنے ساتھ جڑے انسانوں کو مثبت کریں۔ اگر آپ مثبت سوچیں گے تو آپ نے اپنی جس سوچ کو پانی دیا ہے، وہ سوچ پودا بن جائے گی اور پھر درخت بن کر اس پھل لگے گا۔

زندگی میں کبھی بھی کوئی منفی خیالات آ رہے ہوں تو وہیں رک جائیں۔ اپنے ذہن سے فوراً ان خیالات کو نکالیں اور ہر قدم آگے بڑھانے سے پہلے سوچیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ قدم میرے لیے دنیا و آخرت میں تباہی کا سبب بن جائے۔ اسلام نے عورتوں کو قدر، عزت و احترام دیا ہے۔ پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رہنمائی سے قبل عورتوں پر بدترین مظالم ڈھائے جاتے تھے ، لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اسے زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تشریف آوری اور نبوت کے بعد عورتوں کو سب سے پہلے حقوق دیے گئے ، اب وقت آ گیا ہے اپنے مذہب اسلام کی ہدایات و قانون کے مطابق حالات کو سمجھنے اور عورت کو مظالم سے بچانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).