ندیم افضل چن کا سیاسی مستقبل


پچھلے دنوں سابق امریکی صدر ٹرمپ کے حامیوں نے جدید دنیا میں جمہوریت کے ”ماما“ ہونے کے دعویدار امریکہ کی جمہوریت کو تماشا بنا کر رکھ دیا۔ ایک عرصہ سے اس نے اپنی اسی جمہوریت پرستی کے زعم میں پوری دنیا کے کمزور ملکوں کا ناک میں دم کیے رکھا ہے۔ 2020 کے امریکی صدارتی الیکشن میں ٹرمپ، بائیڈن سے ہار گیا تھا۔ انتخابی قواعد کے مطابق اسے باوقار انداز میں انتقال اقتدار کے بعد وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونا تھا۔ لیکن ٹرمپ نے اپنے مزاج کے عین مطابق ایسا نہ کر کے اپنے آخری صدارتی ایام میں وائٹ ہاؤس میں جمہوری تماشا رچا لیا۔

اپنی صدارتی انتخابی مہم میں ٹرمپ کا یہ بیان حیرت انگیز تھا کہ وہ الیکشن ہارنے کی صورت میں اپنی شکست تسلیم نہیں کریں گے۔ اس طرح وہ مسلمہ جمہوری روایات کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے تھے۔ پھر ہوا بھی وہی۔ الیکشن میں ناکامی کے بعد اس نے دعویٰ کیا کہ وہ ہارا نہیں بلکہ ہروایا گیا ہے۔ شکست خوردہ امیدواروں کی طرف سے ایسے غیر جمہوری رویے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں عام ہیں۔ لیکن مستحکم جمہوری روایات والے ملک امریکہ میں ایسا ہونا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

پھر یہ غیر جمہوری طوفان بدتمیزی اپنے عروج کو پہنچ گیا، جب ٹرمپ کے متشدد حامیوں نے کیپٹل ہل پر حملہ کر دیا۔ اس ہنگامہ میں ایک عورت سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔ بہت سے زخمی بھی ہوئے۔ پندرہ روز کے لئے کرفیو لگانا پڑا تاکہ صدر امریکہ کی تقریب حلف وفاداری میں کوئی بدنظمی نہ ہو۔ اس ہنگامے کا ڈراپ سین یوں ہوا کہ کانگریس نے ٹرمپ کے غیر جمہوری رویے کے باعث اس کے خلاف مواخذے کی قرار داد منظور کرلی۔ جمہوریت پر ایمان رکھنے والوں کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ اس مواخذے کی قرار داد کے حق میں ٹرمپ کی اپنی جماعت ری پبلکن پارٹی سے بہت سے اراکین نے علانیہ ووٹ ڈالے۔ جماعتی وفاداری سے بالاتر ہو کر حق و صداقت کا ساتھ دینے والے ایسے روشن ضمیر لوگ ہی جمہوریت کا حسن ہیں اور جمہوریت کی بقاء اور استحکام کا باعث بھی۔ آج تک انسانی ذہن جمہوریت سے بہتر کوئی نظام حکومت تخلیق نہیں کر پایا۔

آج اسی جمہوریت کو درپیش سب سے بڑا عارضہ پاپولر ازم ہے۔ امریکہ میں اس کا اظہار پہلی مرتبہ ہوا۔ ہمارے ہاں اس بیماری کو جمہوریت کے حسن کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اس طرح ادھر سیاسی جماعتیں ون مین شو ہو کر رہ گئی ہیں۔ مقبول جماعتی سربراہ جمہوریت اور جماعتی منشور سے زیادہ اہم ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ مرض اتنی شدت اختیار کر لیتا ہے کہ جذباتی کارکن اپنے سیاسی قائد کے بغیر ملک کو ماننے سے منکر دکھائی دیتے ہیں۔

کراچی سے ایم کیو ایم نے اسی انداز فکر کا آغاز کیا تھا۔ اسلام میں مرتد کی سزا موت کے تصور کو بھی ایم کیو ایم نے اپنا لیا۔ ”الطاف کا جو غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے“ ۔ پھر ایسی مقبولیت کے طوفان میں اپنے سیاسی قائد کے کسی غیر جمہوری اور غیر مناسب اقدام سے اختلاف کچھ آسان نہیں رہتا۔ مغرب کی بات اور ہے۔ وہاں سیاسی جماعتوں میں بڑا دم خم ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں خالصتاً ایک فرد کے ارد گرد ہی گھومتی رہتی ہیں۔ جماعتی الیکشن کا کسی اہم سیاسی جماعت میں چلن نہیں۔ ان حالات میں انتخابی ٹکٹ اور جماعتی عہدوں کے لئے واحد خوبی محض قیادت کی پسند اور نا پسند رہ جاتی ہے۔ جسٹس غوث علی شاہ اک زمانہ میں سندھ ن مسلم لیگ کے صدر بھی رہے۔

یہ میاں نواز شریف سے خاصے قریب تھے اور اسی باعث مسلم لیگ نون میں خاصے اہم بھی۔ میاں نواز شریف کی جدہ جلا وطنی سے واپسی پر موصوف محض ایک روز بے تکلفی میں یہ گلہ کر بیٹھے ”حضور! اگر جہاز میں بیٹھنے کو کوئی سیٹ نہیں تھی تو کیا اس میں کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہ رہی؟ ہمیں بھی جدہ ہمراہ لے چلتے۔ آپ اکیلے اکیلے ہی چل دیے“ ۔ پھر کیا ہوا؟ نازک مزاج شاہاں تاب سخن ندارد۔ غوث علی شاہ نے اس بے تکلفی کی سزا پائی اور پھر سیاست میں کہیں نظر نہ آئے۔

جاوید ہاشمی اور چوہدری نثار علی خاں کے ساتھ بھی یہی المیہ ہوا۔ حافظ حسین احمد کی صلاحیتیں ہی ان کی سیاسی زندگی کی قاتل ثابت ہوئیں۔ اسی پسند نا پسند کے باعث مسلم لیگ نون کے ترجمان بزرگ مسلم لیگی راجہ ظفر الحق کی بجائے ان دنوں سابق صدر پاکستان جناب رفیق تارڑ کے نو عمر پوتے عطاء اللہ تارڑ ہیں۔ ندیم افضل چن منڈی بہاؤ الدین کے ایک سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ انہیں ”سیاسی نجیب الطرفین“ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ ”نانکے دادکے“ دونوں اطراف سے اہم سیاسی خاندانی ہیں۔

ان کے دادا نے 1936 ء میں الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ سارا خاندان بھٹو کا جیالا ہے۔ خود زمانہ طالب علمی سے پیپلز پارٹی میں ہیں۔ پھر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب بھی ہوئے۔ حیثیت دار اتنے کہ ان کی تحریک انصاف میں شمولیت پر یوسف رضا گیلانی نے یوں تبصرہ کیا ”عمران خان نئے پاکستان کی تعمیر ہمارے ہی مستریوں سے کروا رہے ہیں“ ۔ ندیم افضل چن تحریک انصاف میں شمولیت پر اپنی خاندانی وضع داری بھولے نہیں۔ شمولیت کی گھڑی اس سکہ بند جیالے نے پیپلز پارٹی چھوڑی، بھٹو کو نہیں چھوڑا۔ انہوں نے بھٹو کا مرثیہ پڑھا۔ پیپلز پارٹی کا نوحہ سنایا اور روٹی کپڑے مکان کا ذکر بھی کیا۔ یہ جیالے ووٹ بینک کے تقاضوں کے باعث تحریک انصاف میں پہنچ ضرور گئے لیکن کامیاب ہو کر اسمبلی نہ پہنچ سکے۔

عمران خان نے انہیں مشیر بنالیا۔ کیبنٹ کے ہجوم عاشقاں میں یہ اتھرے اور بپھرے جاٹ من مرضی برتتے رہے۔ عمران خان نامعلوم وجوہات کے باعث دہشت اور بربریت کا شکار ہزارہ کان کنوں کی نعشوں کی تدفین سے پہلے تعزیت کے لئے کوئٹہ جانے سے انکاری تھے۔ اپنے جماعتی قائد کا یہ رویہ چن جی کو پسند نہ تھا۔ انہوں نے ٹویٹ کی : ”اے بے یار و مددگار معصوم مزدوروں کی نعشو! میں شرمندہ ہوں“ ۔ یہ ٹویٹ عمران خان کے رویے سے ان کی لا تعلقی کا اظہار تھا۔

اس ٹویٹ کی اہمیت جمہوریت کے لئے ریپبلکن پارٹی کے ٹرمپ کے مواخذہ کے حق میں ووٹ ڈالنے والے اراکین سے کم نہیں۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے حالات امریکہ سے کہیں مختلف ہیں۔ اب چن جی کے سیاسی مستقبل کا ہو گا کیا؟ سہاگن وہی ہے جسے پیا چاہے۔ ہماری جمہوریت میں پیا، سیاسی جماعتی سربراہ ہوتا ہے اور وہ ہر طرح اپنی مرضی کا مالک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).