پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ: پاکستانی کرکٹرز کی جنوبی افریقہ کی ٹیم سے منسلک دلچسپ یادیں اور یادگار واقعات


اظہر محمود
کیا یہ سوچا بھی جا سکتا ہے کہ وہ کھلاڑی جسے ٹیسٹ میچ کھیلنا ہو وہ ٹاس کے وقت گراؤنڈ میں ہی موجود نہ ہو بلکہ میچ شروع ہونے کے بعد بھی اُس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو پائے کہ وہ کہاں ہے اور کب آئے گا؟

ہے نا یہ حیران کن بات!

لیکن ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ایسا ہو چکا ہے اور وہ بھی ایک پاکستانی فاسٹ بولر کے ساتھ۔

یہ سنہ 1995 کی بات ہے۔ پاکستانی ٹیم جنوبی افریقہ کے دورے پر تھی جہاں اسے میزبان ٹیم کے خلاف پہلی مرتبہ ٹیسٹ میچ کھیلنا تھا۔ جوہانسبرگ میں کھیلے جانے والے اس واحد ٹیسٹ سے قبل وقار یونس ان فٹ ہو گئے اور ٹیم منیجمنٹ نے پاکستان سے میڈیم فاسٹ بولر عامر نذیر کو جنوبی افریقہ بھیجنے کی درخواست کر دی۔

عامر نذیر لاہور سے کراچی پہنچے جہاں سے انھیں دبئی اور ہانگ کانگ کے راستے جوہانسبرگ پہنچنا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عامر نذیر کے وانڈررز سٹیڈیم پہنچنے سے قبل ہی کپتان سلیم ملک گیارہ رکنی حتمی ٹیم میں عامر نذیرکا نام شامل کر چکے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

’وہ 16 اوورز جو پاکستانی اننگز کو کھا گئے‘

مِکی آرتھر حیران، پریشان تو نہیں رہ جائیں گے؟

جوہانسبرگ ٹیسٹ: ’وہی بند گلی، وہی ڈراؤنے سپنے‘

عامر نذیر نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے اس واقعے سے متعلق اپنی پرانی یادوں کو تازہ کیا ہے۔

’میں پندرہ، سولہ گھنٹے مسلسل سفر کر کے بُری طرح تھک چکا تھا لیکن مجھے سب سے زیادہ پریشانی اس وقت ہوئی جب جوہانسبرگ ایئرپورٹ پر مجھے بتایا گیا کہ میرا سامان ہانگ کانگ میں رہ گیا ہے۔‘

عامر نذیر بتاتے ہیں ʹجب میں گراؤنڈ پہنچا تو ٹیسٹ میچ شروع ہوئے 35 منٹ ہو چکے تھے۔ میں نے وسیم اکرم کی کٹ پہنی جبکہ جوتے منظور الٰہی کے استعمال کیے، جب میں نے بولنگ کی تو مسلسل سفر کی وجہ سے کریمپ پڑ گئے اور مجھے میدان سے باہر جانا پڑا تھا۔‘

یاد رہے کہ عامر نذیر پہلے دن صرف دس اوورز کر پائے تھے۔ جنوبی افریقہ کی پہلی اننگز میں انھوں نے دو اور دوسری اننگز میں ایک وکٹ حاصل کی تھی۔

عامر نذیر کے پنتیس منٹ تاخیر سے گراؤنڈ پہنچنے تک اکرم رضا نے متبادل کھلاڑی کے طور پر فیلڈنگ کی تھی۔

پاکستان اور جنوبی افریقہ کی کرکٹ کا یہ ایک یادگار اور دلچسپ واقعہ ہے۔ آئیے ایسے ہی چند دیگر واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔

پاکستان کا سب سے کم سکور 49

یکم فروری 2013 کو جوہانسبرگ کے وانڈررز سٹیڈیم میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ کے پہلے دن جنوبی افریقہ کو 253 رنز پر آؤٹ کرنے کے بعد پاکستان نے کھیل کا اختتام چھ رنز بغیر کسی نقصان کے کیا تو کپتان مصباح الحق اور ان کے ساتھی کھلاڑیوں کے ذہنوں میں یہ بات نہ تھی کہ دوسرے دن انھیں ایک ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ جائے گا جسے کوئی بھی ٹیم دیکھنا پسند نہ کرے۔

اگلے دن کے دوسرے اوور ہی سے ڈیل سٹین کی قسمت جاگنے اور پاکستانی ٹیم کی قسمت سونے لگی۔

محمد حفیظ سے اس کی ابتدا ہوئی اور پھر سٹین نے اپنے اگلے ہی اوور میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے ناصر جمشید کو بھی واپسی کی راہ دکھائی۔ اسی اوور میں یونس خان کی اہم وکٹ بھی ان کے حصے میں آئی۔

کپتان مصباح الحق اور اظہرعلی 13 اوورز مزید کسی نقصان کے گزار گئے تو ایسا لگا کہ پاکستانی ٹیم ابتدائی جھٹکے سے سنبھل گئی ہے لیکن ژاک کیلس نے ان دونوں بیٹسمینوں کو آؤٹ کیا تو پاکستانی ٹیم کے پیروں تلے سے زمین سرکتی محسوس ہوئی۔

ستم بالائے ستم فلینڈر نے ایک ہی اوور میں اسد شفیق اور عمر گل کو بھی چلتا کر دیا۔

ڈیل سٹین کے لیے اگلی تین وکٹوں کے لیے تین اوورز کافی ثابت ہوئے اور یوں پاکستانی ٹیم اپنی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے سب سے کم سکور 49 پر ڈھیر ہو گئی۔

پاکستانی ٹیم کو اس حال تک پہنچانے والے ڈیل سٹین کے متاثر کن اعداد و شمار کچھ اس طرح تھے۔ 8.1 اوورز میں چھ اوورز میڈن اور چھ وکٹوں کے عوض صرف آٹھ رنز۔

ڈیل سٹین نے دوسری اننگز میں بھی پانچ وکٹیں حاصل کر کے جنوبی افریقہ کی 211 رنز کی جیت پر مہرتصدیق ثبت کر دی تھی۔

پاکستانی ٹیم نے 49 رنز پر آؤٹ ہو کر دس سال پرانا ریکارڈ توڑا جب اکتوبر 2002 میں وہ آسٹریلیا کے خلاف شارجہ ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں 59 اور 53 رنز کی ہزیمت سے دوچار ہوئی تھی۔

اظہر محمود کی سنچری، وزڈن کی آٹھویں بہترین اننگز

آل راؤنڈر اظہر محمود کا ٹیسٹ کرکٹ میں آنے کا معاملہ خاصا دلچسپ ہے۔

وہ اپنے والد کے سٹیل کے کام میں ہاتھ بٹانے جاتے تو ویلڈنگ کی شعاعوں سے ان کی آنکھیں خراب ہو جاتی تھیں۔ ان کے والد پہلے پہل بیٹے کے کرکٹ کھیلنے کے خلاف تھے لیکن جب انھیں پتہ چلا کہ ان کا بیٹا کرکٹ کے معاملے میں سنجیدہ ہے تو انھوں نے تاکید کر دی کہ وہ اب ویلڈنگ کے کام سے خود کو دور رکھیں۔

جنوبی افریقہ کی ٹیم سنہ 1997 میں پاکستان آئی تو راولپنڈی ٹیسٹ میں تین نئے کھلاڑیوں محمد رمضان، علی نقوی اور اظہرمحمود کو ٹیسٹ کیپ دی گئی۔

اظہرمحمود اور علی نقوی نے اپنے اولین ٹیسٹ میں سنچریاں بنا ڈالیں۔

اظہر محمود کی سنچری اس لیے قابل ذکر تھی کہ انھوں نے نہ صرف آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے ناقابل شکست 128 رنز سکور کیے بلکہ جب پاکستان کی نو وکٹیں 305 رنز پر گر چکی تھیں تو انھوں نے مشتاق احمد کے ساتھ آخری وکٹ کی شراکت میں 151 رنز کا اضافہ کر کے ٹیسٹ کرکٹ میں آخری وکٹ کی سب سے بڑی پارٹنرشپ کا ریکارڈ برابر کر ڈالا۔

اظہر محمود نے دوسری اننگز میں بھی آؤٹ ہوئے بغیر نصف سنچری بنائی تھی۔ اظہر محمود نے سنہ 1998 میں جنوبی افریقہ کے دورے میں جوہانسبرگ اور ڈربن کے ٹیسٹ میچوں میں بھی سنچریاں بنائیں۔

ڈربن کی اننگز کئی اعتبار سے یادگار سمجھی جاتی ہے۔

وہ ساتویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے آئے تو پاکستان کی پانچ وکٹیں صرف 89 رنز پر گر چکی تھیں لیکن انھوں نے ایلن ڈونلڈ، شان پولاک، لانس کلوسنر اور فینی ڈی ویلیئرز کی طوفانی بولنگ کے خلاف جو جارحانہ انداز اختیار کیا وہ سب کے لیے حیران کن تھا۔

انھوں نے 132 رنز بنائے جن میں سے 96 رنز چوکوں کی مدد سے بنے تھے۔ انھوں نے شعیب اختر کے ساتھ نویں وکٹ کی شراکت میں 80 رنز بنائے، جس میں شعیب اختر کا حصہ صرف چھ رنز تھا۔

وزڈن نے سنہ 2001 کے ایڈیشن میں 100 بہترین اننگز کا انتخاب کیا تھا، جن میں اظہر محمود کی یہ اننگز آٹھویں نمبر پر سب سے بہترین اننگز قرار پائی تھی۔

اظہرمحمود کہتے ہیں ʹمیرے لیے وہ ایک خاص اننگز تھی کیونکہ وہ میں نے مشکل صورتحال میں کھیلی تھی۔ باؤنسی وکٹ پر مجھے سٹروکس کھیلنے میں مزہ آ رہا تھا۔ سب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ میں نے ان لوگوں کی بات غلط ثابت کر دی تھی کہ جو یہ کہہ رہے تھے کہ میں پنڈی کی سیدھی وکٹ پر سنچری بنائی تھی اور میں جنوبی افریقہ میں ناکام ہو جاؤں گا۔ʹ

انضمام جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلتے ہوئے

انضمام الحق

انضمام الحق کا الوداعی ٹیسٹ

سنہ 2007 میں جنوبی افریقہ کی ٹیم پاکستان آئی تو ورلڈ کپ میں مایوس کُن کارکردگی اور سب سے بڑھ کر کوچ باب وولمر کی موت نے پاکستانی کرکٹ کے مورال کو بُری طرح متاثر کیا تھا۔

ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کے کپتان انضمام الحق کا ون ڈے کریئر اختتام کو پہنچ چکا تھا تاہم پاکستان کرکٹ بورڈ نے انھیں لاہور کے ٹیسٹ میچ میں کھلا کر بین الاقوامی کرکٹ کو الوداع کہنے کا موقع فراہم کر دیا۔

انضمام الحق کی اپنا کریئر شاندار طریقے سے ختم کرنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ 8832 رنز کے جاوید میانداد کے ریکارڈ کو بھی نہ توڑ سکے۔

انضمام الحق نے لاہور ٹیسٹ سے قبل 8813 رنز بنائے تھے۔

پہلی اننگز میں وہ 14 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ دوسری اننگز میں انھوں نے ابھی تین رنز ہی بنائے تھے کہ انھوں نے سپنر پال ہیرس کی گیند کو باہر نکل کر باؤنڈری کے باہر پہنچانے کی کوشش کی تاکہ میانداد کا ریکارڈ توڑ سکیں لیکن گیند بلے کے بجائے وکٹ کیپر مارک باؤچر کے گلوز میں گئی، جنھوں نے سٹمپڈ کرنے میں غلطی نہیں کی۔ یوں میانداد کا ریکارڈ ٹوٹنے سے بچ گیا۔

عاصم کمال، ڈیبیو پر 99

صفر کے بعد کسی بھی بیٹسمین کے نزدیک دوسرا سب سے ناپسندیدہ ہندسہ 99 کا ہے۔

اس بیٹسمین کی کیفیت کیا ہو گی جب وہ سنچری سے صرف ایک رن کی دوری پر رہ جائے اور اس سے بھی زیادہ مایوس کن بات کیا ہو سکتی ہے کہ وہ بیٹسمین اپنے ڈیبیو یعنی اولین ٹیسٹ میں 99 پر آؤٹ ہو جائے؟

ٹیسٹ کرکٹ میں ایسے صرف تین بیٹسمین ہیں جن میں سے ایک پاکستان کے عاصم کمال ہیں۔

سنہ 2003 میں جنوبی افریقہ کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں جب ہر کوئی عاصم کمال کی سنچری کا منتظر تھا فاسٹ بولر آندرے نیل نے انھیں بولڈ کر کے اس اعزاز سے محروم کر دیا۔

عاصم کمال بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ’ہر کرکٹر کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے پہلے ٹیسٹ میں ایسی کارکردگی دکھائے جو یاد رہے۔ مجھے سات سال فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں آنے کا موقع ملا تھا اور میں انضمام الحق کی جگہ ٹیم میں شامل ہوا تھا جو ان فٹ ہو گئے تھے۔‘

عاصم کمال کا کہنا ہے ’میں نے اس ٹیسٹ سے پہلے اللہ سے یہی دعا کی تھی کہ مجھے نمایاں مقام دینا۔‘

’سنچری نہ ہونے کا افسوس تو تھا لیکن پھر میں نے یہ بھی سوچا کہ میں دنیا کے ان تین کرکٹرز میں شامل ہوا ہوں جو اپنے پہلے ٹیسٹ میں 99 پر آؤٹ ہوئے ہیں یہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے بعد بھی میں نے ٹیسٹ کرکٹ میں متعدد اچھی اننگز کھیلیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میری بڑی اچھی یادیں پاکستان کی کرکٹ سے وابستہ ہیں لیکن اس بات کا ضرور دکھ ہے کہ مجھے زیادہ کھیلنے کا موقع نہیں دیا گیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp