پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ: بلے باز بابر اعظم سا کپتان بھی خوش نصیبی ہو گی؟


بابر اعظم
یوں تو انٹرنیشنل کرکٹ میں کوئی بھی دوطرفہ سیریز غیر اہم نہیں ہوتی مگر منگل سے شروع ہونے والی پاکستان اور جنوبی افریقہ کے مابین سیریز کئی لحاظ سے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کے بعد کرکٹ معیار کے اعتبار سے یہ بہترین سیریز ہو گی کیونکہ ابھی تک پاکستان صرف ویسٹ انڈیز، سری لنکا، بنگلہ دیش اور زمبابوے جیسی ٹیموں کی میزبانی کرتا آیا ہے۔

یہ سیریز اس لحاظ سے بھی مرکزِ نگاہ رہے گی کہ پاکستان کے بہترین بلے باز بابر اعظم اپنی کپتانی کا باقاعدہ آغاز کریں گے۔ بہت سی امیدیں ان سے جڑی ہوں گی اور کئی مشّاق نگاہیں ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو پرکھ بھی رہی ہوں گی۔

شان مسعود، محمد عباس، حارث سہیل، اسد شفیق اور نسیم شاہ جیسے ریگولر کھلاڑیوں کی غیر موجودگی میں یہ بابر کا امتحان ہو گا کہ وہ اپنا لائن اپ کیسے تشکیل دیتے ہیں۔ نسیم شاہ اور محمد عباس کے ڈراپ ہونے کے بعد پاکستانی بولنگ لائن میں ایک خلا پیدا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ: رضوان نے بحران کا رستہ روک دیا

انڈیا، آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز: ایک کرکٹنگ کہانی جو برسوں زندہ رہے گی

دو ہفتے کی محنت اور نتیجہ صرف تھکاوٹ

اگر مصباح کو گھر بھیج دیا جائے؟

نسیم شاہ

حسن علی کی حالیہ ڈومیسٹک سیزن کے قابلِ رشک اعداد و شمار نے پاکستان کے ایک سوال کا جواب تو دے دیا ہے مگر چوتھا بولر کون ہو گا، یہ بابر اعظم کو طے کرنا ہے۔

اس سیریز سے پہلے کپتان کو سلیکشن کے لیے کوچ کی تجاویز بھی ملتی رہی ہیں مگر یہ پہلا موقع ہے کہ مصباح الحق نے سرِعام ٹیم سلیکشن کو کپتان کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔

ویسے تو عبداللہ شفیق کے ڈراپ ہونے کے بعد عابد علی کے ساتھ نوآموز عمران بٹ اوپنر ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر بابر اعظم چاہیں تو اظہر علی سے اوپن کروا کے خود ون ڈاؤن کھیلنے جیسا دلیرانہ فیصلہ بھی کر سکتے ہیں جو جنوبی افریقہ کے مضبوط پیس اٹیک کا صحیح امتحان لے سکے۔

ٹیم سلیکشن وہ پہلا مرحلہ ہے جہاں کپتان اپنے کرکٹنگ مزاج کا کھل کر اظہار کرتا ہے۔ بابر اعظم کے فیصلے کس قدر جرات مند ہوں گے، اسی سے اس ٹیسٹ ٹیم کا نیا چہرہ اور مستقبل متعین ہو گا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم

مصباح الحق نے اپنی ساری ہوم کرکٹ متحدہ عرب امارات میں کھیلی، ان کا ایک خاص مدافعانہ انداز اور کنٹرولڈ ایگریشن اپنی جگہ بجا ہے مگر پاکستان کی کنڈیشنز وہاں سے بہت مختلف ہیں۔ یہاں بولنگ اٹیک میں سپن اور پیس کا تناسب وہ نہیں رکھا جا سکتا جو یو اے ای میں معمول تھا۔

پاکستان کو ٹیسٹ کرکٹ میں کوئی میچ جیتے ہوئے سال بھر ہونے کو ہے۔ اس برے تسلسل کی بنیادی وجہ لائن اپ میں بے تحاشا تجربات اور قیادت کا فقدان رہا ہے۔ بابر اعظم کو ان دونوں سوالوں کے جواب دینا ہوں گے، تبھی وہ پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ کو آگے لے کر جا سکیں گے۔

کیونکہ دوسری جانب جنوبی افریقہ کی ٹیم کا بھی احوال پاکستان سے مختلف نہیں ہے۔ باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں سری لنکا کے خلاف جیت سے پہلے وہ دس میں سے نو ٹیسٹ میچ ہار چکی تھی۔ ہاشم آملہ، ڈیل سٹین، مورکل اور فیلینڈر جیسے کھلاڑیوں کی رخصتی کے بعد وہاں بھی مارک باؤچر کا نیا کوچنگ سیٹ اپ پے در پے تجربات ہی کرتا آ رہا ہے۔

فی الوقت کوئنٹن ڈی کوک کے اس قافلے کی بنیادی قوت ڈین ایلگر کی فارم اور ربادا و نورکیہ جیسے بولرز کی موجودگی ہے لیکن میچ کے آخری دو دن کی کنڈیشنز میں یہ پیس اٹیک ریورس سوئنگ کا محتاج ہو جائے گا اور اس کے لیے باؤچر کو بھی کچھ سخت فیصلے کرنا ہوں گے جن کا وہ عندیہ بھی دے چکے ہیں۔

ہوم کنڈیشنز میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنا بہت آسان ہے۔ پاکستان کو یہ فائدہ تو حاصل ہے مگر یہاں مصباح اور وقار یونس کے مستقبل کے علاوہ بھی بہت کچھ داؤ پہ لگا ہے۔ کوچنگ سیٹ اپ میں نئے شامل ہونے والے ثقلین مشتاق اور محمد یوسف کی موجودگی کی توجیہہ بھی دیکھنے والوں کو درکار ہو گی۔

بابر اعظم جیسا بلے باز میسر ہونا کسی بھی ٹیم کی خوش بختی ہے۔ لیکن کیا بابر جیسا کپتان میسر ہونا بھی اس ٹیم کی خوش نصیبی ہو گی؟ جواب شاید کل صبح ٹاس پر ہی مل جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32490 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp