K 2 سر کرنے کی خواہش: پانچ ہزار میٹر کی بلندی پر بیٹھی مگدالینہ چوٹی سر کرنے کے لیے اچھے موسم کی منتظر


’نصف شب ہونے کو ہے اور ہم 15 کوہ پیما موسم میں بہتری کے منتظر ہیں۔ ابھی ہم یہاں سستا رہے ہیں، گپ شپ کرنا اور کھانا پینا فی الحال یہی مشغلہ ہے۔‘

یہ کہنا ہے کے ٹو کو سر کرنے کی کوششوں میں مصروف کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم میں شامل پولینڈ سے تعلق رکھنے والی خاتون کوہ پیما میگدالینہ کا۔ کوہ پیماؤں کی یہ ٹیم دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے بیس کیمپ میں موجود ہے۔

K2 کے بیس کیمپ سے واٹس ایپ پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’ہمالیہ پر مہم جوئی میں ایکشن سے زیادہ انتظار کرنا ہوتا ہے۔ موسم کی بہتری کا انتظار۔ یہاں مہم جوئی کے لیے ہم سب تمام تیاری مکمل کیے ہوئے ہیں۔‘

دوسری جانب بیس کیمپ سے ملنے والی آخری اطلاعات کے مطابق پاکستانی کوہ پیما سدپارہ، ان کے بیٹے اور کوہ پیما جان سونیری بیس کیمپ کی جانب واپس لوٹ آئے ہیں کیونکہ چڑھائی کے لیے ابھی موسم سازگار نہیں ہے۔

میگدالینہ کا کہنا تھا کہ ’ہمیں بہت احتیاط کرنا ہوتی ہے اوپر چڑھتے ہوئے برفانی گولے اور چٹانیں ہمارے سروں پر سے ہوتی ہوئی گزرتی ہیں یہ ہمارے اردگرد لہرا رہی ہوتی ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’خوش قسمتی ہے کہ K2 نے ہمیں خود کو سر کرنے کی مہلت دی، یہ بڑی بات ہے‘

نیپالی کوہ پیماؤں نے تاریخ رقم کر دی، کے ٹو کو موسم سرما میں پہلی بار سر کر لیا گیا

کے ٹو کے قریب لاپتہ کوہ پیما ایلکس گولڈ فارب کی ہلاکت کی تصدیق

میگدالینہ کی عمر 28 برس ہے اور انھیں ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی پولینڈ کی سب سے کم عمر خاتون کوہ پیما ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’تب میں نے ایک گھنٹہ وہاں گزارا تھا میری ایسی کیفیت تھی جسے میں کبھی بھول نہیں سکتی۔ حیرت انگیز اور خوبصورت۔‘ اور اب وہ کے ٹو اور اس کے بعد آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر واقع تمام چوٹیوں کو سر کرنا چاہتی ہیں۔

کیا یہ K2 پر آپ کی پہلی مہم جوئی ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے میگدالینہ گوشکوفسکا نے بتایا کہ انھوں نے موسم سرما میں K2 سر کرنے کی مہم میں حصہ لینے کا فیصلہ تین ماہ پہلے کیا۔ وہ اس سے پہلے کے ٹو کی مہم میں کبھی شریک نہیں ہوئیں اور پاکستان آنے کا بھی یہ ان کا پہلا موقع ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’پہلی بار ہی مجھے پاکستان آنے کا موقع ملا ہے اس سے پہلے میں نے نیپال میں مہم جوئی کی اور اب تک آٹھ ہزار میٹر بلند تین چوٹیوں کو سر کر چکی ہوں۔ میں نے دو چوٹیوں کو اپنے بھائی کے ہمراہ سر کیا لیکن اب وہ اتنی اونچی چوٹیوں کو سر کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا، اس لیے میں اکیلی ہی مہم جوئی کرتی ہوں۔‘

میگدالینہ نے پہاڑوں کو سر کرنے کا آغاز تو آٹھ برس کی عمر میں کیا لیکن پھر ریس کے مقابلوں میں شرکت کی وجہ سے پہاڑوں پر جانا چھوڑ دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب سے میں نے دوڑنا شروع کیا اور مخلتف مقابلوں میں شرکت کی تو پھر پہاڑوں پر جانا اس لیے چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ پرخطر تھا اور چوٹ لگنے کا خدشہ تھا۔ اب میں پانچ سال سے کوہ پیمائی ہی کر رہی ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے بہت سخت محنت کی اور اس مہم کی تیاری کے لیے۔ میں نے ہموار زمین اور پہاڑوں پر بہت زیادہ دوڑ لگانے کے ساتھ ساتھ فٹنس کے لیے جم میں ورزش کو بہت وقت دیا۔‘

میگدالینہ پروفیشنل ایتھلیٹ اور نیوٹریشنسٹ یعنی غذائی ماہر ہیں اور لوگوں کو فٹنس کی تربیت بھی دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’سرد موسم میں مہم جوئی کے لیے میں نے تیاری میں اپنے جسم پر آئس بفنگ بھی کی تاکہ یہ سرد موسم کا عادی ہو جائے۔‘

اس سے پہلے بھی آپ بلند چوٹیاں سر کر چکی ہیں اس بار آپ کے ٹو کو سر کرنے جا رہی ہیں کیا یہ تجربہ سابقہ تجربات سے کچھ مختلف ہے؟

’میں اگر K2 پر چڑھنے کا اپنے سابقہ تجربات سے موازنہ کروں تو یقیناً ہر لحاظ سے یہ بہت زیادہ سخت اور مشکل ہے۔ موسم، درجہ حرارت، ہوا، ٹریکنگ کی صورتحال، یہ ہر ایک اعتبار سے مشکل ہے لیکن میں اس کے لیے تیار ہوں۔‘

میگدالینہ بھی دیگر کوہ پیماؤں کی مانند سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اپنی تصاویر اور اس مہم کے لیے تیاری اور عزم کے بارے میں لکھتی رہتی ہیں۔

21 جنوری کو اپنی ایک پوسٹ میں انھوں نے لکھا ’مجھے معلوم ہے میں یہاں کیوں ہوں اس سے پہلے پہاڑوں پر مہمات میں میں اپنے پلان کے مطابق چلی اور جسمانی طور پر فٹ رہی۔ سرد موسم مجھے پریشان نہیں کرتا۔ میں اس کے لیے تیار ہوں اور وقت کے ساتھ میرا جسم اب منفی 25 ڈگری پر کام کرنے کا عادی ہو گیا ہے۔‘

میگدالینہ نے چند روز قبل اپنی ٹیم کے ساتھ اوپر کے کیمپ تک مہم جوئی کی اور یہ بلندی 6600 میٹر تھی۔ وہاں انھوں نے دو راتیں گزاریں۔

ہزاروں میٹر بلندی پر چڑھنا بطور خاتون کتنا مشکل لگا؟

میگدالینہ کہتی ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ ہمارے جسم کی مختلف فیزیالوجی کی وجہ سے خواتین کے لیے یہ تھوڑا مشکل ہے۔ بہت سی سادہ چیزیں بھی ہمارے لیے مشکل ہو جاتی ہیں لیکن میں یہ بھی کہوں گی کہ کچھ بھی ممکن ہے یہ ناممکن نہیں کہ ہم بھی کے ٹو کو سردیوں میں سر کر لیں۔‘

مسکراتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میری بہت سی مہمات پر بہت سی خواتین سے ملاقات ہوئی ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ ہم یہ کر سکتے ہیں۔‘

یہاں اس کیمپ میں پولینڈ سے تعلق رکھنے والی میگدالینہ کے علاوہ دو اور خواتین، سوئٹزرلینڈ کی جوڑیٹ اور تمارا لونگر بھی K2 کی چوٹی سر کرنے کی منتظر ہیں۔ میگدالینہ کہتی ہیں کہ ’ہم سب نے آٹھ ہزار میٹر بلندی پر واقع چوٹیاں سر کر رکھی ہیں۔ میں بہت خوش ہوں کہ نیپالی کوہ پیماؤں نے کے ٹو کر سر کر لیا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ نیپالی کوہ پیماؤں کی جانب سے کے ٹو کو سر کرنے کی راستے پر رسی کو لگایا جانا ہمارے لیے بہت مدد گار ثابت ہو گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہاں K2 پر ہمیں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے ایک چھوٹی سی غلطی سب کچھ تباہ کر سکتی ہے۔ ہماری فٹنس، ہماری زندگی سب کچھ تباہ ہو سکتا ہے۔ ہمیں بہت احتیاط کرنی ہوتی ہے۔ K2 کو موسم سرما میں سر کر لیا گیا ہے لیکن ابھی یہ مشن مکمل نہیں ہوا وہاں بیس کیمپ میں اب بھی 15 کوہ پیما موجود ہیں۔‘

میگدالینہ 12 برس تک پروفیشنل رنر تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ سنہ 2016 میں ریلے ریس کی عالمی سطح پر دوڑ میں وہ دوسرے نمبر پر آئی تھی۔ اسی طرح انھوں نے سنہ 2016 کے اولمپکس میں بھی شرکت کی تھی۔

انھوں نے اپنے مستقبل کے منصوبوں کے متعلق بتاتے ہوئے اگلے برس تمام 8000 میٹر بلند چوٹیوں کو سر کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ وہ اس مہم جوئی کے بعد پاکستان میں مزید دو ہفتے گزار کر ملک واپس لوٹنا چاہتی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان نیپال سے بہت مختلف ہے اور انھیں یہاں بہت مزا آیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp