فارن فنڈنگ کا حمام


قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا تھا کہ نیا بننے والا ملک ایک ایسی لیبارٹری ہو جہاں پر اسلامی نظریات پر تجربات کیے جا سکیں۔ ایک ممنون قوم کی طرح ہم نے قائد کے اس بیان پر سیاق و سباق سے ہٹ کر اپنے فکری شعور، اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر دل وجان سے عمل کرنا شروع کر دیا۔ ہم نے دنیا کے ممالک کی جنگیں خود پر مسلط کر لیں۔ ہم نے فلسطین کی آزادی کے نعرے مارتے ہوئے اسرائیل کے خلاف غم و غصے کا اظہار اپنی املاک کو جلا کر کیا۔ ہم نے اس لیبارٹری میں نت نئے تجربات کیے ایک تجربہ کافر بنانے کا بھی کیا۔ ہم نے جب دل چاہا کسی فرقے کو کافر قرار دینے کا فارمولا تیار کر کے قتل وغارت کو مذہبی رنگ دے دیا۔ نتیجہ یہ کہ مختلف مسالک ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر ایک مدت تک ایک دوسرے کی گردنیں اتارنے کے ’فریضے‘ میں مشغول رہے۔

لیبارٹری قائم ہو چکی تھی اور قائد کا فرمان بھی تھا ، اب یہ ہم پر تھا کہ جس طرح کے چاہیں تجربات کریں ، سو ایک کے بعد ایک تجربہ کیا گیا۔ لیبارٹری میں زبان پر بھی تجربات کیے گئے اور مخصوص زبان بولنے والوں یا اپنی مادری زبان بولنے والوں کو اپنے مفادات کی کسوٹی پر پرکھا گیا۔ تجربات کے بعد جب یہ ثابت ہو گیا کہ ان کو ہماری دی ہوئی شناخت سے زیادہ اپنی زبان اور قومیت سے زیادہ پیار ہے تو ان کو غدار قرار دے کر ہم ان پر چڑھ دوڑے۔ یہ تجربہ ناکام ہوا اور یہ لوگ ہم سے الگ ہو گئے۔ آدھا ملک ہم نے اس تجربے کی بنیاد پر گنوا دیا مگر ہماری جستجو اور تحقیق کی عادت مزید پختہ ہو گئی۔ ہم نے حوصلہ نہیں ہارا ابھی بھی ہمارے پاس تجربہ گاہ موجود تھی اور نئے تجربات کا حوصلہ بھی جوان تھا۔

خطے میں موجود ہمارے دو اسلامی ملکوں کے مابین فرقہ پرستی کی بنیاد پر کشید گی بڑھی اور بالآخر ایک لاحاصل جنگ شروع ہو گئی ۔ یہ المیہ ہی ہے کہ دونوں طرف سے مارے جانے والوں کو شہادت کا رتبہ ملا۔ ان ممالک کی جنگ کو بھی ہم نے اپنے اوپر مسلط کر لیا اور ان کی پراکسی وار ہمارے ملک میں شروع ہو گئی اور ہم ریاست کی بجائے گروہ بن کر مسلک کی بنیاد پر اپنے من پسند ممالک کی نہ صرف حمایت کرنے لگے بلکہ اس جنگی جنون میں ایک دوسرے کا خون بہانے لگے۔ تجربہ گاہ میں بم دھماکوں کا دھواں بھر گیا اور اس کا فرش خون آلود ہو گیا مگرتجربات جاری رہے۔

سرخ انقلاب کے پھیلاؤ اور سائبریا کے ریچھ کی گرم پانیوں تک رسائی روکنے کا فارمولہ تیار کرنے کا حکم ملا تو فوری طور پر اس تجربہ گاہ میں، جو پہلے ہی تجربات کے سبب خستہ حالی کو پہنچ چکی تھی، ایک نیا تجربہ کیا گیا اور ’افغان باقی کہسار باقی‘ کے عنوان کا نیا فارمولا تیار کیا گیا۔ مغربی سرحد کھول دی گئی۔ اسلام دشمن ممالک میں چھپنے والے اسلامی جہادی لٹریچر کے زیر اثر اسلامی لشکر تیار کیے گئے اور اپنے ہی لاکھوں نوجوانوں کو اس جنگ میں جھونک دیا گیا۔ یہ تجربہ محض چند لاکھ نوجوانوں کی داستان عبرت نہیں ہے بلکہ اس قضیے میں کم سے کم دو نسلوں کو قربان کر دیا گیا۔ مگر اس بار تجربہ کامیاب رہا اور تجربے کے بدلے میں ڈالروں کی برسات ہوئی۔ اس ساون بھادوں میں سب نہائے اور خوب نہائے۔

یہ تجربہ اس قدر شاندار اور کامیاب رہا کہ اس تجربے کی بنیاد پر ایک نسل مذہب کے نام پر اپنی جان دے کر جنت کی طرف روانہ ہوئی تو دوسری نسل اس تجربے کی بنیاد پر ڈالر جیبوں میں بھر کر امریکہ کی جنت کی طرف روانہ ہوئی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دونوں طرح کے سفر میں روانہ ہونے والے مطمئن ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو قرض تھا جان پر وہ چکا دیا ہے۔ اس تجربے سے کسی کی دنیا سدھر گئی تو کسی کی آخرت۔ یہ انہی دنوں کا ماجرا ہے کہ جب اس تجربہ گاہ کو روم کے مرکزی اسٹیڈیم کلازیم کی حیثیت حاصل تھی۔ طاقتور اور با اثر شخصیات دولت لے کر اس کی گیلریوں میں بیٹھ جاتے اور ہم غلاموں کی طرح ایک دوسرے سے نبرد آزما رہتے۔ جب ایک طاقتور غلام مدمقابل کی گردن کاٹ دیتا تو داد و تحسین کے ساتھ ساتھ بے انتہا دولت بھی نصیب ہوتی۔

کلازیم کی اسی جنگ وجدل کے دوران بطور انعام جیتی گئی دولت کو فارن فنڈنگ کا نام دے کر ایک نیا تجربہ کیا جا رہا ہے۔ ایک ایسی دولت کا حساب مانگا جا رہا ہے جس کے لیے کتنے ہی لوگوں نے بروٹس کا کردار ادا کیا۔ نہ جانے کتنے ہی لوگوں کے ہاتھ اپنے ہی لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ جان پر کھیل کر جمع کی گئی دولت کا حساب کون رکھتا ہے۔ بطور وار لارڈز مختلف خفیہ ذرائع سے حاصل ہونے والی رقم کے ذرائع کون بتاتا ہے۔ ہم تو اس قدر ایڈونچر پسند ہیں کہ ایک منتخب وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے کے لیے مبینہ عالمی دہشت گرد سے مالی امداد مانگتے رہے۔

تجربہ گاہ میں اب کی بار فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے کیا جانے والا تجربہ ناکام ہونے جا رہا ہے۔ فارن فنڈنگ کیس کے حمام میں سب ننگے ہیں اور پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے کی بجائے ایک دوسرے کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالات کو اس نہج تک لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جہاں پر کلازیم کے منتظمین یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ انتشار پھیلنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے اس لیے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اس کیس کو ختم کیا جا رہا ہے۔

ویسے بھی ایک تاریخی سچائی یہ ہے کہ طاقت کے زور پر حاصل کیے گئے ملکوں اور دولت کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا اور نہ ہی طاقتور کسی کو جواب دہ ہوتا ہے۔ دلیل کے طور پر فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کو ہی دیکھ لیں اور آگے کچھ دنوں میں فارن فنڈنگ کیس کو دیکھ لیجیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).