کراچی کی سڑکوں پر زہریلے اسپرے کرنے والے



یقین ہے آپ مضمون کا عنوان پڑھ کر سکتے میں آ گئے ہوں گے کہ کراچی شہر جنگل تو نہیں تو اس میں سانپ کہاں سے آ گئے۔ پھر آپ نے سوچا ہو گا کہ شاید اس میں شاید چڑیا گھر کی بات ہو؟ لیکن وہ تو ایک ہی جگہ پر ہے سڑکوں پر تو نہیں۔

تو پھر شاید سپیروں کے ہاٹ پاٹ نما ڈبوں والے سانپوں کی بات ہو رہی ہو، لیکن وہ تو سپیروں کے بین بجانے پر ڈبے سے نکل کر ناچتے ہیں اور پھر ڈبے میں جا کر چھپ جاتے ہیں، یہاں ایسا تو نہیں۔  شاید آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ شاید لکھنے والا آستین کے سانپ کی بات کر رہا ہے۔لیکن یہ والے سانپ رینگتے تو نہیں وہ تو خاموشی سے ہمارے آس پاس موجود ہوتے ہیں اور پھر اچانک سے ڈس لیتے ہیں۔

بہرحال میں بتا دوں کہ یہ سانپ اصلی والا نہیں، اس لیے ہرگز نہ ڈریں اور بلاخوف شہر میں گھومیں، بس نظریں گھماتے رہیے تاکہ ان سانپوں کے اڑتے زہر سے بچ سکیں۔ چلیے میں بتاتا ہوں کہ کن سانپوں کی بات ہو رہی ہے اور کس زہر کی بات ہو رہی ہے۔

اگر کہ آپ شہر کراچی کے باسی ہیں اور شہر کی سڑکوں پر گھومتے ہیں تو یقیناً ان سانپوں کو دیکھا ہو گا بلکہ ہو سکتا ہے کہ زہر کی چند چھینٹیں آپ کی طرف بھی آئی ہوں۔

اصلی سانپ اور اس سانپ میں ایک بڑا زہریلا فرق ہے، وہ یہ کہ اصلی سانپ کا زہر اس کے جسم کے اندر ہوتا ہے پر اسے نقصان نہیں پہنچتا البتہ اگر وہ کسی کو ڈس لے تو اس کی موت کا سامان ہو جاتا ہے، لیکن کراچی والے سانپ کا کمال یہ ہے کہ زہر وہ خود کھاتے ہیں اور آہستہ آہستہ خود اپنے لیے ہی موت کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ آپ پھر حیرت میں مبتلا ہو گئے ہوں گے ۔ اچھا تھوڑی دیر رکیے ، آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ آخر یہ کن سانپوں کا ذکر ہو رہا ہے۔

یہ سانپ کراچی کی سڑکوں پر جگہ جگہ رینگتے ہیں پر یہ خود نہیں رینگتے بلکہ مختلف سواریوں کے ذریعے رینگتے ہیں ، کہیں بائیک کی مدد سے، کہیں گاڑی کی مدد سے تو کہیں بس میں، ہاں ہاں ایسا ہی ہے پھر حیران ہو گئے ناں آپ۔ جی اور رینگتے رینگتے اچانک سے یہ زہر ہوا میں چھوڑ دیتے ہیں، بائیک پر رینگتا سانپ اچانک سے ہیلمٹ اٹھا کر زہر ہوا میں چھوڑتا ہے اور گاڑی والا سانپ اچانک سے شیشے سے منہ نکال کر زہر چھوڑتا ہے یا پھر گاڑی کا دروازہ کھول کر۔

آپ حیران و پریشان ہوں گے اور تھوڑے خوفزدہ بھی ہوں گے کہ آخر یہ کون لوگ ہے جو اس طرح زہر چھوڑتے پھر رہے ہیں۔ ویسے تو یہ زہر چھوڑنے والے پورے ملک میں موجود ہیں لیکن کراچی میں ان کی بڑی تعداد موجود ہے۔ جی جناب ایسا کون سا زہر ہے جو دوسروں کے لئے نہیں بلکہ اپنے کے لیے خطرناک ہے وہ ہے گٹکا، ماوا، پان اور چھالیہ۔ جی جی یہ تمام چیزیں سلو پوائزن ہی تو ہیں جو کھانے والوں کو آہستہ آہستہ مختلف بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہیں اور پھر وہ خطرناک بیماریاں ان لوگوں کو موت کے منہ میں لے جاتی ہیں۔

اس موضوع کو اٹھانے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو اوپر رقم کر چکا ، دوسری وجہ اس زہر کا ڈرون حملہ ہے۔ ہاں ڈرون حملہ۔ زہر کھانے، چبانے اور منہ میں گھمانے والے اچانک سے فضا میں اس زہریلے مواد کا ڈرون حملہ کر دیتے ہیں۔

ڈرون حملہ کرنے والا تو اپنی جہالت سے لا علم ہوتا ہے، وہ اکثر بغیر دیکھے ہی چلتی گاڑی اور بائیک سے زہریلا میزائل چھوڑتا ہے جو ہوا کے دباؤ کی وجہ سے پیچھے آنے والوں کے چہرے یا لباس پر جا پڑتا ہے۔

اب زہریلے ڈرون چھوڑنے والا اپنی دانش میں تو درست طریقے سے تھوک گیا لیکن اس حملے کا نشانہ بننے والا معصوم اس حملے کے نتیجے میں ’جھلس‘ جاتا ہے۔ اکثر اوقات تو منہ تک چھڑکاؤ ہوتا ہے لیکن اگر ڈرون حملہ بڑا ہو تو یہ منہ کے چھڑکاؤ کے ساتھ ساتھ لباس کو بھی رنگین بنا دیتا ہے اور اچانک حملے کا شکار ہونے والا بوکھلا جاتا ہے اور اسی سوچ میں حملہ آور فرار ہو جاتا ہے۔

بس ایک چھوٹی سے التجا بحضور زہریلے ڈرون چھوڑنے والے افراد، بھائیو! کوشش کیا کرو کہ چلتی کاروں اور بائیکس سے یہ حرکت نہ کیا کرو ، اب تم تو یہ کارنامہ انجام دیے دیتے ہو لیکن شکار ہونے والا شخص مشکل میں آ جاتا ہے، ہو سکتا ہے وہ انٹرویو یا جاب پر جا رہا ہو، یا پھر منگیتر سے ملنے وغیرہ، بہرحال سنو ڈرون حملہ آورو! جب زہر منہ میں گھوم گھوم کر اپنا مزہ ختم کر دے اور آپ اسے پھینکنے کا ارادہ کر لیں تو اپنی سواریوں کو سائیڈ پر روک کر یہ عمل انجام دیا کرو تاکہ دلوں سے نکلی بد دعا اور انواع و اقسام کی گالیوں سے بچ سکو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).