تحریک عدم اعتماد کتنی آساں کتنی مشکل


غالبؔ نے کئی دہائیاں قبل دریافت کر لیا تھا کہ دل کی بات لبوں پر لانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ”سلاطین وقت“ کے ”فرشتے“ ہوتے ہیں۔ وہ غلاموں کے دلوں میں ابلتی خواہشات کو ”دام شنیدن“ بچھاتے ہوئے ہر صورت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی ”باغیانہ“ باتوں کو رپورٹ کرتی جو ”تحریر“ ہوتی ہے اسے لکھتے وقت ”ہمارا“ کوئی آدمی وضاحتیں دینے کو موجود نہیں ہوتا۔ بہتر یہی ہے کہ ”عالم تقریر“ میں اپنا ”مدعا“ چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔

پی ڈی ایم میں شامل ہوئی ہر اپوزیشن جماعت کو بخوبی علم ہے کہ عمران حکومت کو گھر بھیجنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ تحریک انصاف کو ہمارے پڑھے لکھے اور ”صاف ستھری“ سیاست کے گرویدہ افراد کی بہت بڑی تعداد قوم کو سیدھی راہ دکھانے کو تعینات ریاست کے کئی ستونوں کے ساتھ باہم مل کر برسوں کی محنت کے طفیل برسراقتدار لائی ہے۔ اسے اقتدار سے محروم کرنے کے لئے جو توانائی اور تڑپ درکار ہے فی الوقت بھرپور انداز میں میسر نہیں۔

مایوس ہو کر گھر بیٹھ جانے کو بھی دل مگر مائل نہیں ہوتا۔ سیاست کی بساط پر ”بادشاہ“ ’کو گھیرنے کے لئے ایک کے بعد دوسری چال چلنا لازمی ہے۔ اس کی بدولت شاید ”وہ صبح“ کبھی طلوع ہوہی جائے جس کا ”وعدہ“ نجانے کس نے کس سے کر رکھا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر مجھ جیسے بدنصیب قلم گھسیٹ مگر رزق کمانے کی مجبوری میں مذکورہ بالا حقائق دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اپنی تحریر کے لئے Likes اور Shareحاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سیاست کے طویل المدت، پیچیدہ اور اعصاب شکن کھیل کو T۔

20 کی صورت پیش کیا جائے۔ اسی خواہش کے باعث تاثر یہ پھیلایا گیا کہ اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتوں کے پی ڈی ایم میں یکجا ہوجانے کے بعد عمران حکومت کے لئے صبح گیا یا شام گیا والا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ ایک بیان کے ذ ریعے لیکن گزشتہ ہفتے پاکستان پیپلز پارٹی کے جواں سال قائد بلاول بھٹو زرداری امید بھری رونق کے رنگ میں بھنگ ڈالتے نظر آئے۔ ان کا خیال تھا کہ شہر شہر گھوم کر جلسوں کے انعقاد میں وقت ضائع نہ کیا جائے۔ بہتر یہی ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد والا آپشن استعمال کرنے پر توجہ مرکوز کردی جائے۔

بلاول بھٹو زرداری کے مشورے نے عمران حکومت کے دوکائیاں وزیروں کے دل شاد کر دیے۔ ان کے اطمینان نے تاہم ”انقلاب“ کے منتظر تبصرہ نگاروں کو ناراض کر دیا۔ وہ اپنے مداحوں کو یاد دلانا شروع ہو گئے کہ پیپلز پارٹی عرصہ ہوا ”انقلابی“ جماعت نہیں رہی۔ ”اصولی سیاست“ کو تج کر سندھ تک محدود ہو گئی۔ اب وہاں صوبائی حکومت میں تیسری باری سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ اقتدارواختیار کی بندربانٹ سے جو حصہ اس نے اپنے جثے کے بل بوتے پر وصول کیا ہے اسے بچانے کو وہ عمران حکومت کی ”بی ٹیم“ بننے کو بھی رضا مند ہو جائے گی۔ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف سے منسوب مسلم لیگ کو اب اسے بھلاکر کوئی نئی گیم سوچنا ہوگی۔ یہ دونوں جماعتیں اگرچہ فی الوقت پیپلز پارٹی سے جدا ہونے کو آ مادہ نظر نہیں آ رہیں۔

1989 کے ستمبر میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو ضرورت سے زیادہ متحرک رپورٹر ہوتے ہوئے میں اس کے بارے میں پیش رفت کے مراحل کو تمام فریقین کے قریب رہتے ہوئے دیکھتا رہا۔ اس وقت کے صدر اور آرمی چیف مذکورہ تحریک کی پشت پناہی سے انکار کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تھے۔ اسے کامیاب بنانے کے لئے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کے توانا وزیر اعلیٰ نواز شریف صاحب نے دن رات ایک کر دیے۔

بالآخر جب اس تحریک پر گنتی ہوئی تو محترمہ کی حکومت نہ صرف بچ گئی بلکہ اس نے اپوزیشن جماعت کے چھ سے زیادہ افراد بھی اپنی حمایت میں ”توڑ“ لئے۔ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں باقاعدہ پیش ہو جائے تو اس پر حتمی گنتی سے قبل وفاقی حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دستیاب ہوتی ہے۔ اس دوران وفاقی حکومت کے تمام تر وسائل وزیر اعظم کو بچانے پر مرکوز کر دیے جاتے ہیں۔ ”خریدو“ یا ”دھمکاؤ“ (Buy or Bully) کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم کو بالآخر بچالیا جاتا ہے۔ نظر بظاہر عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت والی ”تاریخ“ ہی دہرائی جائے گی۔

اپوزیشن جماعتوں کو عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے ویسے بھی سوبار سوچنا چاہیے۔ ہماری پارلیمان کے ایوان بالا میں اپوزیشن جماعتوں کو 64 اراکین کی حمایت کی وجہ سے بھاری بھر کم اکثریت میسر ہے۔ ”ٹھوس اعداد“ پر مشتمل حقیقت پر اعتماد کرتے ہوئے ان جماعتوں نے سینٹ کے چیئرمین کے خلاف تحریک اعتماد پیش کردی۔ ”خفیہ رائے شماری“ کی ”برکت“ سے صادق سنجرانی مگر اسے ناکام بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران ”خفیہ رائے شماری“ والی سہولت بھی میسر نہیں ہوتی۔ قومی اسمبلی کے اراکین کو اپنی نشستوں سے اٹھ کر تحریک کے حامیوں اور مخالفین کے لئے مختص لابیوں میں جاکر وہاں موجود رجسٹر پر دستخط بھی کرنا ہوتے ہیں۔ ہمارے آئین میں واضح طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ اگر وزیر اعظم کے انتخاب یا اس کے خلاف پیش ہوئی تحریک اعتماد کے دوران کسی رکن قومی اسمبلی نے اپنی جماعت کی قیادت کی ہدایات کے برعکس ووٹ دیا تو وہ اپنی نشست سے محروم ہو جائے گا۔ اس شق کے ہوتے ہوئے تحریک انصا ف کی ٹکٹ پر منتخب ہوا ایک رکن اسمبلی بھی عمران خان کے خلاف ووٹ ڈالنے کی جرات دکھا نہیں سکتا۔

مجھے کامل یقین ہے کہ جن امور کی جانب میں توجہ دلارہا ہوں ان کا آصف علی زرداری کو مجھ سے کہیں زیادہ علم ہے۔ اس کے باوجود یہ سمجھنے سے ہرگز قاصر ہوں کہ ان کی جانب سے وزیر اعظم کے لئے تحریک عدم اعتماد کو کیوں اکسایا جا رہا ہے۔ اس سوال پر غور کرتے ہوئے غالبؔ کے بیان کردہ ”دام شنیدن“ بچھانے کی کوشش کی۔ اس عمل نے یاد دلایا کہ ہماری ”دونمبری“ جمہوریت میں ”ٹھوس اعداد و شمار پر مشتمل حقائق اکثر دھوکا ہی دیتے پائے گئے۔

صادق سنجرانی کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کے دوران ایسا ہی ہوا تھا۔ ”ہیوی مینڈیٹ“ کے ہوتے ہوئے نواز شریف بھی اکتوبر 1999 میں اپنی حکومت نہیں بچاپائے تھے۔ ایسے واقعات سے پیغام ملا کہ وزیر اعظم کی قسمت کے فیصلے پارلیمان میں نہیں بلکہ ” ’کہیں اور“ ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آصف علی زرداری کو گماں ہوکہ ”وہاں“ موڈ بدل رہا ہے۔ سوال مگر یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر موڈ وہاں واقعتاً بدل رہا ہے تو اس کی خبر محض پیپلز تک ہی کیوں پہنچی۔ مولانا بھی اس ضمن میں کافی ”باخبر“ تصور ہوتے رہے ہیں۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے شہباز شریف اور خواجہ آصف صاحب جیسے رہ نماؤں کے ”رابطے“ تو 1990 کی دہائی سے بہت مشہور ہیں۔ وہ دونوں مگر اب جیل میں ہیں۔ آصف علی زرداری کے پاس موجود ”گیدڑ سنگھی“ بھی کہیں بیک فائر نہ کر جائے۔

فی الوقت تحریک عدم اعتماد کی تجویز نے البتہ پی ڈی ایم کے باہمی ”نفاق“ کو اجاگر کرنے کے لئے مجھ جیسے قلم گھسیٹوں کو ٹھوس مواد فراہم کر دیا ہے۔ ہم اس کی بنیاد پر دیہاڑیاں لگارہے ہیں۔ میں نے بھی آج کا کالم لکھ کر اسی بنیاد پر اپنی دیہاڑی لگادی ہے۔

بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).