بھارت: یومِ جمہوریہ پر کسانوں کا دہلی پر دھاوا، پولیس سے جھڑپوں میں متعدد زخمی


پولیس کی جانب سے مظاہرین کو قانون ہاتھ میں نہ لینے کی اپیل کی جا رہی ہے۔
 

نئی دہلی — بھارت کے یومِ جمہوریہ پر جہاں ایک طرف راشٹرپتی بھون (ایوانِ صدر) اور پارلیمنٹ ہاؤس کے نزدیک ملک کی عسکری اور ثقافتی پریڈ کا انعقاد کیا گیا۔ وہیں دوسری جانب کسانوں نے ٹریکٹروں کے ہمراہ دارالحکومت نئی دہلی پر چڑھائی کر دی۔

ہزاروں کسان منگل کو احتجاج کرتے ہوئے پنجاب، ہریانہ اور اترپردیش سے دہلی میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر دہلی سے متصل سنگھو، ٹکری اور غازی پور سرحدوں کے علاوہ دیگر مقامات پر پولیس اور کسانوں کے درمیان تصادم ہوا۔

پولیس اور کسانوں کے درمیان مختلف علاقوں میں جھڑپوں کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔

پولیس نے دارالحکومت کی جانب بڑھنے والے کسانوں کو روکنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج بھی کیا۔ جس کے جواب میں کسان بپھر گئے اور انہوں نے پولیس اہلکاروں پر بھی حملہ کیا۔

یاد رہے کہ بھارت میں گزشتہ دو ماہ سے کسان سراپا احتجاج ہیں اور دہلی سے متصل سنگھو، ٹکری اور غازی آباد کی سرحد پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔

کسان حکومت کی جانب سے منظور کیے جانے والے تین زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی کسانوں کی جانب سے مذکورہ قوانین کے خلاف مظاہرے کیے جا رہے ہیں اور قوانین کی واپسی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

مظاہرین احتجاج کرتے ہوئے لال قلعہ میں بھی داخل ہو گئے۔
مظاہرین احتجاج کرتے ہوئے لال قلعہ میں بھی داخل ہو گئے۔

منگل کو پولیس نے کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کیں اور کئی اہم شاہراہوں کو ڈمپر، کرینیں اور دیگر بڑی گاڑیاں کھڑی کر کے بند کیا گیا۔ تاہم کسان تمام رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے دہلی میں داخل ہو گئے۔

دہلی میں کسانوں کے داخلے کے بعد صورتِ حال بے قابو ہونے کی وجہ سے کئی میٹرو اسٹیشنز بند کر دیے گئے۔

سیکڑوں کسان ٹریکٹروں کے ساتھ لال قلعہ کے اندر داخل ہوگئے جب کہ پولیس ہیڈ کوارٹر کے سامنے پرتشدد مظاہرین نے اہلکاروں پر ٹریکٹر چڑھانے کی بھی کوشش کی۔

انڈیا گیٹ سے چند کلومیٹر کی مسافت پر کسانوں نے پولیس کی ایک بس کو بھی ہائی جیک کیا جب کہ بعض پرتشدد مظاہرین نے اہلکاروں پر تلواروں سے حملہ کرنے کی کوشش بھی کی۔

عینی شاہدین کے مطابق دہلی پولیس جانی نقصان کے خدشے کی وجہ سے طاقت کے استعمال سے گریز کر رہی ہے جب کہ دہلی پولیس کے سینئر افسران کی جانب سے میڈیا نمائندوں سے درخواست کی جا رہی ہے کہ وہ کسانوں سے امن قائم رکھنے کی اپیل کریں۔

کسانوں اور پولیس کے درمیان معاہدہ

منگل کو کسانوں کی ریلی سے قبل دہلی پولیس اور کسان رہنماؤں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے مطابق کسانوں کو یومِ جمہوریہ کی پریڈ ختم ہونے کے بعد دن بارہ بجے ٹریکٹر ریلی نکالنا تھی۔ تاہم کئی مقامات پر کسانوں نے صبح آٹھ بجے ہی ریلی نکال کر دہلی کی طرف سفر شروع کیا۔

معاہدے کے مطابق کسانوں کو ریلی کے لیے دہلی سے باہر چار سے پانچ روٹ دیے گئے تھے جسے ‘آوٹر رنگ روڈ’ کہتے ہیں، کسانوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ اس روٹ سے آگے نہیں بڑھیں گے تاہم کسان دہلی میں داخل ہو گئے۔

کسان رہنماؤں نے ٹریکٹر ریلی کے لیے رہنما ہدایات جاری کی تھیں اور انہیں کہا تھا کہ وہ ان ہدایات کی خلاف ورزی نہ کریں۔

لیکن کسان مظاہرین جو کہ ہزاروں ٹریکٹروں پر سوار ہیں، نے ہدایات کی خلاف ورزی کی اور طے شدے راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیا۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر کسان ‘لوٹین زون’ میں پہنچ گئے جہاں وزرا اور ارکانِ پارلیمنٹ کی رہائش گاہیں ہیں، تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس وقت پورا دار الحکو مت کسانوں کے قبضے میں ہے اور کسانوں کی جانب سے ‘انڈیا گیٹ’ پر دھرنا دیے جانے کا خدشہ ہے۔ اگر ایسا ہوا تو صورتِ حال مزید سنگین ہو جائے گی۔

یاد رہے کہ انڈیا گیٹ کے اطراف دھرنا دینے پر پابندی ہے۔

ذرائع کے مطابق انڈیا گیٹ پر ہونے والی پریڈ کے تحفظ کے لیے سیکیورٹی فورسز کے 25 ہزار جوان تعینات تھے جنہیں اب امن و امان کے قیام کے لیے متاثرہ علاقوں میں روانہ کر دیا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa