حکومتیں اور لوگ


جب سوویت فوج افغانستان میں آئی تو افغانوں نے غیر ملکی تسلط کے خلاف لڑنا شروع کر دیا۔ لوگ مہاجر ہو کر پاکستان آنے لگے تو امریکہ کو موقع مل گیا۔ بزعم خود کمیونسٹ خود کو ملحد کہنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ اس کے برعکس امریکہ کے ڈالر تک پر لکھا ہوا ہے ”ہمارا خدا پر یقین ہے“۔

امریکیوں نے اپنے پاکستانی اتحادیوں کی مدد سے ”جہاد“ متعارف کروایا کیونکہ سوویت یونین والے ”کافر“ تھے جبکہ امریکی اور دیگر مغربی ملکوں کے لوگ اہل کتاب چاہے مشرک ہی کیوں نہ تھے، ایسے میں مسلمانوں کو وہ اپنے حلیف لگے۔ یہ سلسلہ چل نکلا، سوویت یونین کی تحلیل میں افغانستان کی جنگ نے ویسا ہی کردار ادا کیا جیسا دوسری جنگ عظیم نے نو آبادیات کے خاتمے کے لیے یا پہلی جنگ عظیم نے روس میں اکتوبر انقلاب کے ضمن میں۔

ایک طرف سوویت حکام ملحد تھے ، دوسری جانب روس کے مسلمانوں کو انقلاب اکتوبر سے بہت زیادہ امیدیں تھیں چونکہ سوویت پالیسی کے مطابق سوویت یونین ( جو شروع میں روس، یوکرین، بیلا روس پر ہی مشتمل تھے) میں بسنے والی قوموں اور مختلف مذاہب کو آزادی دینے کی بات کر رہے تھے۔ سوویت نیشنل کمیٹی فار نیشنز نے ”روس اور مشرق کے تمام محنت کش مسلمانوں کے نام“ کے عنوان سے اعلان کیا تھا کہ: ”روس کے مسلمانو! آج سے آپ کا عقیدہ و رسوم، آپ کے قومی و مذہبی اثاثے آزاد کیے جاتے ہیں جن سے کسی کا واسطہ نہیں ہو گا۔ اپنی قومی زندگی کو آزادی کے ساتھ بلارکاوٹ استوار کریں۔ آپ کو اس کا حق حاصل ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ کا حق جیسے روس کی تمام دوسری قوموں کا حق انقلاب اور اس کے تمام نمائندوں سویت مزدور، فوجی اور کسان نمائندوں کی طاقت کو برقرار رکھتا ہے۔ اس انقلاب اور اس کی با اختیار حکومت کا ساتھ دیں۔”

ترکی میں انگریز نے خلافت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ ہندوستان اور ملحق افغانستان میں ”تحریک خلافت“ شروع ہو گئی تھی جسے انگریز حکام نے سختی سے دبانے کی کوشش کی تھی۔ 30 جولائی 1920 کو ماسکو کی جامع مسجد میں دیے گئے اپنے ایک خطبے میں مفتی گلیم (علیم) جان برودی نے کہا تھا: ”اس وقت ساری دنیا کے مسلمان استنبول پر انگریزوں کے غلبے کی وجہ سے بے حد بے چین ہیں۔ عالم خلافت کی توہین کی گئی ہے، پوری اسلامی دنیا کو بے عزت کیا گیا ہے۔ انگریزوں کی حکمرانی سے ترکی کو کون چھڑا سکتا ہے، اسے کون آزاد کرائے گا؟ سوویتس (کونسلوں ) سے ایسا کیے جانے کی توقع ہے اور انہوں نے اس ارادے کا اظہار بھی کیا ہے کہ پورے مشرق کو انگریزوں کے پنچے سے رہائی دلوائیں گے۔ اس کوشش میں مسلمانوں کو سوویتس کے ساتھ ہونا چاہیے“ ۔

1920 کے عشرے میں ہی سوویت یونین میں ایک نعرہ متعارف کروایا گیا تھا۔ آپ یہ نعرہ سن کر حیرت میں ڈوب جائیں گے، نعرہ یوں تھا، ”سوویت حکومت، شریعت اور قوموں کا اتحاد، زندہ باد“ ۔ یہ نعرہ یونہی نہیں تھا بلکہ یہ مسلمانوں کا ”استعمال“ تھا۔ سوویت حکام کو ملک کے اندر اور بیرون ملک مسلمانوں کی حمایت شدت سے درکار تھی۔ ایک طرف خلافت ختم ہو چکی تھی دوسری جانب حجاز پر قابض ہونے والا ابن سعود دوسرے علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل کیے جا رہا تھا۔

1924 میں کریم حاکیموو کی سربراہی میں سوویت سفارتی وفد حجاز گیا تھا۔ یاد رہے سووویت یونین سلطنت سعودی عرب کو تسلیم کرنے اور مادی امداد فراہم کرنے والا پہلا ملک تھا۔ سوویت یونین کے امور خارجہ کے سربراہ چیچیرین نے وفد کو فریضہ سونپا تھا کہ ابن سعود کی حمایت کریں حتٰی کہ ”ہمارے مسلمانوں کی جانب سے بھی“ ۔

جون جولائی 1926 کو مکہ میں کل عالم مسلمان کانگریس کا انعقاد ہوا جس میں ابن سعود نے شرط رکھی کہ انہیں ”دو مقدس مقامات کا محافظ“ تسلیم کر لیا جائے۔ کانگریس دو حصوں میں بٹ گئی تھی۔ ہندوستانی اور افغان ایک طرف تھے جبکہ باقی ملک کے وفود ایک جانب۔ پہلے چاہتے تھے کہ خلافت کی تجدید کی جائے جبکہ دوسرے ابن سعود کی بات مانتے تھے۔ ایسے میں سوویت یونین کے وفد نے کلیدی کردار ادا کیا تھا جس کے اراکین کو سوویت خفیہ ایجنسی نے (تب تک کے جی بی نہیں تھی) بہت چھان بین کے بعد چن کر بھجوایا تھا کہ وہ ابن سعود کو زیادہ سے زیادہ حمایت دلوائیں۔ جب ابن سعود کی بات مان لی گئی، خلافت یکسر محو کر دی گئی تو سوویت خفیہ ایجنسی نے رپورٹ دی تھی ”سوویت مسلمانوں کے وفد نے اپنا مشن انتہائی اطمینان بخش طریقے سے پورا کیا“ ۔

افغانستان میں سوویت پروردہ حکومت کے خاتمے کے بعد آنے والی طالبان کی حکومت پر امریکہ نے اپنے ایک سابق حلیف اسامہ بن لادن کو پناہ دیے جانے کا الزام لگا کر اور مشرق وسطیٰ میں عراقی آمر صدام حسین پر کثیر الہلاکت ہتھیار بنانے کا الزام لگا کر یکے بعد دیگرے حملے کیے اور ان ملکوں کی مقدر کو تاراج کیا۔ پھر بہار عرب نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ملکوں میں خزاں طاری کرنا شروع کی جس کے بعد نوجوان لوگ بلکہ کچھ خاندان کے خاندان جان پر کھیل کر لاکھوں کی تعداد میں یورپ میں داخل ہوئے۔ وہ نوجوان جن کا امن، آشتی، خوشحالی اور انسان دوستی سے تعارف ہی نہیں ہو سکا ہے۔

ملکوں یعنی حکومتوں کا، چاہے کوئی بھی نظام کیوں نہ ہو ، دنیا بھر کے عوام سے متعلق ان کا کوئی فریضہ نہیں ہوتا۔ ان کے تعلق کی بنیاد کے دو پہلو ہوتے ہیں: اپنے ملک میں سٹیٹس کو کو بحال رکھنا اور کوشش کرنا کہ اپنے ملک میں لوگوں کی زندگی میں کسی حد تک بہتری آئے، دوسرے ملکوں کے لوگ جائیں بھاڑ میں ، البتہ ان کی اعانت سے اپنا جو کام نکل سکتا ہے جو لامحالہ جغرافیائی سیاسی مفادات ہی ہوتے ہیں، وہ حاصل کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا جائے۔

آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ حکومتیں کہنے کو تو عوام کی طاقت سے بنائی جاتی ہیں لیکن ان کا عوام کے مفادات سے دور پار کا واسطہ نہیں ہوتا تاوقتیکہ جمہوری نظام اس قدر مضبوط نہ ہو جائے جس پر عوام کی کی رسائی اور گرفت ویسی ہی ہو جیسی سیاسی اشرافیہ اور حکومتوں کی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).