دھنی پتے بارش کا پانی پیتے ہیں


میں آج اپنے پینٹنگ کے نئے سٹوڈیو اور سٹڈی کی گڈ مڈ ہوئی کتابوں کی آرائش میں لگی تھی کہ انگریزی کی ایک پرانی شاعری کی کتاب ہاتھ لگی۔ اس میں ڈبلیو۔ ایچ۔ ڈیوس کی نظم ”The Rain“ بہت دیر بعد دوبارہ پڑھی۔ جی میں اک خیال آیا کہ کیوں نہ اس نظم اور اس کے شاعر پر بات کی جائے۔ ڈیوس بیچارہ تقریباً اپنی پوری زندگی بنجاروں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتا رہا۔ مگر نہ تو اس کی غربت گئی اور نہ آوارگی۔

ڈیوس برطانیہ میں اس وقت پیدا ہوا جب سماج میں صنعتی انقلاب ایک معنی خیز تبدیلی لایا۔ جب معاشرے میں بیروز گاری، ناجائز استفادے، غربت اور دیگر مسائل پیدا ہوئے تو بہت سے لوگوں نے شہروں کو نقل مکانی کی۔ اس وقت امرا اور غربا کے بیچ بہت واضح فرق پیدا ہونا شروع ہوا۔ ڈبلیو ایچ ڈیوس نے بھی اپنا گھر چھوڑ دیا اور بدقسمتی سے ایک حادثے میں اپنی ایک ٹانگ گنوا بیٹھا۔ اس نے تب شاعری کرنا شروع کی لیکن ابتدا میں لوگوں نے اسے قبول نہ کیا۔

W.H Davies

جس نظم کے بارے میں میں بات کرنا چاہ رہی ہوں ، وہ شاعر کی سماج کے پامال اور روندے ہوئے غریب طبقے کے بارے میں ہے۔ ڈیوس کا باپ ایک غریب لوہار تھا۔ ڈیوس تین برس کا تھا تو اس کا باپ چل بسا۔ سکول کے بعد وہ آہنی آلات بناتا اور بیچتا تھا۔ لیکن اسے وہ کام ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ ایسے میں وہ گھر سے آوارگی میں نکل پڑا۔ زندگی کے ٹیڑھے میڑھے راستوں پر چلتے ہوئے بہت سے کرداروں سے اس کا واسطہ بھی پڑا۔ جو کام ملتا رہا وہ کرتا رہا۔

حرام طریقہ سے کمائے ہوئے اور دھوکے سے جمع کیے گئے مال سے اس نے فائدہ بھی اٹھایا۔ گھومتے پھرتے جب وہ لندن پہنچا تو اس کی زندگی میں وہ ایک ایسا موڑ تھا جہاں سے تبدیلی آئی۔ اس نے اخبار میں ایک عجب کہانی پڑھی کہ دنیا میں ایک ایسا مقام ہے جہاں سے دولت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ وہ جگہ تھی کینیڈا وہ قسمت آزمانے اونٹیریو (Ontario) چلا گیا۔ وہیں اس کی زندگی کا اندوہ ناک واقعہ پیش آیا۔

اس کا داہنا پاؤں ریل کے پہیوں کے نیچے آ کر کچلا گیا۔گھٹنے کے نیچے سے اس کی ٹانگ کو کاٹ دیا گیا۔ بعد ازاں وہ لکڑی کی مصنوعی ٹانگ لگانے لگا۔ اس دلخراش واقعے نے اسے شاعر بنا دیا۔ ڈیوس نے اس حادثے کو انتہائی صبر سے برداشت کیا۔ یہ بے چارگی اس کی زندگی میں تلخیاں لے کر آئی۔ لیکن وہ دلیری سے خود کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہوئے اس صدمے کو جھیلتا رہا۔ وہ کچھ مہینوں بعد اپنے گھر واپس آ گیا اور اس کی ساری آشفتہ سری نکل گئی۔ اب اس کی ساری مہم جوئیاں اس کی تلاش بسیار پر نہیں بلکہ حالات پر مبنی ہونے لگیں۔

ڈیوس کی معذوری نے بیک وقت اس کے اندر دو گرفتگی یعنی محبت اور نفرت کے جذبات پیدا کر دیے۔ اسی واسطے شاعری میں فطرت اور غربت اس کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ ڈیوس کی نظم بارش ایک علامتی معانی رکھتی ہے۔ نظم کے مرکزی خیال میں معاشرے میں عدم مساوات کا ذکر ملتا ہے۔ ڈیوس کہتا ہے کہ درختوں کے اوپر والے پتے پہلے ہی بارش کا پانی پی لیتے ہیں۔ بعد میں وہ قطرے ایک ایک کر کے نیچے والے پتوں تک بچا کھچا پانی پہنچاتے ہیں۔

ڈیوس نے استعارہ استعمال کیا ہے کہ دنیا میں امیر لوگ سنہری موقع پہلے حاصل کر لیتے ہیں، جو کچھ بچ جاتا ہے وہ غریبوں کو تھوڑا تھوڑا کر کے دیتے ہیں لیکن ڈیوس پر امید بھی ہے کہ سماج میں برابری ضرور ہو گی بالکل سورج کی روشنی کی طرح۔ ڈیوس اپنے لفظوں سے بارش اور دھوپ کے ایک خوبصورت منظر میں رنگ بھرتا ہے۔ وہ کہتا ہے بارش قدرت کا ایک حیرت انگیز مظہر ہے۔ بارش فطرت کے گردوپیش کے مناظر کو عارضی طور پر ایک طلسم عطا کرتی ہے۔

یوں لگتا ہے کہ درخت کے اوپر والے گھنے پتے بکثرت بارش وصول کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ جی بھر کر پانی پیتے جا رہے ہوں۔ جبکہ درخت کے نچلے چھدرے پتوں کا انحصار اوپر والے پتوں پر ہوتا ہے۔ اوپر والے پتے اپنا کچھ پانی انہیں قطرہ قطرہ دیتے جاتے ہیں۔ برستی بارش ایک ایسا سنگیت پیدا کرتی ہے جو سننے میں بہت سریلا ہوتا ہے۔ برستی بارش کی جھن جھن کی مدھر آوازیں کانوں کو بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ ڈیوس ایک حساس دل کے طور پر غریبوں کی خستہ حالی کا مشاہدہ کرتا ہے۔

ڈیوس کہتا ہے اوپر کے گھنے پتے معاشرے کے وہ امیر لوگ ہیں جو خود غرض ہیں۔ غریب کو بھیک میں ایک کے بعد ایک سکہ دیتے ہیں۔ وہ کہتا ہے نچلے مہین پتے غریب لوگوں کی طرح امیروں پر انحصار کرتے ہیں۔ پھر بارش کے بعد جب سورج نکل آتا ہے تو پوری آب و تاب سے چمکتا ہے۔ سورج ہر قطرے اور ہر پتے کو برابر روشن کر دیتا ہے۔ سورج کی گرم روشنی نہ تو اوپر کے پتوں پر زیادہ پڑتی ہے اور نہ ہی نیچے کے پتوں پر کم۔ آئیے اب ڈیوس کی نظم کا ترجمہ پڑھتے ہیں۔

میں سنتا ہوں پتے بارش کا پانی پیتے ہیں
میں سنتا ہوں دھنی پتے ہیں جو اوپر
تلے کے ناداروں کو دے رہے ہیں
بوند کے بعد اک بوند (ٹپ ٹپ ٹپ)
پھوار کی جھن جھن کی ہے مدھر آواز
یہ ہرے شاداب پیتے بارش کا پانی پیتے ہیں
پھر سورج جب اگ آئے گا
اس کے پیچھے برستا پانی تھم جائے گا
سارا سماں عجب روشنی سے بھر جائے گا
ہر گہرے سلیٹی گول سے قطرے میں
اجیالی دھوپ کے چمکنے کی امید ہو گی
اس سمے یہ حسین نظارہ دل کو موہ لے جائے گا

اگر اس نظم میں آج بھی ہمارے معاشرے سے کوئی مماثلت ہو گی تو وہ آپ کی اپنی اختراع ہے۔ ورنہ تو ہم آج ایک آزاد جمہوریت میں رہ رہے ہیں۔ ذرا غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر سیاست دان بالآخر حکمران بن جاتا ہے۔ وہ ہمیں جمہوریت کی بانسری ہی تو سناتا ہے۔ یہ الگ بات کہ ہم وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ بھلا عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کے نظریے میں خرابی کیا ہے؟ زندگی کو سیاسی، معاشرتی، معاشی، سماجی، اخلاقی کسی بھی پہلو پر رکھیں ، اگر انصاف مہیا نہیں ہو گا تو کاہے کی جمہوریت!

میرے نزدیک جمہوریت میں سب سے پہلے معاشی برابری آتی ہے۔ فکر معاش ہی اخلاقی پستی و ترقی کا باعث ہے۔ ایک عمدہ اقتصادیات و معاشرت نہایت عمدہ فلسفہ ہے۔ ہم اپنی غلطیوں اور خود غرضیوں کا بوجھ بہت سہولت سے دوسروں پر ڈال دینے کے عادی ہیں۔ دنیا کے سیاسی مدبرین اور مفکرین کہتے ہیں کہ حقیقی جمہوریت کہیں نہیں ہے۔ سچ ہی تو ہے کشمیر اور فلسطین اور مشرق وسطیٰ کی تباہی و بربادی جمہوریت کی بربادی کا کھلم کھلا نشان ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن اور دیگر عالمی تنظیمیں جائزے کیوں نہیں لیتیں؟ کیوں کہ ان سب کو بارش کا اپنا پانی پینے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ ان تمام طاقت ور لوگوں کی اپنی ہوس، اپنا ہوکا ہی پورا نہیں ہوتا۔ ڈیوس کو شاید اوپر آسمانوں میں پتہ چل گیا ہو کہ آج جدید دور میں بھی امیر دنیا میں ہر موقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ غریبوں تک پیسے کی رسائی ہو ہی نہیں پاتی۔ شاعر لوگوں کی بس امیدیں ہی رہ جاتی ہیں کہ مستقبل میں سماج میں برابری ہو گی وغیرہ۔

امیر و غریب کو اپنا واجب حصہ ملے گا۔ جاگیر دار، صنعت کار اور دولت مند کے گٹھ جوڑ سے وجود میں آنے والا استعماری نظام ختم ہو گیا ہو گا۔ آج بھی دھن کی بارش ہوتی تو ضرور ہے لیکن امیروں اور غریبوں کے بیچ تناؤ ختم نہیں ہوا۔ مگر بیچارے ڈیوس کو کیا پتہ کہ ابھی تک اس جمہوریت اور انسانی بھلائی کا جامع نظام بن ہی نہیں سکا۔ غریبوں کی کاوش پیہم کے باوجود آج بھی بارش کا پانی اوپر والے ہی پی جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).