نفسیات دان ڈاکٹر اظہر حسین کی خودکشی ایک معما


ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں پر ذہنی بیماریوں کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا، بظاہر ایک خوش و خرم نظر آنے والا انسان نجانے کتنی الجھنوں کا شکار ہوتا ہے اور یہی الجھنیں اس کی ذہنی صحت کا ستیا ناس کر دیتی ہیں جبکہ کڑوی حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کو ہنسانے والے اور دوسروں کی زندگیوں میں امید کا دیا جلانے والوں کی اپنی زندگی بہت ڈسٹرب ہوتی ہے اور وہ تنہائی میں بہت زیادہ دکھی ہو جاتے ہیں۔ وہ اوروں کو جینے کا قرینہ سکھانے کے لیے ایک آرٹیفیشل ”سمائلنگ پرسونا“ پہن کر مسیحائی کرتے رہتے ہیں لیکن دوسروں کی نظروں سے اوجھل تنہائی میں جی بھر کے روتے ہیں۔

بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک نے اپنی الگ ہی دنیا بسائی ہوئی ہے اور وہ اسی محدود سی دنیا میں اتنا محو ہو جاتے ہیں کہ اپنی ذات کے لیے بھی وقت نہیں بچا پاتے، اوروں کے لیے کیا وقت نکالیں گے۔ یہی کمیونیکیشن گیپ چاہے معاشرتی سطح پر ہو یا ایک فیملی کے افراد کے درمیان ہو، بہت سارے مسائل کو جنم دیتا ہے جیسا کہ بلا وجہ کی نفرتیں، لڑائیاں اور شکوک و شبہات جو کہ بڑھتے بڑھتے اتنے زیادہ ہو جاتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کورٹ کچہری اور بعض اوقات قتل اور خود کشی ہوتا ہے۔

جن رشتوں میں لالچ سرایت کر جاتا ہے، وہ آہستہ آہستہ ریت کی طرح بکھر جاتے ہیں حالانکہ ان تعلقات اور رشتوں کو بات چیت کی بنیاد پر سنبھالا جاسکتا ہے۔ کچھ دن پہلے ایک خوفناک خبر آنکھوں سے گزری جس نے دہلا کر رکھ دیا۔ 66 سالہ ڈاکٹر اظہر جو نشتر ہسپتال میں ”پروفیسر آف سائیکاٹری“ تھے اور تقریباً 6 سال پہلے ریٹائر ہو کر اپنا ذاتی کلینک چلا رہے تھے۔ انہوں نے پہلے اپنی نوجوان ڈاکٹر بیٹی علیزہ کو شوٹ کیا اور بعد میں خود کو شوٹ کر کے خود کشی کر لی۔

ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق یہ کوئی خاندانی جھگڑا تھا جبکہ فیملی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر اظہر بہت زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔ ڈاکٹر اظہر کی بیوی بشریٰ کا کہنا ہے کہ میرے شوہر انگزائیٹی کا شکار تھے اور انہوں نے خود کو 4 یا 5 ماہ تک ایک کمرے میں قید بھی کر لیا تھا۔

ڈاکٹر اظہر کے دوستوں کے مطابق وہ ہمیشہ مسکرانے والا انسان تھا اور اتنا بڑا حادثہ کیسے پیش آ گیا، وہ جاننے سے قاصر ہیں۔ سائیکاٹرسٹ اور نفسیات دانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ذہن شناس ہوتے ہیں اور مختلف ذہنی مریضوں کا علاج کر کے ان کی مردہ زندگی میں امید کی رمق پیدا کرتے ہیں اور نہ جانے کتنے مریضوں کو خود کشی جیسے گھناؤنے عمل سے بچاتے ہیں مگر ایک ذہن شناس آدمی خود زندگی سے کیسے ہار سکتا ہے؟

اوروں کو بچانے والا خود اپنی جان کیسے لے سکتا ہے؟ دوسروں کی زندگیوں کا چراغ روشن کرنے والا اپنی زندگی کا چراغ کیسے گل کر سکتا ہے؟ دوسروں کو مسکراہٹ سے منور کرنے والا خود اتنا دل برداشتہ کیسے ہو سکتا ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن مریضوں کو ڈاکٹر اظہر نے نئی زندگی عطاء کی تھی جب وہ ان کا آخری دیدار کریں گے تو ان پر کیا بیتے گی یا جن مریضوں کے کانوں میں انہوں نے زندگی کے نغموں کا رنگ گھولا تھا، جب ان کے کانوں تک اس المناک حادثے کی خبر پہنچے گی تو وہ کیسے ری ایکٹ کریں گے؟

کہا جاتا ہے کہ کسی عام بندے کے مرنے سے معاشرے میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا جبکہ اگر کوئی عالم فاضل شخص دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کی کمی صدیوں میں پوری ہوتی ہے مگر یہاں تو مسیحا ہی روٹھ گیا۔ اب اسی مسیحائی پر بہت سے سوال اٹھیں گے اور برسوں اس المناک حادثہ پر کہانیاں بنیں گیں اور مختلف مفروضے قائم ہوں گے یا یہ خود کشی ایک معما ہی رہ جائے گی۔

انسانی زندگی اور اس سے جڑی ہوئی حقیقتیں بہت ہی پراسرار اور پیچیدہ ہوتی ہیں اور بعض اوقات ان الجھنوں کو ڈی کوڈ کرنے والے بھی اس کی الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں، تاریخ کے دامن میں بھی ایسی کئی خودکشیاں محفوظ ہیں جو معما ہی رہیں۔

ان شخصیات میں سلوا پلاتھ، ورجینیا وولف اور ارنیسٹ ہیمنگ وے شامل تھے۔ انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیسے بڑے بڑے دماغ بھی ایسی پر اسرار ذہنی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن کا نتیجہ انتہائی بھیانک ہوتا ہے۔ یہ وہ بڑے اور عالی شان دماغ تھے جنہوں نے ادب کے دامن کو اپنے ادبی کاموں سے مزید وسعت دی تھی مگر خود کشی جیسے گھناؤنے عمل سے نہ بچ سکے۔ ہائے! زندگی کی پراسراریت اور تہہ بہ تہہ چھپی ہوئی پیچیدگیاں کیا کیا رنگ دکھاتی ہیں اور ایک معاشرے میں اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ اس کے مسیحا ہی مایوس ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).