بھارتی کشمیر کے 30 سے زائد میڈیا اداروں کے سرکاری اشتہارات بند


نئی دہلی حکومت نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے 34 صحافتی اداروں کے سرکاری اشتہارات روک دیے ہیں جس سے یہ ادارے مالی بحران کا شکار ہو رہے ہیں۔

رواں ماہ کشمیر کے شعبۂ اطلاعات نے 10 اخبارات اور 24 اشاعتی اداروں کا نام اس فہرست سے خارج کر دیا ہے جنہیں بھارتی حکومت سرکاری اشتہارات دیتی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ان اخبارات کی مناسب سرکولیشن نہ ہونے اور مئی میں نافذ کردہ میڈیا پالیسی کی خلاف ورزی پر اشتہارات روکے گئے ہیں۔

نئی میڈیا پالیسی کے تحت ریجنل انفارمیشن ڈائریکٹر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ حقائق مسخ کرنے، میڈیا گائیڈ لائنز پر عمل درآمد میں ناکامی اور کم سے کم سرکولیشن کی شرائط پر پورا نہ اُترنے والے صحافتی اداروں کے اشتہارات بند کر سکتا ہے۔

میڈیا پالیسی ‘فیک نیوز’ کے سدِ باب، بھارتی حکومت کے منصوبوں سے متعلق آگاہی اور بھارت کی خود مختاری کو نقصان پہنچانے والے پروپیگنڈے سے نمٹنے کے لیے گزشتہ سال متعارف کرائی گئی تھی۔

مقامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سرکاری اشتہارات کی بندش سے صحافتی ادارے مالی بحران کا شکار ہوں گے جس سے لامحالہ صحافیوں کا روزگار بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ سرکاری اشتہارات بند کر کے بھارت کی حکومت بھارتی کشمیر کے صحافتی اداروں پر دباؤ ڈال رہی تاکہ وہ ریاستی پالیسی کے برخلاف خبریں دینے سے گریز کریں۔

صحافیوں کے حقوق کی تنظیم ‘رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز’ (آر ایس ایف) کے مطابق بھارتی کشمیر میں معلومات تک رسائی پر قدغن لگانے جیسے اقدامات سے گزشتہ سال آزادیٔ صحافت پر یقین رکھنے والے ممالک کی درجہ بندی میں بھارت کی تیزی سے تنزلی ہوئی ہے۔

وائس آف امریکہ نے مؤقف جاننے کے لیے بھارتی کشمیر کے ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز کو ای میل بھی بھجوائی جس کا جواب موصول نہیں ہوا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa