پیمرا کو مزید اختیارات دینے کا بل سینیٹ سے مسترد، میڈیا وررکز کا فائدہ یا نقصان؟


پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا سینیٹ نے حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے اس بل کو مسترد کر دیا ہے جس کے تحت ملک میں پرائیویٹ میڈیا چینلز کو ریگولیٹ کرنے کے ادارے پیمرا کو مزید اختیارات تفویض کیے جا رہے تھے۔

اس بل کے ذریعے پیمرا کو نجی ٹی وی چینلز اور اس کے ملازمین کے درمیان ہونے والے معاہدوں سے متعلق شکایات سننے کا اختیار مل جاتا۔ واضح رہے کہ یہ بل دوسری بار ایوان سے مسترد ہوا ہے۔

پیر کو سینٹ اجلاس میں حکومتی بینچز نے اس بل کو ملک میں انسانی حقوق کی بحالی اور میڈیا کی آزادی کو تقویت دینے سے تعبیر کیا تھا۔

بل پیش کرتے ہوئے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے چیئرمین سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد پیمرا کو وہ اختیار دینا ہے جس سے وہ میڈیا چینلز کے ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹس کو اس بات کو پابند بنا سکے کہ میڈیا ورکرز کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کو ہر صورت پورا کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے معلوم کیا جا سکے گا کہ کیا نجی میڈیا ادارے ْتنخواہیں وقت پر دے رہے ہیں یا نہیں اور اگر ایسا نہیں کیا جا رہا تو میڈیا ورکرز کی شنوائی کی جا سکے۔

فیصل جاوید خان نے اس دلیل کو رد کیا کہ پیمرا کو اس بارے میں بااختیار بنانے سے آزادیٔ صحافت پر کوئی اثر پڑے گا۔

اُن کے بقول اس کا فائدہ ان میڈیا ورکرز اور صحافیوں کو ہو گا جنہیں اکثر تنخواہیں جان بوجھ کر ادا نہیں کی جاتیں یا ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کا سامنا رہتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ وہ اس مقصد کے لیے دوبارہ بل لانے اور کمیٹی کے تمام اراکین اور اسٹیک ہولڈرز سے دوبارہ وسیع مشاورت کے لیے بھی تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے کوئی ایک بھی تیکنیکی وجہ نہیں بتائی گئی جو بل کی مخالفت کا باعث ہو۔

سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد ہے کہ ڈرائیور سے لے کر صحافی تک سب کے حقوق کا تحفظ ممکن ہو تاکہ اگر ان کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں یا ان کے ساتھ ہونے والے کنٹریکٹ کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ان کی کہیں تو شنوائی ہو۔

پاکستان میں خواتین صحافیوں کو ہراساں کیوں کیا جاتا ہے؟

فیصل جاوید نے دعویٰ کیا کہ اس بل پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی، اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھی بل بحث و مباحثے کے بعد متفقہ طور پر منظور کر کے ہی ایوان میں لایا گیا ہے۔

حکومتی بینچز کا مؤقف تھا کہ انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی تھی، مزدوروں کا حق مارا جا رہا ہے اور اس لیے میڈیا مالکان کو من مانی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اپوزیشن نے مخالفت کیوں کی؟

اپوزیشن نے اس بل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ بل آزادیٔ اظہار کا گلا گھوٹنے کی ایک سازش کا پیش خیمہ بنے گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی شیری رحمان کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے میڈیا مالکان ورکرز کو مراعات تو دور کی بات ماہانہ تنخواہیں بھی ادا نہیں کرتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن میڈیا ورکرز اور صحافیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی یقینی بنانے کے لیے قانونی تحفظ دلوانے کی حمایت کرتی ہے۔ تاہم ماضی میں پیمرا کو بااختیار بنانے کے اچھے نتائج سامنے نہیں آئے۔

اُن کے بقول پیمرا کے ذریعے ٹی وی چینلز اور صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا اور ان کے کام کے ماحول کو یکسر تباہ کر دیا گیا۔

شیری رحمان کے مطابق پیمرا سینسر شپ کا راستہ بن چکا ہے اور جب اتنی بڑی ریگولیٹری اتھارٹی کو اس قدر بااختیار بنا دیں کہ وہ نجی اداروں کے ملازمین کے ساتھ کیے جانے والے کنٹریکٹ میں مداخلت کرے تو یہ اختیار نئے حربے کے طور پر استعمال ہو گا۔

پاکستانی صحافی روایتی میڈیا سے ہٹ کر غیر روایتی میڈیا کی طرف کیوں جا رہے ہیں؟

شیری رحمان کا کہنا ہے کہ میڈیا چینلز کے پاس پہلے ہی بہت کم اسپیس رہ گئی ہے، آزادی صحافت پہلے ہی بے حد شکنجوں میں ہے اور اس پر انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے سینیٹ میں تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے پی ایف یو جے، پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن سے بات کی جائے جس پر اپوزیشن اس بل پر حکومت سے تعاون کے لیے تیار ہے۔

سینیٹر شیری رحمان نے بل پر حکومتی نیت کو تو ٹھیک قرار دیا کہ مگر حیرت کا اظہار کیا کہ اگر حکومت واقعی سنجیدہ تھی تو اس پر پریس کونسل، پی ایف یو جے اور پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن سے مشاورت کیوں نہیں کی گئی۔

اسی طرح سابق چئیرمین سنییٹ میاں رضا ربانی نے بل کی منظوری کے لیے استعمال کیے گئے طریقۂ کار پرسوالات اٹھائے۔ سینیٹر میاں رضا ربانی کا کہنا ہے کہ پیمرا کو تمام حکومتوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے چینلز کو بند کیا۔

اُن کے بقول چینلز کے بازو مروڑے گئے، پیمرا کو اس قدر بڑا ہتھیار دینے سے ملک میں آزادیٔ صحافت پر مزید قدغن لگ جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی خفیہ ٹیلی فون کالز کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ کس موضوع پر پروگرام کرنا ہے یا نہیں کرنا اور اگر یہ ہتھیار بھی پیمرا کے پاس ہو گا تو یہ مناسب نہیں ہو گا۔

تاہم ان کے خیال میں بل کے بنیادی خیال سے وہ مکمل اتفاق کرتے ہیں۔

اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا کہ جس طرح نیب کو پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے تو اسی طرح پیمرا کو یہ اختیار دے کر اسے پرائیویٹ میڈیا کے معاملات میں مداخلت کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔

نوجوانوں کو ڈیجیٹل میڈیا کی تربیت دینے والی خاتون صحافی

‘حکومت موجودہ قوانین پر عمل کرائے’

دوسری جانب پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزاد ذوالفقار کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس اس قانون کے منظور نہ کیے جانے کے باوجود بھی ایسے اختیار موجود ہیں جن سے اگر وہ چاہے تو میڈیا ورکرز کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔

اُن کے بقول اس مقصد کے لیے لیبر قوانین اور انسپکشن کے لیے لیبر انسپکٹرز بھی موجود ہیں جو اس کا مکمل اختیار رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایک جانب نجی ٹی وی چینلز کو اشتہارات دے کر انہیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتی ہے۔ منظورِ نظر ٹی وی چینلز کو نوازا جاتا ہے اور حکومتی لائن پر نہ چلنے والے اداروں کے خلاف پیمرا سخت کارروائی کرتی ہے اوربعض اوقات تو ایک اینکر کی سزا پورے چینل کو دے دی جاتی ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت میڈیا ورکرز کو خوش کرنے کے نعرے کی آڑ میں کچھ اور عزائم کی تکمیل کرنا چاہتی ہے۔ اگر اچھی نیت بھی ہے تو اس مقصد کے لیے ایسی کمیٹی کیوں نہیں بنائی گئی جس میں سول سوسائٹی، میڈیا ورکرز، صحافی، وکلا اور دیگر لوگ موجود ہوتے۔

پاکستان میں میڈیا کی آزادی چند سالوں میں تیزی سے کم ہوتی چلی آئی ہے اور گزشتہ سال پاکستان ، ورلڈ میڈیا فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک کی فہرست میں تین درجے نیچے آ کر145 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔

تاہم حکومت اس بارے میں کسی بھی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ پابندیوں کے نفاذ کی سختی سے تردید اور اس کے ساتھ میڈیا کی آزادی کا احترام یقینی بنانے کا دعویٰ کرتی ہے۔

دوسری جانب میڈیا ورکرز کو بے روزگاری اور تنخواہوں میں غیر معمولی تاخیر کا سامنا برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اداروں کا ضرورت سے زیادہ حکومتی اشتہارات پر انحصار اور کسی ٹھوس ماڈل کے بغیر چینل کا آغاز کرنا بھی اس بحران کی وجہ ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa