ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی: کچھ باتیں کچھ یادیں


فاروق بھائی کو اللہ نے بے شمار خوبیوں سے نواز رکھا تھا، اللہ کا فضل ہمیشہ ان کے ساتھ رہا اور وہ بڑے بڑے بحرانوں کے وقت خوش قسمت رہے اور محفوظ رہے۔

1972 میں وہ ایمرسن کالج ملتان میں ایف ایس سی کر رہے تھے کہ اچانک شدید بیمار ہو گئے، اتنے شدید کہ کئی بار بڑوں نے یہ سوچ کر کہ ان کا آخری وقت آن پہنچا ہے، سورہ یٰسین کی تلاوت شروع کر دی۔ خوش قسمت رہے کہ اللہ نے انہیں صحت یاب کیا اور اس کے بعد وہ 48 سال حیات رہے۔

والد صاحب گاؤں کے سکول میں استاد تھے۔ سکول کے پرائمری اور ہائی حصے انتظامی لحاظ سے الگ الگ تھے، لیکن دونوں حصے جغرافیائی اعتبار سے ایک ہی چار دیواری کے اندر تھے۔ والد صاحب ہائی حصہ میں تھے اور میں ان دنوں چوتھی یا پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ فاروق بھائی بھی اتفاقاً سکول میں موجود تھے۔ سکول کے ایک کمرے کی پوری کی پوری چھت ان کے اوپر گر گئی۔ والد صاحب کمرے کے باہر بیٹھے تھے۔ چالیس سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے، لیکن ابا جی کی درد بھری آواز مجھے آج بھی سنائی دے رہی ہے ”فاروق اندر ہے، فاروق اندر ہے۔“

ہماری کلاس تھوڑے فاصلے پر پرائمری حصے میں باہر ہی پلاٹ میں ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ وہاں سے سارا منظر نظر آ رہا تھا۔ ابا جی کی آواز سن کر سکول کے لڑکوں نے دروازہ توڑنا شروع کیا۔ ان میں رفیق وٹو مرحوم مجھے آج بھی زور لگاتا نظر آ رہا ہے۔ دروازہ ٹوٹا تو فاروق بھائی ایک ایسی چھت کے ملبے میں سراسیمہ اور محفوظ کھڑے تھے جس کی ایک اینٹ بھی چھت پر موجود نہیں تھی۔ سب کچھ زمین بوس ہو گیا تھا، لیکن وہ اس بار بھی خوش قسمت ثابت ہوئے اور اللہ نے انہیں محفوظ رکھا۔

اس کے بعد بھی چند ایک واقعات ایسے گزرے کہ وہ معجزاتی طور پر محفوظ رہے۔ انگلینڈ میں پی ایچ ڈی کے دوران وہ سیاحت کے لئے پیرس گئے تو ایک کار کی ہلکی سی ٹکر سے سڑک پر گر گئے، لیکن اللہ کے فضل سے وہ کسی بڑی چوٹ سے بچ گئے۔ وہ خواجہ فرید گورنمنٹ کالج رحیم یار خان میں لیکچرار تھے۔ ایک دن کالج کی بس ایک تفریحی دورے کے دوران کسی نہر کے پل سے ٹکرا گئی۔ یہاں بھی اللہ نے کسی بڑے حادثے سے محفوظ رکھا۔ وفات سے تقریباً دو ہفتے قبل کورونا وائرس کے حملے کا شکار ہو گئے، لیکن صحت یاب ہو گئے اور رزلٹ منفی ہو گیا۔

ان کی بیماریوں کے بعد خوش قسمتی سے صحت یاب ہونے کی پوری تاریخ ہمارے سامنے تھی۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ایک بار پھر وہ قسمت کے دھنی ثابت ہوئے ہیں اور ان کی صحت کو جو خطرہ لاحق ہوا تھا، ٹل گیا ہے۔ میں نے فون پر بات کرنا چاہی تو میسج کیا کہ موبائل کا سپیکر آن کر لو، نقاہت کی وجہ سے آواز ذرا کمزور ہے، سپیکر آن کرنے سے آواز کی کوالٹی بہتر ہو جائے گی۔ ان سے بات کر کے تسلی ہو گئی۔ اس کے بعد وہ نمونیہ کا شکار ہو گئے اور بہترین علاج کے باوجود اب کی بار خوش قسمت ثابت نہ ہوئے اور اللہ کا حکم آن پہنچا۔

ان کی طبیعت بے شک کافی خراب تھی، لیکن اس صورتحال کے لئے ہم پھر بھی تیار نہیں تھے۔ آئی سی یو میں بھی وہ اپنے قدموں پر چل کر گئے، موبائل اور عینک ہماری بھابی صاحبہ کے حوالے کر کے گئے کہ آکسیجن کا مسئلہ ہے، ٹھیک ہوتے ہی واپس آ جاؤں گا۔ وہ واپس آئے تو سہی لیکن جس طرح اپنے قدموں پر گئے تھے، ویسے نہ آ سکے۔ اللہ کی یہی مرضی تھی۔ انسان اس کی مرضی کے سامنے بے بس ہے۔

ان کی ساری زندگی میں محنت کے ساتھ ساتھ خوش قسمتی کا عمل دخل رہا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ قسمت بہادروں کا ساتھ دیتی ہے، وہ ان پر لاگو ہوتا تھا۔ ایف ایس سی کے دوران شدید بیماری کی وجہ سے امتحان نہ دے سکے تو وقت ضائع کرنے کی بجائے آرٹس کے ساتھ انٹر میڈیٹ اور گریجویشن کے امتحانات پاس کر لیے۔ ان دنوں بی اے میں فرسٹ ڈویژن لینی آسان نہیں تھی۔ وہ فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئے تو والد صاحب جو کہ خود سکول میں پڑھاتے تھے، ان کو بی ایڈ کروانا چاہتے تھے۔

یہاں پھر وہ خوش قسمت ٹھہرے کہ ان کے پرانے اساتذہ نے والد صاحب پر زور دیا کہ ان کو یونیورسٹی سے ایم اے کروائیں، ان شاءاللہ یہ بہت ترقی کرے گا۔ حتٰی کہ جب وہ بی ایڈ میں داخلہ لینے کے لئے ایجوکیشن کالج ملتان گئے تو وہاں کے ایک استاد پروفیسر سلامت علی ڈوگر صاحب نے بھی ان کے بی اے میں نمبر دیکھ کر ان کو ایم اے کرنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ وہ ملتان یونیورسٹی میں ایم اے اردو کی کلاس میں داخل ہو گئے۔ ایم اے کا مشورہ دینے والے سچ کہتے تھے۔

انہوں نے نہ صرف اپنے شعبہ بلکہ پوری آرٹس فیکلٹی کو ٹاپ کیا۔ دوران تدریس وہ اپنی قابلیت کی وجہ اپنے اساتذہ کے چہیتے طالب علم تھے۔ ان کو ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر اے بی اشرف، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، پروفیسر افتخار شاہ، ڈاکٹر عبدالرؤف شیخ مرحوم، ڈاکٹر نجیب جمال اور محترمہ پروفیسر قیصرہ خانم جیسے ماہر اساتذہ میسر رہے جنہوں نے ان کو پالش کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اردو ادب سے لگاؤ پہلے بھی تھا، ایم اے اردو کے دوران اس کو مزید جلا ملی۔ یونیورسٹی میگزین کے اردو سیکشن کے مدیر بھی رہے اور اخبارات میں مضامین بھی لکھتے رہے۔ شاعری سے شغف بھی تھا، کالج دور سے ہی شاعری پر طبع آزمائی جاری تھی۔

تعلیم کی تکمیل کے بعد پہلی ملازمت کی کہانی بھی خوش قسمتی کی زندہ مثال ہے۔ اخبارات میں شائع ہونے والے اپنے مضامین کی فوٹو کاپیاں چیف ایڈیٹر نوائے وقت مجید نظامی صاحب مرحوم کی خدمت میں ارسال کیں اور ادارے میں ملازمت کی خواہش کا اظہار کیا۔ نظامی صاحب نے بغیر کسی انڑویو کے ان کو ملتان دفتر کے لئے تعیناتی کے آرڈر بھیج دیے۔ اسی ملازمت کے دوران وہ خواجہ فرید گورنمنٹ کالج رحیم یار خان میں لیکچرار بن گئے اور کالج میں حاضر ہو کر والد صاحب کو خط لکھا کہ مبارک ہو آپ کا بیٹا لیکچرار بن گیا ہے۔ اسی ملازمت کے دوران ایم اے اردو میں یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن لینے کی وجہ سے حکومت پاکستان نے ان کو پی ایچ ڈی کے لیے وظیفہ دیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ وظیفہ اردو کی بجائے ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کے لئے تھا۔

پی ایچ ڈی کے لئے وہ برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ گئے اور جاتے ہی گھبرا گئے کہ شاید میں ڈاکٹریٹ نہ کر سکوں۔ ان کے پی ایچ ڈی کے نگران ایک ہندو پروفیسر ڈاکٹر ورما تھے۔ مشہور اور مشاہدہ یہی ہے کہ ہندو کم ہی کسی پاکستانی کا خیر خواہ ہو سکتا ہے لیکن یہاں صورتحال اس کے برعکس تھی۔ یہ ڈاکٹر ورما ہی تھے جنہوں نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا ، ڈٹے رہنے کی تلقین کی۔ ڈاکٹر ورما کے الفاظ بھی تاریخی ہیں : تمہارے پاس دو آپشنز ہیں، ”آج کی تکلیف اور ساری عمر کا آرام، یا پھر آج کا آرام اور ساری عمر کی تکلیف۔

“ بھائی نے تکلیف اٹھانے کا فیصلہ کیا اور آتشِ پی ایچ ڈی میں بے خطر کود پڑے۔ طے شدہ عرصے سے ایک سال پہلے ہی پی ایچ ڈی مکمل کر لی۔ انگلینڈ سے واپسی پر خوش قسمتی ایک بار پھر ان کی منتظر تھی۔ ملتان یونیورسٹی جو اب بہاءالدین زکریا یونیورسٹی بن چکی تھی میں ایجوکیشن کا شعبہ نیا نیا شروع ہوا تھا۔ اسی شعبہ میں وہ لیکچرار کے عہدے پر تعینات ہو گئے اور 2015 میں اسی شعبے کے چئیرمن کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

گو جسمانی لحاظ سے کمزور تھے، لیکن تدریس اور انتظام کا اہتمام مضبوطی اور اس احسن انداز سے کیا کہ الحمدللہ ان کی طرف اٹھنے والی اعتراض کی کوئی انگلی ہم کیا کسی نے بھی نہیں دیکھی۔ ان کے شاگرد اور ساتھی ان کی شرافت، دیانت اور مہارت کے گواہ ہیں۔ ناجائز کام سے انہوں نے ہمیشہ معذرت کی اور جائز کام کے لئے کسی کو کبھی انکار نہیں کیا۔ بطور چیئرمین شعبہ ہمیشہ میرٹ کا خیال رکھا۔ علاقے کے لوگ یونیورسٹی سے متعلقہ جائز کاموں کے لئے بے دھڑک ان سے رابطہ کر لیتے تھے اور وہ ہمیشہ ان کے کاموں میں ان کے معاون و مددگار ہوتے۔ ہمارے خاندان کے تو وہ تھے ہی، اپنے اساتذہ اور شاگردوں کا بھی فخر اور تعارف تھے۔ یہی وجہ تھی جنازے والے دن ان کے یونیورسٹی کے ایک استاد کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔

میری اور ان کی عمر میں دس سال کا فرق تھا اور وہ ہم دو چھوٹے بھائیوں سے بڑے تھے۔ ہم دونوں کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ مشفقانہ رہا۔ بڑے بھائی جان سے بھی ہمیشہ دوستی اور احترام کا رشتہ رکھا۔ دو سال پہلے میں شدید بیمار ہو گیا تو کئی ماہ تک میرے ساتھ ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پاس جاتے رہے۔ تیمارداری اور حوصلہ افزائی کے لئے اکثر گھر بھی آتے اور بہترین مشورے دیتے۔ اب بھی وہ ایک بھائی کے علاوہ ایک اچھے دوست اور ایک بہترین مشیر بھی تھے۔ اکثر معاملات میں ان کی رائے قابل عمل ہوتی۔

فاروق بھائی بنیادی طور پر اردو ادب کے طالب علم تھے۔ ایم اے اردو کے دوران انہوں نے ناصر کاظمی پر تحقیقی مقالہ لکھا جو اب ”اجنبی مسافر، اداس شاعر“ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔ ایم اے اردو کے طلبہ اور طالبات کے لئے یہ کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ان کی شاعری کی ایک کتاب ”حصار خواب“ کے نام سے بھی چھپ چکی ہے۔ شعبۂ تعلیم میں تدریس اور انتظامی امور میں الجھ کر وہ اردو ادب سے عملی طور پر دور ہو گئے۔

اخبارات میں لکھنے کا سلسلہ بھی تقریباً موقوف رہا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہ رکا ہوا سلسلہ دوبارہ بوجوہ شروع نہ ہو سکا۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے ”ہم سب“ میں لکھنا شروع کیا تو ان سے بھی درخواست کی کہ آپ بھی اس فورم کو استعمال کریں اور اپنے سینے میں چھپی کہانیاں باہر لے کر آئیں۔ بالآخر انہوں نے ”ہم سب“ میں لکھنا شروع کر دیا۔ ”ہم سب“ میں ان کا پہلا کالم ”منیر نیازی: کچھ باتیں کچھ یادیں“ شائع ہوا تھا۔ اتفاق دیکھیں یہی کالم ان کا آخری کالم بھی ثابت ہوا۔

26 دسمبر 2020 کو ”ہم سب“ انتظامیہ نے منیر نیازی مرحوم کی برسی کے موقع پر ان کے اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کیا۔ لیکن افسوس وہ اس کی دوبارہ اشاعت نہیں دیکھ سکے کیونکہ وہ اس دن وینٹی لیٹر پر تھے اور بالآخر اسی حالت میں اللہ کے حضور حاضر ہو گئے۔ کل ملا کر انہوں نے ”ہم سب“ پر 12 آرٹیکلز لکھے۔ بہت جلد ان شاءاللہ یہ بازار میں کتابی صورت میں بھی موجود ہوں گے۔ ”ہم سب“ میں ان کے مضامین یہاں پر پڑھے جا سکتے ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہی ہمیں ان سے گلہ ہے۔ اگر وہ اپنے آپ کو کسر نفسی کے پردے میں چھپانے کی بجائے اپنی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے سامنے لے کر آتے تو یقیناً وہ پاکستان میں اردو ادب میں ایک نمایاں مرتبے پر فائز ہوتے۔ ”ہم سب“ میں شائع ہونے والے ان کے تمام مضامین ادبی نوعیت کے ہیں جو ان کی حقیقی صلاحیتوں کا چھوٹا سا مظہر ہے۔

والدین کو اپنی ساری اولاد پیاری ہوتی ہے۔ اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے اولاد میں سے کوئی نہ کوئی سب سے پیارا ہوتا ہے۔ فاروق بھائی بھی ہم چاروں بھائیوں میں سے ہمارے والدین کے چہیتے تھے۔ ابا جی نے خاص طور پر ان کا نام مولانا مودودی صاحب کے بیٹے ڈاکٹر احمد فاروق کے نام پر رکھا تھا اور انہیں ڈاکٹر بھی بنانا چاہتے تھے۔ وہ ان کی خواہش کے مطابق ایم بی بی ایس ڈاکٹر تو نہ بن سکے، تعلیم کے ڈاکٹر ضرور بنے۔ ابا جی ان کی کامیابیوں پر پھولے نہیں سماتے تھے۔ امی مرحومہ بھی ان کا بے حد خیال رکھتی تھیں۔ عید کے موقع پر سب اکٹھے ہوتے تو ان کے لئے ہلکی مرچ والا سالن الگ سے بناتیں۔ اب نہ سالن بنانے والے رہے اور نہ کھانے والا۔ اب دونوں ہی اللہ کے مہمان بن گئے ہیں۔

فاروق بھائی کی زندگی نظم و نسق کا بہترین نمونہ تھی۔ وقت کی پابندی شروع سے ہی ان کا شعار رہی۔ امی اور بڑے بھائی بتاتے کہ سکول دور میں عام دنوں میں چائے نہیں پیتے تھے کہ سکول سے دیر نہ ہو جائے۔ امی کے زور دینے پر بہانہ بنا دیتے کہ چائے پینے سے منہ سے بدبو آئے گی۔ اتوار کے روز دو پیالے پی کر کسر نکالتے۔ بعض اوقات نہانا بھی ملتوی کر دیتے کہ نہانے کی وجہ سکول سے دیر نہ ہو جائے۔ چیزوں کو ترتیب اور سلیقے سے رکھتے۔

ساری عمر ہر لحاظ سے صاف ستھری زندگی گزارنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب رہے۔ بوقت وفات اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اپنے تمام فرائض سے آزاد ہو چکے تھے۔ دونوں بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی، اب وہ الحمد للہ برسر روزگار ہیں، ان کی شادیوں کے فرائض بھی پورے کر چکے تھے۔ ملتان کی ایک اچھی سوسائٹی میں اللہ کے فضل سے اپنا ذاتی گھر بھی بنا لیا تھا۔ دو بار عمرے کی سعادت بھی حاصل کی، پچھلے سال حج کی درخواست بھی منظور ہو گئی تھی، لیکن کورونا کی وجہ سے حج پر جو پابندی لگی ، اس کی وجہ سے یہ سعادت حاصل نہ کر سکے۔

سب کچھ موجود ہے، سب کچھ دوبارہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے، ایک چیز حاصل نہیں ہو سکتی، وہ گزر جانے والا انسان ہے۔ جانے والوں کی کمی کبھی پوری نہیں ہو سکتی، ان کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ ہر انسان نے ایک دن جانا ہے، بھائی جان بھی چلے گئے، جانے والوں کو کہاں کوئی روک سکا ہے۔ جانے والوں کی یادیں رہ جاتی ہیں، ان کے تذکرے باقی رہتے ہیں۔ ان کی کہی ہوئی باتیں، ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت گلے میں پھانس بن کر رہ جاتا ہے۔

ہم بھائی، ہماری بھابی، ان کے بچے، خاندان کے دوسرے افراد ان کے بغیر بہت تنہا ہو گئے ہیں۔ وہ ہم سے 50 کلومیٹر دور ملتان میں رہائش پذیر تھے، لیکن ہمیں ان کی موجودگی کا احساس رہتا تھا۔ اب کی بار بیٹا چھٹیاں ختم ہونے کے بعد کراچی جانے لگا تو ہمیں بھائی جان کے نہ ہونے کی وجہ سے شدید احساس تنہائی ہوا اور ہم چاہتے تھے کہ وہ کراچی نہ جائے۔ اس کو ہم نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ رخصت کیا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھائی جان کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔ آپ لوگوں سے بھی دعا کی استدعا ہے۔

کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).