انڈیا میں چھٹنی مہتو کے لیے سول ایوارڈ جو ’ڈائن‘ قرار دے کر خواتین پر تشدد کے نظام کے خلاف لڑ رہی ہیں


انڈیا کی حکومت نے ریاست جھارکھنڈ کی سماجی کارکن چھٹنی مہتو کو اعلیٰ سول ایوارڈ پدماشری سے نوازنے کا اعلان کیا ہے۔

کسی دور میں چھٹنی دیوی کو ان کے گاؤں والوں نے ’ڈائن‘ اور ’چڑیل‘ قرار دے کر انسانی فضلا پلایا تھا۔ انھیں گھر سے نکال دیا گیا تھا اور اس وقت ان کے شوہر نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔

اس واقعے کے بعد وہ خود اس سماجی بُرائی کے خلاف لڑائی میں شامل ہوگئیں اور ان خواتین کی مدد کرنے لگیں جنھیں آج بھی ’ڈائن‘ قرار دے کر ان پر ظلم ہوتا ہے اور کوئی ان کی مدد کے لیے آگے نہیں آتا۔

یہ بھی پڑھیے

بِہار: ڈائن قرار دے کر خواتین پر تشدد، انسانی فضلہ کِھلا دیا

’چڑیل ہونے کا الزام لگا کر خواتین کو برہنہ گھمایا گیا‘

لڑکیاں بد روحوں کے چنگل میں یا ذہنی دباؤ کا شکار


سنہ 2016 میں چھٹنی دیوی نے بی بی سی کو اپنی زندگی کی داستان بتائی تھی۔ ان کی کہانی انھیں کی زبانی سنیے:

’میں چھٹنی مہتو ہوں۔ مجھے لوگ ڈائن کہتے ہیں۔ گاؤں: بیر بانس، تھانا: گمہریا، ضلع: سرائے کیلا کھرساں وا، ریاست: جھارکھنڈ۔ یہ میرا چھوٹا سا بایو ڈیٹا ہے۔

گمہریا تھانے کے مہتانڈ ڈیہ گاؤں میں میری شادی ہوئی تھی۔ لیکن مجھے وہاں سے نکال دیا گیا تھا۔

میری عمر جب 12 برس تھی تو دھننجے مہتو نے مجھ سے شادی کر لی۔ جلد ہی ہمارے تین بچے ہو گئے۔

دو ستمبر 1995 کو میرے ہمسائے کی بیٹی بیمار ہو گئی۔ لوگوں نے کہا کہ میں نے اس پر کوئی جادو یا عمل کیا ہے۔

گاؤں میں پنچایت بیٹھی۔ انھوں نے مجھے ڈائن قرار دیا۔ اس کے بعد کچھ لوگوں نے گھر میں گھس کر میرے ساتھ ریپ کی کوشش کی۔ وہ لوگ دروازہ توڑ کر اندر آئے تھے۔ میں کسی طرح وہاں سے بچ کر بھاگی۔ خوبصورت ہونا میرے لیے لعنت بن گیا تھا۔

اگلے روز پھر پنچایت بیٹھی۔ پانچ ستمبر تک ہر روز کچھ نہ کچھ ہوتا رہا۔ پنچایت نے مجھ پر پانچ سو روپے کا جرمانہ عائد کیا۔ ہم نے وہ رقم ادا کی۔ اس کے بعد لگا کہ شاید سب ٹھیک ہو جائے گا، لیکن ایسا ہوا نہیں۔

اس روز شام کا وقت تھا۔ گاؤں والوں نے سفلی عمل کے ماہر دو افراد کو بلایا ہوا تھا۔ ان لوگوں نے مشورہ دیا کہ مجھے انسانی فضلا پلایا جائے۔ بولے کہ انسانی فضلا پینے سے ڈائن اُتر جاتی ہے۔

میں نے فضلا پینے سے انکار کر دیا۔ ایک طرف میں تھی اور دوسری طرف پورا گاؤں۔ لوگوں نے مل کر مجھے پکڑ لیا۔

میں نے بھاگنے کی بہت کوشش کی لیکن اس جدوجہد میں کچھ فضلا میرے کپڑوں پر گِر گیا۔

انھوں نے دوبارہ میرے منھ پر فضلا پھینکنے کی کوشش کی۔ اس بار اس کا کچھ حصہ میرے منھ کے اندر چلا گیا۔

میں ڈائن قرار دی جا چکی تھی۔ مجھے گھر میں واپس نہیں داخل ہونے دیا گیا۔ میں نے اپنے بچوں کے ساتھ پوری رات پیڑ کے نیچے گزاری۔ میرا شوہر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا، اسے اسی گاؤں میں ان گاؤں والوں کے ساتھ ہی رہنا تھا۔‘

میرا ایک ہی مقصد ہے، ڈائن قرار دی جانے والی خواتین کی مدد کرنا

وہ بتاتی ہیں کہ ’رات میں ہم صوبائی رکن پارلیمان چمپئی سورین کے گھر گئے۔ وہاں سے بھی ہمیں کوئی مدد حاصل نہیں ہوئی۔

چھ ستمبر کو میں نے تھانے میں رپورٹ درج کرائی۔

اس کے بعد چند افراد کو گرفتار کیا گیا، لیکن گاؤں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ مگر میری قسمت ضرور بدل گئی۔

میں اپنے سسرال سے میکے آگئی۔ یہاں بھی لوگ مجھے دیکھ کر دروازہ بند کر لیتے۔ کہتے تھے ڈائن آ گئی ہے۔ انھیں لگتا تھا میں ان کے بچوں کو نقصان پہنچاؤں گی۔

ایسے میں میرے بھائیوں نے میرا ساتھ دیا۔ بعد میں میرے شوہر بھی ہمارے پاس آگئے۔ بھائیوں نے ہمیں زمین دی، پیسے دیے۔ اب میرا میکہ ہی میرا گاوٴں ہے۔

مجھے ذہنی طور پر بہتر ہونے میں پانچ برس لگ گئے۔ اب میرا ایک ہی مقصد ہے، ڈائن قرار دی جانے والی خواتین کی مدد کرنا، اور میں یہی کر رہی ہوں۔ اس کام کے لیے وزیرا علیٰ نے مجھے اعزاز سے نوازا ہے۔

لیکن 1995 میں جب میرے ساتھ یہ سب ہوا تھا تب میرے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہوا تھا۔ میں اچھے کپڑے پہنتی تھی اس لیے لوگ مجھ سے حسد کرتے تھے، اور میں خوش شکل ہوں اس لیے میرے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا چاہتے تھے۔‘


بی بی سی کو اپنی داستان سناتے ہوئے چھٹنی مہتو کئی بار رو پڑیں۔ جب انھیں ڈائن قرار دیا گیا تھا تب ان کی عمر 30 برس تھی۔ اب وہ ضعیف ہو چلی ہیں۔

انہیں مختلف سیمیناروں میں مدعو کیا جاتا ہے۔ وہ کئی جگہ ہوائی جہاز سے بھی سفر کرکے جاتی ہیں۔ چھٹنی مہتو کا خیال ہے کہ کسی کو ڈائن کہنا یا سمجھنا وہم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

انڈیا میں یہ کتنا بڑا مسئلہ؟

ریاست جھارکھنڈ میں گذشتہ 20 برسوں میں 1600 سے زیادہ خواتین ’ڈائن‘ قرار دے کر قتل کی جا چکی ہیں۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے 2014 کے اعداد و شمار کے مطابق جھارکھنڈ میں 2012 سے 2014 کے درمیان 127 خواتین کو ’ڈائن‘ بتا کر قتل کر دیا گیا تھا۔

اُن دنوں پارلیمان میں سوال جواب کے دوران ریاستی وزیر داخلہ ایچ پی چوہدری نے یہ اعداد و شمار بتائے تھے۔

انڈیا میں بہار، جھارکھنڈ، راجستھان اور اڑیسہ سمیت کئی ریاستوں میں خواتین کو ’چڑیل‘ یا ’ڈائن‘ قرار دے کر ان پر تشدد کے واقعات عام ہیں اور عموماً غریب، کمزور اور بیوہ یا اکیلی خواتین اس کا ہدف بنتی ہیں۔

یہ اقدامات جائیداد کے حصول، خواتین پر جنسی حق کے حصول یا دیگر وجوہات کی بنا پر بھی کیے جاتے ہیں۔

بہار میں ’ڈائن‘ کے نام پر خواتین سے زیادتی روکنے کے لیے 1999 میں قانون بنا تھا لیکن آج بھی ایسی وارداتیں سامنے آتی رہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp