نازی جرمنی: حراستی کیمپوں کی خوبصورت خواتین محافظ، جنھیں قیدیوں کو اذیت دینا پسند تھا


’ایک ملٹری سائٹ کے لیے 20 سے 40 سال کے عمر کی صحتمند خواتین کارکنان درکار ہیں۔‘

سنہ 1944 میں یہ ملازمت کا اشتہار جرمنی کے ایک اخبار میں شائع ہوا تھا۔ اس میں بہتر اُجرت اور مفت رہائش اور لباس کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔

لیکن اس میں ایک اہم بات کا ذکر نہیں تھا، وہ یہ کہ یہ لباس ’ایس ایس‘ یعنی ہٹلر کی نازی پارٹی کے عسکری ونگ کی وردی تھی۔ اور وہ ’ملٹری سائٹ‘ ریونس بروک میں خواتین کا ایک حراستی کیمپ تھا۔

برلن کے شمال میں 80 کلومیٹر دور قیدیوں کے لیے بنائی گئی یہ بیرکس اب موجود نہیں ہیں۔ اور اب اس کی جگہ ایک پراسرار حد تک خالی اور پتھریلا میدان ہے۔

نازی، جرمنی، ہولوکاسٹ

1945 میں ریوینس بروک کا ایک منظر

مگر آج بھی یہاں آٹھ مضبوط اور پُرکشش مکان ضرور موجود ہیں جن میں لکڑی کے شٹر اور بالکونیاں ہیں۔ یہ قرونِ وسطیٰ کے جرمن کاٹیجز کی 1940 کی دہائی کی نازی قسم ہیں۔

ان گھروں میں خواتین محافظ رہتی تھیں اور کچھ کے ساتھ اُن کے بچے بھی رہائش پذیر تھے۔ بالکونیوں سے جنگل اور ایک خوبصورت جھیل نظر آیا کرتی تھی۔ کئی دہائیوں بعد ایک سابق خاتون گارڈ نے بتایا کہ ’یہ میری زندگی کا سب سے خوبصورت وقت تھا۔‘

لیکن انھوں نے اپنے کمرے سے زنجیروں میں ایک دوسرے کے ساتھ باندھے گئے قیدیوں اور گیس چیمبرز کی چمنیوں کو بھی ضرور دیکھا ہو گا۔

ریوینس بروک کے یادگاری میوزیم کی ڈائریکٹر آندریا جینسٹ نے مجھے بتایا کہ ’میوزیم آنے والے بہت سارے افراد ان خواتین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ یہاں کام کرنے والے مردوں کے بارے میں اتنے سوالات نہیں ہوتے۔‘

’لوگ یہ سوچنا بھی پسند نہیں کرتے کہ خواتین بھی اتنی ظالم ہو سکتی ہیں۔‘

اس کیمپ میں بہت سی نوجوان خواتین غریب کنبوں سے تھیں۔ انھوں نے سکول جانا چھوڑ دیا تھا اور ان کے پاس معاش کے بہت کم مواقع موجود تھے۔

حراستی کیمپ میں ملازمت کا مطلب زیادہ اجرت، آرام دہ رہائش اور مالی خودمختاری تھی۔ ڈاکٹر جینیسٹ کہتی ہیں ’یہ فیکٹری میں کام کرنے سے زیادہ پُرکشش تھا۔‘

ان میں سے بہت سی خواتین نازی نوجوانوں کے گروہوں سے پہلے ہی نظریاتی طور پر متاثر ہو چکی تھیں اور ہٹلر کے نظریات سے متفق تھیں۔ جینسٹ نے کہا، ’وہ سوچتی تھیں کہ معاشرے کے دشمنوں کے خلاف کام کر کے وہ معاشرے کی مدد کر رہی ہیں۔‘

ہولوکاسٹ، نازی، جرمنی

حراستی کیمپ کی وہ بھٹی جہاں لاشوں کو جلایا جاتا: قتل و غارت کا سلسلہ اس کیمپ کی آزادی تک جاری رہا

جہنم اور گھر کی راحت

ان گھروں میں سے ایک کے اندر خواتین کی فارغ اوقات میں لی گئی تصاویر نمائش پر ہیں۔ زیادہ تر خواتین اپنی عمر کی دوسری دہائی میں تھیں، خوبصورت تھیں اور ان کے بال سنوارنے کا انداز فیشن ایبل تھا۔

تصاویر میں انھیں اپنے گھروں میں مسکراتے ہوئے کافی پیتے اور کیک کھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ یا وہ ہنس رہی ہیں، یا ایک دوسرے کے بازوؤں میں بازو ڈال کر اپنے کتوں کے ساتھ قریبی جنگلات میں سیر کر رہی ہیں۔

یہ مناظر تب تک معصوم دکھائی دیتے ہیں جب تک آپ ان خواتین کے کپڑوں پر ایس ایس کا نشان نہیں دیکھ لیتے، اور پھر آپ کو یاد آتا ہے کہ ان کے ساتھ گھومنے والے وہی السیشن نسل کے کتے ہیں جو حراستی کیمپوں میں لوگوں کو اذیت دینے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

تقریبا 3500 خواتین نازی حراستی کیمپ کے محافظوں کی حیثیت سے کام کرتی تھیں اور ان سبھی کی ملازمت کا آغاز ریوینس بروک سے ہوا تھا۔ بعد میں بہت سی خواتین نے اوشوتز برکیناؤ یا برجن بیلسن جیسے ڈیتھ کیمپس میں بھی کام کیا۔

نازی، جرمنی، ہولوکاسٹ

ریوینس بروک کی آزادی، 30 مارچ 1945

98 سالہ سیلما وین ڈی پیری نے لندن میں اپنے گھر سے فون پر مجھے بتایا کہ ’وہ انتہائی بُرے لوگ تھے۔‘

سیلما ایک ڈچ یہودی مزاحمتی جنگجو تھیں جو ریوینس بروک میں ایک سیاسی قیدی کے طور پر قید تھی۔

’انھیں یہ بات شاید اس لیے پسند تھی کیوںکہ اس سے انھیں طاقت کا احساس ہوتا تھا۔ اس سے انھیں قیدیوں پر کافی طاقت حاصل ہو جاتی تھی۔ کچھ قیدیوں کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا گیا۔ پیٹا گیا۔‘

سیلما نے نازیوں کے زیر قبضہ نیدرلینڈز میں خفیہ طور پر کام کیا اور بہادری سے یہودی خاندانوں کو فرار کرنے میں مدد فراہم کی۔ گذشتہ ستمبر میں برطانیہ میں انھوں نے اپنے تجربات پر مبنی ’مائی نیم از سیلما‘ نامی ایک کتاب شائع کی۔ رواں سال یہ جرمنی سمیت دیگر ممالک میں بھی شائع کی جائے گی۔

سیلما کے والدین اور نوعمر بہن حراستی کیمپوں میں ہلاک ہو گئے تھے اور وہ تقریباً ہر سال ریوینس بروک آتی ہیں تاکہ ان جرائم کی یاد قائم رکھنے کے لیے منعقد کیے جانے والے ایونٹس میں شرکت کریں۔

ریوینس بروک نازی جرمنی میں خواتین کا سب سے بڑا کیمپ تھا۔ یہاں پورے یورپ سے ایک لاکھ 20 ہزار سے زیادہ خواتین قید تھیں۔ بہت سی قیدی نازی مخالف جنگجو تھیں یا سیاسی مخالف۔ اوروں کو نازی معاشرے کے لیے ’غیر موزوں‘ سمجھا جاتا تھا جیسے یہودی، ہم جنس پرست، سیکس ورکر یا بے گھر خواتین۔

یہاں کم از کم 30 ہزار خواتین ہلاک ہوئی تھیں۔ کچھ کو گیس دے کر ہلاک گیا تھا تو بعض کو پھانسی پر چڑھایا گیا تھا، کئی خواتین کو بھوکا رکھ کر مارا گیا تھا، کچھ بیماری سے ہلاک ہو گئیں اور کچھ حد سے زیادہ کام کرنے کی وجہ سے فوت ہو گئیں۔

خواتین محافظ ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا کرتیں، انھیں مارتیں، تشدد کرتیں، یا قتل کر دیتیں۔ قیدیوں نے انھیں ’خونی بریگیڈ‘ یا ’ریوالور اینا‘ جیسے لقب دے رکھے تھے۔

جنگ کے بعد 1945 میں نازی جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت کے دوران ارما گریس کو پریس نے ایک ’خوبصورت جانور‘ کا لقب دیا تھا۔ وہ نوجوان تھیں، پرکشش تھیں اور ان کے بال سنہرے تھے۔ انھیں قتل کا مرتکب پایا گیا تھا اور پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔

بعد میں ایس ایس کی وردی میں سنہرے بالوں والی تشدد پسند عورتوں کا کردار فلموں اور کومکس میں جنسی حیثیت میں عام ہو گیا۔

لیکن ایس ایس گارڈز کی حیثیت سے کام کرنے والی ہزاروں خواتین میں سے صرف 77 کو ہی مقدمے کا سامنا کرنا پڑا اور ان میں بھی چند کو ہی درحقیقت سزا سنائی گئی۔

ان محافظوں نے مقدمے کے دوران اپنے آپ کو واقعات سے لاعلم مددگاروں کے طور پر پیش کیا جو کہ بعد از جنگ کے پدرشاہی مغربی جرمنی میں بہت آسان تھا۔ بیشتر نے کبھی اپنے ماضی کے بارے میں بات نہیں کی۔ انھوں نے شادیاں کر لیں، اپنے نام بدل لیے اور معاشرے میں غائب ہو گئیں۔

ہرٹا بوتھے نامی ایک خاتون جنھیں ہولناک تشدد کے الزام میں قید کیا گیا تھا، انھوں نے بعد میں عوامی سطح پر اپنے جرائم کے بارے میں بات کی۔

انھیں محض چند سال قید کے بعد برطانیہ نے معاف کر دیا تھا۔ سنہ 1999 میں اپنی موت سے قبل ایک غیر معمولی انٹرویو میں انھوں نے غیر نادمانہ رویے کا اظہار کیا:

’کیا میں نے غلطی کی؟ نہیں۔ میری غلطی یہ تھی کہ یہ حراستی کیمپ تھا لیکن وہاں جانا میری مجبوری تھی، ورنہ مجھے خود اس میں ڈال دیا جاتا۔ یہی میری غلطی تھی۔‘

یہ ایک عذر ہے جو سابق محافظ اکثر استعمال کرتے تھے۔ لیکن یہ حقیقت نہیں تھی۔ ریکارڈز کے مطابق ریوینس بروک میں کئی نئے بھرتی ہونے والے افراد نے کیمپ کی حقیقت معلوم ہوتے ہی ملازمت چھوڑ دی تھی۔ انھیں جانے کی اجازت دی گئی تھی اور کسی منفی نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔

میں نے سیلما سے پوچھا کہ کیا وہ سمجھتی ہیں کہ یہ محافظ شیطانی ظالم تھیں۔ ’مجھے لگتا ہے کہ وہ عام خواتین تھیں جو شیطانی کام کر رہی تھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس طرح کا عمل کافی لوگوں کے لیے ممکن ہے، برطانیہ میں بھی۔ مجھے لگتا ہے کہ کہیں بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ اگر سماج اس کی اجازت دے تو یہ یہاں ہو سکتا ہے۔‘

ان کا ماننا ہے کہ نازی جرمنی میں ہوا تشدد آج کے زمانے کے لیے سنسنی خیز سبق ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد سے خواتین ایس ایس گارڈز کتابوں اور فلموں کا حصہ رہے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور ہے دی ریڈر نامی ایک جرمن ناول، جس پر بعد میں اداکارہ کیٹ ونسلیٹ کے ساتھ ایک فلم بھی بنی۔

بعض اوقات خواتین کو استحصال کا نشانہ دکھایا جاتا ہے۔ دیگر اوقات میں انھیں تشدد پسند ظالم کی طرح دکھایا جاتا ہے۔

مگر حقیقت اور بھی زیادہ خوفناک ہے۔ وہ کوئی غیر معمولی شیطان نہیں تھیں، بلکہ عام خواتین تھیں جنھوں نے شیطانی کام انجام دیے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp