انڈین کسانوں کی لال قلعے پر چڑھائی: کیا لال قلعہ واقعہ انڈین کسانوں کی تحریک کو کمزور کرنے کا باعث بنے گا؟


کسان احتجاج
گذشتہ روز انڈیا کے یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کی ٹریکٹر ریلی میں کشیدگی اور پولیس سے جھڑپوں کے بعد انڈین دارالحکومت دلی آج کسی فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ انڈس بارڈر، لال قلعے اور میٹرو سٹیشن پر بڑی تعداد میں پولیس کے دستے تعینات ہیں۔

دلی پولیس کے ذرائع نے نیوز ایجنسی اے این آئی کو بتایا ہے کہ ٹریکٹر ریلی کے دوران ہونے والے تشدد کے بعد اب تک پولیس پرتشدد مظاہرین کے خلاف مختلف دفعات کے تحت 15 ایف آئی آر درج کر چکی ہے۔

دلی پولیس کے مطابق احتجاج کے دوران کم از کم 80 سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ زخمی اہلکاروں پر احتجاج کرنے والے کسانوں نے حملہ کیا تھا۔

گذشتہ روز ہونے والی پرتشدد جھڑپوں میں ایک کسان بھی مارا گیا تھا جبکہ کسانوں کا ایک گروہ لال قلعے میں داخل ہوا اور سکھ مذہبت کا پرچم وہاں لہرا دیا تھا۔ میڈیا میں یہ بھی کہا گیا کہ لال قلعے پر انڈین پرچم کی توہین کرتے ہوئے خالصتانی پرچم لہرایا گیا تھا لیکن بعد میں یہ بات واضح ہو گئی کہ لال قلعے پر جو پرچم لہرایا گیا یہ سکھوں کا مذہبی پرچم تھا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا کسانوں نے دلی کے لال قلعہ سے انڈین جھنڈا اتار کر خالصتان کا پرچم لہرایا تھا؟

انڈیا کے کسان آخر چاہتے کیا ہیں؟

کسان مورچہ کا دلی میں پریڈ ختم کرنے لیکن احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا اعلان

واضح رہے کہ منگل کی صبح ہزاروں کسان مختلف رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے دارالحکومت نئی دہلی میں اپنے ٹریکٹروں سمیت داخل ہو گئے تھے تاہم کسانوں نے منگل کی شام پریڈ کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی احتجاجی تحریک جاری رہے گی۔

کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکائٹ نے کہا کہ پولیس نے متعدد ٹریکٹر توڑے ہیں اور انھیں اس کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔

اس سب کے درمیان سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ منگل کے روز پیش آنے والے اس واقعے کے بعد کسانوں کی دو ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کا کیا بنے گا؟ کیا کسان تحریک سے وابستہ قائدین ان جھڑپوں کے بعد دباؤ میں ہیں اور کیا وہ بیک فٹ پر چلے گئے ہیں؟ کیا انڈین حکومت اس تحریک کو روکے گی یا آنے والے دنوں میں یہ مزید شدت اختیار کرے گی؟

لال قلعہ

کسان تحریک کا کیا بنے گا؟

سینیئر صحافی سیما چشتی نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ کسان رہنما بہت سمجھدار اور بہت مضبوط لوگ ہیں جو طویل عرصے تک تحریک چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔

’وہ اب تک انتہائی واضح اور سیدھے انداز میں بولتے رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جس طرح سے سرکاری مشینری اور میڈیا پر حکومت کا مکمل کنٹرول ہے اور یہ (لال قلعہ کا واقعہ) پورے معاملے سے توجہ ہٹانے کا سبب بنے گا۔ یہ ان کی ذہانت کا ثبوت ہے کہ وہ تین قوانین کے بارے میں بات کر رہے ہیں تاکہ پوری کسان تحریک کو محض لال قلعے کے ایک واقعے سے نہ جوڑا جائے۔‘

زرعی امور کے ماہر دیویندر شرما کا کہنا ہے کہ کسانوں کو ’شرپسند‘ یا ’دہشت گرد‘ کہنا قطعاً غلط ہے۔

دیویندر شرما کا کہنا ہے کہ منگل کے واقعے کی وجہ سے کسان بہت دُکھی ہیں لیکن وہ اپنے مطالبات کے بارے میں بالکل واضح ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی تاہم ان کا کہنا ہے کہ کسان قائدین کو اس کی اجتماعی ذمہ داری اٹھانا ہو گی۔

پولیس جھڑپیں

دیویندر شرما مزید کہتے ہیں ’جو لوگ وہاں بیٹھے ہیں وہ تکلیف اور اذیت میں ہیں۔ انھیں امید تھی کہ اگر وہ دھرنے پر بیٹھ گئے تو حل نکل آئے گا۔ اگرچہ کسان دو مہینے سے دلی کی سرحد پر بیٹھے ہیں لیکن پنجاب میں تین چار مہینوں سے تحریک چل رہی تھی لیکن کوئی حل نہیں نکالا جا سکا تھا۔

کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت منگل کے واقعے کی آڑ میں کسان تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔

بی جے پی کے ترجمان گوپال کرشنا اگروال اس پر یقین نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ حکومت کسی بھی موقع سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتی۔

بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے کہا ’ہم جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔ کسان پُر امن طریقے سے جدوجہد کرنا چاہتے ہیں تو ان کا خیرمقدم ہو گا۔ ہم انڈیا میں جمہوری اقدار کو ایک اہم مقام دیتے ہیں۔ ہر کسی کو ہمارے نقطہ نظر کی مخالفت کا حق حاصل ہے لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ یہ اقلیت میں رہنے والے لوگوں کا معاملہ ہے تو ایسا نہیں ہو گا۔‘

گوپال کرشنا اگروال کے مطابق انڈیا میں لاکھوں کسان ہیں اور دلی کی سرحد پر احتجاج کرتے کسانوں کی تعداد ان کسانوں سے بہت کم ہے جو حکومت کے زرعی قانون کی حمایت کر رہے ہیں۔

پولیس جھڑپیں

حکومت کیا کر سکتی ہے؟

تو کیا حکومت اس قانون سے دستبرداری کے بارے میں ایک بار پھر سوچ سکتی ہے؟

دیویندر شرما کا کہنا ہے کہ حکومت کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان تینوں قوانین کو واپس لے لینا چاہیے تاہم بی جے پی کے ترجمان واضح طور پر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جب سے یہ تحریک شروع ہوئی، حکومت نے 11 راؤنڈز میں کسانوں کے ساتھ 45 گھنٹے بات کی، قوانین میں 20 سے زیادہ تحریری تبدیلیوں کی یقین دہائی کروائی، حکومت نے ان قوانین کو وقتی طور پر ملتوی کرنے کی تجویز پیش کی اور کسانوں کے ساتھ مل کر کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز پیش کی، لیکن کسانوں نے سب کچھ مسترد کر دیا۔

وہ مزید کہتے ہیں ’قانون واپس لینے کی بات کرنا جائز نہیں۔ یہ اکثریت میں موجود کسانوں پر اقلیت کی رائے مسلط کرنا ہے۔ اس سے ایک اور تحریک پیدا ہو سکتی ہے۔ یہ سب سے اہم تبدیلی ہے جو سنہ 1991 کے بعد لائی گئی ہے اس سے قبل سب باتیں تو کرتے تھے لیکن کسی میں جرات نہیں تھی کہ وہ یہ قانون متعارف کروائیں۔ جب بھی اصلاحات لانا ہوں گی، اس کے لیے سیاسی سرمایہ خرچ کرنا پڑے گا۔ مودی نے اس میں سرمایہ کاری کی ہے۔ حکومت میں واضح نظریہ ہے کہ یہ قانون کسانوں کے مفاد میں ہے اور لاکھوں کسان اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ ‘

لیکن سیما چشتی کہتی ہیں کہ ’دنیا ایک وبا کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہے اور انڈیا بھی جدوجہد کر رہا ہے۔‘

کسان احتجاج

’اور ان حالات میں تین متنازع قوانین متعارف کروا دیے گئے جن پر بحث بھی نہیں ہوئی اور وہ کسی کمیٹی کے پاس بھیجے بغیر ایک دن میں منظور کیے گئے ہیں۔ تو یہ کس قسم کی اکثریت ہے۔‘

کسان رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ اپنی آئندہ کی حکمت عملی کا فیصلہ ایک یا دو دن میں کریں گے۔ کسانوں نے یکم فروری کو بجٹ کے دن پارلیمنٹ کی جانب مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن سیما چشتی کو لگتا ہے کہ پارلیمنٹ مارچ اب ملتوی کیا جا سکتا ہے اور معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

سیما چشتی کا کہنا ہے کہ ’کسان اپنے معاملے (قانون کی واپسی) کے بارے میں بات کرنا چاہیں گے اور حکومت چاہے گی کہ اس معاملے پر بحث نہ کی جائے اور کسی طرح سے یہ سارا معاملہ لال قلعے کی جانب موڑنے کی کوشش کی جائے گی۔‘

’یہ مودی حکومت اور خاص طور پر وزیر داخلہ کے لیے ان کے ریکارڈ پر بہت بڑا بدنما داغ ہے۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر ہر جگہ ناکہ بندی ہے اور پولیس تعینات ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ کسان ٹریکٹر ریلی کرنے جا رہے ہیں اور اگر حکومت اتنے بڑے قلعے (لال قلعے) کی حفاظت نہیں کر سکتی تو پھر ان کے لیے بھی ایک دباؤ ہے کہ ان کی شبیہہ کو نقصان پہنچا ہے۔ ‘

سیما چشتی کے مطابق حکومت چاہے گی کہ وہ اسے امن وامان کا معاملہ بنا کر پیش کرے تاہم وہ کسانوں کی اس تحریک کو کمزور ہوتا ہوا نہیں دیکھ رہیں۔

کسانوں کے رہنماؤں کا اگلا اقدام کیا ہو گا، انھیں چند گھنٹوں میں اس بارے میں مکمل معلومات مل جائیں گی لیکن یہ یقینی بات ہے کہ منگل کے واقعے کے بعد انھیں یقینی طور پر اب کچھ چیلنج درپیش ہوں گے۔

مثال کے طور پر تحریک میں یکجہتی کو برقرار رکھنے، تحریک میں شامل نوجوانوں کو نظم و ضبط سکھانے اور اس کے علاوہ حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کا طریقہ کار تاکہ تحریک کمزور نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp