وزیر اعظم! اب قوالی کا انترا بدل دیں


جگر مراد آبادی کی غزل کا مطلع ہے

یہ ہے مے کدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے

یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے

ایک جانب کمال کا تغزل رکھتا ہے وہیں اس میں ایسے جہان معنی آباد ہیں کہ کیسے کیسے کمال کے قوالوں نے اسے گایا۔ کتنے بادہ کشوں اور پارسا ہم نے اس کی تکرار پر جھومتے دیکھے۔ کالج جس بس پہ جانا ہوتا، اس بس میں یہی کیسٹ ہر روز چلتی اور ہر روز نہ ذوق ٹوٹتا نہ تجسس کم ہوتا۔ اس غزل کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ اس کا جان کلام مقطع فراموش ہو گیا۔ جگر فرماتے ہیں

اسی کائنات میں اے جگرؔ کوئی انقلاب اٹھے گا پھر

کہ بلند ہو کے بھی آدمی ابھی خواہشوں کا غلام ہے

ناتمام خواہشوں کی اسیری ہم عامیوں کے لیئے تو عام سی بات ہے لیکن مصیبت یہ ہوئی کہ بڑے بڑے انسان کہلانے والے ایسی عامیانہ خواہشات کے اسیر کہ بخدا سب لطیفہ ہی لگے۔ لیکن پھر بھی یہ ضد کہ کہ میرے جبے دستار تغما (تمغہ) کو فرشی سلام ہوں۔ یہ مچلتی آرزو کہ خاکیوں کو اطلاع ہو کہ صاحب اقتدار و مسند کے بلند ادرش کو نئی نسلوں کا نصاب قرار دیا جائے۔ منادی کروا دی جائے کہ کائنات کا جان مدعا ظہور پذیر ہو چُکا ہے۔

یہی احساس خیر سے ہمارے منزل چہرہ (وصل کی آخری ساعت کو منزل بولا جاتا ہے) کپتان نما مبینہ وزیر اعظم کے دل میں مچلتا ہے کہ تاریخ کی کتب میں ان کا نام بطور نصاب شامل ہو، تسبیح کے موتیوں پر گردان ہو کہ

میں این آر او نہیں دوں گا۔

لیکن عزت ماب جناب وزیر اعظم کے اس اختیار کو کہ وہ این آر او دینے کا کوئی اختیار رکھتے بھی ہیں یا نہیں، صرف نظر کر بھی لیا جائے تو کیا یہ ایسا ہی کوئی خوش کن خیال ہے کہ اس کا ہر تقریر میں نعرہ بلند ہو، ہر گلی محلے، چوک چوراہے اور شاہراہ پر تذکرہ ہو۔ چہرے پر ہاتھ مار مار کر اعلانات ہوں؟

نہیں نہیں ہرگز نہیں

دنیا کا ہر سماج ایک خاموش معاہدے سے جنم لیتا ہے کہ جسے مفاہمت کہتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی کبھی نظریات کی کامل ہم آہنگی ممکن ہوئی ہے نہ ہو گی۔ اس مفاہمت اور بقائے باہمی پر انسانی سماج کی نیہ رکھی جاتی ہے اگر یہی مفاہمت کسی قومی معاہدے کی شکل لے تو اسے دستور کہتے ہیں۔ لہو لہو سماج میں جہاں عقائد بم بن کر پھٹتے ہوں جہاں لسانیت کا تنوع خونی خلیج بن چُکا ہو ، ملا اور میکدے کے درمیان نقش پا نہیں سنگلاخ مورچے کھدے ہوں جہاں فرش پر وائپر سے ننھی کلیوں کا لہو صاف کرنا معمول کی کارروائی ہو۔ وہاں کوئی بے ربط مقرر مسند پر چڑھ کر اعلان کرے کہ این آر او نہیں دوں گا۔ تو اس کی گردان میں گردن زدنی کے نئے باب کا عنوان تو پھوٹ سکتا ہے لیکن کسی بلند آدرشی کا شائبہ تک نہیں۔

سوال پوچھا جانا چاہیئے کہ جناب آپ مفاہمت نہیں کریں گے تو کیا کھوپڑیوں کے مینار تعمیر فرمائیں گے۔ کیا ایسی بضاعت ہے آپ کی؟ تاریخ میں کوئی شک نہیں منفی ہی سہی سکندر سے تاتاریوں تک کھوپڑی کے مینار بنانے والوں کے نام زندہ ہیں۔ جناب ایسی پرواز بھی معذرت کے ساتھ آپ میں نہیں۔ بس اس قدر ہی ہے کہ پنجابی طنز کے مطابق دشمنوں کے اوپلے رات کی تاریکی میں توڑ لیں۔ بھائو تائو ہو چکے اور آپ کے قلم کی نوک سے پچاس روپئے کے ضمانتی مچلکے پر ہو چُکے۔ پوری کابینہ سے کسی غیر اہم شے کی مانند آپ کے اپنے والے افراد کوڑے دان میں پھینکے جا چُکے۔ اور تو اور وزارت داخلہ تو یوں چھین لی کہ انتخابی نشان بھی نہیں دیکھا گیا۔

بس التجا ہی ہے خدارا خود پر ہی ترس کھائیں علامتی ہی سہی نئی گردان پکڑ کر دیکھ لیں۔

“میں این آر او دوں گا”

وگرنہ آپ کا تعارف ماسٹر آف یو ٹرن تو ہے ہی جسے اردو کے مہذب ترین الفاظ میں بیان کرنا بھی وزیر اعظم کے منصب سے مناسبت نہیں رکھتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).