خواجہ سراؤں کو جینے کا حق مل سکے گا؟


سرمئی شام آنگن میں اتر رہی تھی۔ پرندے شور مچاتے اپنے گھونسلوں کی جانب رواں دواں تھے۔ ہر شے پہ سکوت چھانے کو تھا سوائے آنگن کے کونے میں بیٹھی ماہ نور کے۔ لبوں پہ خاموشی لیے وہ اپنے دماغ میں اٹھنے والے طوفان کو شانت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ نین کنارے احساس و مروت کے سبب تر تھے۔

خود کو رونے سے روکے وہ کسی حل کی تلاش میں تھی۔ حساس انسانوں کا یہی مسئلہ رہا ہے ، ہر بات کو بہت گہرائی تک محسوس کرنا ، پھر گھنٹوں سوچنا اور اداس رہنا۔ حساس انسانوں کا گزارہ قدرے مشکل ہے ، شاید ان کے سینے میں دھڑکنے والا دل محض گوشت پوست کا ایک لوتھڑا نہیں ہوتا بلکہ محبت احساس اور درد کی پوٹلی ہوتی ہے جو کل کائنات کا درد اپنے اندر سمیٹنے کی استطاعت رکھتی ہے۔

صبح کا واقعہ کسی فلم کی طرح اس کے ذہن میں گھوم رہا تھا۔ اس خواجہ سرا کی آواز۔ درد بھری نگاہیں اور چیختے مگر بظاہر خاموش لب۔

یاخدا ان لوگوں کو جینے کا حق کب ملے گا؟ کب معاشرہ انہیں قبول کرے گا۔ کب تک در در کی ٹھوکریں ان کا مقدر بنی رہیں گی۔

لال لپ اسٹک لگائے ، گہرے سبز رنگ کے جوڑے میں ملبوس وہ کسی اچھے خاندان کا چشم وچراغ معلوم ہوتا تھا۔ جو کہ گھر سے طعنوں اور دھکوں کے ساتھ نکالا جا چکا تھا۔

غمزدہ چہرہ اداس آنکھیں لیے وہ گلی سے نکل رہا تھا جب اسے کچھ شریر لڑکوں کی آواز نے روکا۔ پیچھے مڑ کے دیکھا تو وہی معمول کا تماشا ۔ گھروں سے دھکے کھانے کے بعد شریر لڑکوں کی زہریلی باتیں سننا اور خاموشی سے اللہ کی بارگاہ میں معاملہ درج کروا کے آگے بڑھ جانا، مگر آج حد ہی ہو گی۔ آوازیں کسنے کے ساتھ ساتھ لڑکوں نے پتھر بھی اس کی جانب اچھالے۔ پتھروں سے بچنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے وہ مڑا ہی تھا کہ ایک نشانے باز کا پتھر اس کی آنکھ سے ٹکرایا اور خون کا فوارہ ابل پڑا۔

درد سے بلبلاتا مدد کو پکارتا وہ آگے جا رہا تھا۔ ظالم معاشرے کا احساس نیند کی گولی لے کر سو رہا تھا۔ شاید اوور ڈوز ہونے کے سبب مر ہی چکا تھا۔ سماج کے مردہ احساس پہ فاتحہ پڑھتا وہ گلی سے نکل گیا۔ اس کی نگاہیں کسی مسیحا کی تلاش میں تھیں۔ اور لب سراپا سوال تھے ، آخر مجھے عزت سے جینے کا حق کب ملے گا؟ مجھے بھی جینا ہے۔ مجھے بھی جینا ہے۔

اردگرد نظر دوڑائیں تو ہر طرف سے تیسری مخلوق کا مظلوم چہرہ نظر آتا ہے جو پیدا ہونے کا سوگ ناچ گا کر منا رہے ہیں۔ کچھ دھکے کھاتے ہیں ، کچھ دو تالیاں بجا کے روٹی کھاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے ہم نے عزت چند طبقوں کے لیے مخصوص کر دی ہے۔ ہمارے گھٹیا معیار لوگوں کو جینے کا حق دینے سے قاصر ہیں۔ ہماری مساجد فرقہ واریت کی زد میں ہے۔ ہمارے دسترخوان چند لوگوں کے لیے مخصوص ہیں۔ ہم نے اپنی نسلوں کی تربیت اتنی ناقص کی ہے کہ وہ انسان کو انسان سمجھنے سے ڈرتی ہیں۔

جینا تو سب کا حق ہے۔ پھر ہم نے کیوں لوگوں سے یہ حق چھینا ہوا ہے؟ ہم نے خود کو طبقات میں تقسیم کیا پھر عزت کے پیمانے بنائے۔ یہ تیسری جنس جنہیں عام زبان میں خواجہ سرا کہا جاتا ہے ، معاشرے میں ایک گالی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لوگوں کے بس میں ہو تو ان لوگوں کو اٹھا کے مریخ پہ پھینک آئیں۔

ہم کب لوگوں کو جینے کا حق دیں گے؟ آخر وہ میسحا کب آئے گا جو ان کو حق دلوائے گا۔ وہ کون سی صدی ہو گی جب خواجہ سرا باعزت زندگی گزار رہے ہوں گے اور ان کو برابر حقوق ملیں گے۔ کب آئے گا وہ دن جب صرف انسانیت ہمارا لبادہ ہو گی؟

یہ لوگ روز نازیبا الفاظ سنتے ، اپنی عزت کا گلا گھونٹتے اب تھک چکے ہیں ، انہیں تحفظ چاہیے۔ انہیں بھی اپنے خاندان کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ پیار ، محبت ، عزت ان کا بھی بنیادی ہے۔ یہ خاندان کی محبت کے بھوکے لوگ عزت کا گلا گھونٹتے ہر روز ایک نئی دہلیز پہ ہوتے ہیں۔ چند روپوں کی خاطر سب کچھ برداشت کرنے والی اس مخلوق کو تحفظ کا احساس دینے والا کب آئے گا؟

ہزاروں سوالات لیے جب ماہ نور نے گھٹنوں سے سر اٹھایا تو تاریکی سب کچھ ڈھانپ چکی تھی۔ اس نے ان لوگوں کی مسیحا بننے کا ارادہ کیا۔ اب سے ان لوگوں کے لیے کوئی قید نہیں۔ ہر ایک شخص کو اس کا حق ملے گا۔ مظلوموں کی آس بننے کا مصمم ارادہ کیے وہ اپنے کمرے کی جانب چل دی۔

بہاور فرید
Latest posts by بہاور فرید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).