کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ


دو برس بیت گئے۔ ہم خبروں میں عموماً ’’اچانک بچھڑ گئے” کے الفاظ تو روزانہ پڑھتے رہتے ہیں، مگر یہ تو واقعتاً اچانک ہی بچھڑ گئی اور ایک درد لادوا دے گئی۔ کیونکہ اس کے یوں اچانک اور ناگہانی جانے کا کسی کو گمان تک بھی نہ تھا۔ ایک طرف ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے یہ دو برس گزرنے میں کوئی وقت ہی نہیں لگا کہ ایک اور برس 2021ء کا 27 جنوری آن کھڑا ہو گیا۔ دوسری جانب دیکھتا ہوں تو میں نے جیسے ان دو برسوں میں (بلا مبالغہ) پوری زندگی گزار دی اور جیون کے سرد و گرم موسموں کے تمام تر رنگ اس دوران محسوس کر لیے۔

کون بچھڑا؟

ایک طرف: میری واحد بہن اور دوست اور دوسری جانب: سندھی زبان و ادب کی حسن بیاں رکھنے والی شاعرہ، نثر نویس، استاد، مقرر، کمپیئر اور معاشرے کی ایک باصلاحیت فرد نائلہ گل قاضی۔ جسے ادبی دنیا، اس کے ادبی نام ”سپنا گل قاضی“ سے جانتی ہے۔

سندھ کے نامور اور قادرالکلام شاعر، عالم، صحافی اور سچل سائیں کے شارح، مقصود گل کی سب سے بڑی بیٹی اور پہلوٹھی اولاد کی حیثیت سے 8 دسمبر 1977ء کو پیدا ہوئیں۔ پیدائش، ضلع لاڑکانے کے نوڈیرو نامی شہر میں اپنے ننہیال میں ہوئی۔ پرائمری تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول نمبر 2 رتوڈیرو سے 1987ء میں مکمل کر کے، میٹرک گورنمنٹ گرلز ہائی سکول رتوڈیرو سے 1992ء میں اور انٹرمیڈیٹ گورنمنٹ گرلز ہائیر سیکنڈری سکول رتوڈیرو سے 1994ء میں نمایاں نمبروں میں پاس کیا، جامعہ شاہ عبداللطیف خیرپور سے 1997ء میں بی اے اور 2000ء میں سندھی ادب میں ایم اے کا امتحان پاس کیا اور اس میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے ”وائس چانسلرز گولڈ میڈل“ کی حق دار قرار پائیں۔ اپنی رخصت سے دو برس قبل اسی یونیورسٹی میں ایم فل میں رجسٹرڈ ہو کر کورس ورک میں مصروف تھیں کہ زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہ کی۔

ان کا تمام تر تعلیمی کرئیر ایک ذہین اور باصلاحیت طالبہ کی حیثیت سے گزرا۔ اسی اعلیٰ تعلیمی قابلیت کی بدولت 2007ء میں سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے، 2008ء میں وہ حکومت سندھ کے محکمۂ تعلیم میں سندھی کی استاد (لیکچرر) مقرر ہوئیں اور تا دم آخر نہایت خوش اسلوبی، خوشی، خلوص نیت اور دیانت داری کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں انجام دیتی رہیں۔ ان کی ملازمت کا زیادہ تر عرصہ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج لاڑکانہ میں لیکچرر کی حیثیت سے پڑھاتے گزرا، جبکہ کچھ عرصہ وہ لاڑکانہ میں مادر جمہوریت کے نام سے قائم ہونے والے بچیوں کے نئے کالج، ’بیگم نصرت بھٹو گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج‘ میں بھی تدریسی خدمات انجام دیتی رہیں۔

لیکچرر کے طور پر محکمۂ تعلیم سندھ سے وابستگی سے قبل انہوں نے رتوڈیرو میں اپنے مرحوم دادا (اور سندھ کے معروف شاعر و استاد) قاضی عبدالحئی ”قائل“ کے نام کی یادگار کے طور پر قائم سکول ”عبدالحئی قاضی ماڈل سکول“ میں بھی کئی برس تک پڑھایا اور ساتھ ساتھ وہاں انتظامی خدمات انجام دیتے ہوئے، اپنے والد مقصود گل کا ہاتھ بھی بٹاتی رہیں۔ اسی دوران انہوں نے اسی سکول کی جانب سے جاری ہونے والے بچوں کے سندھی ادبی رسالے ”گلدستو“ کی سب ایڈیٹر کی حیثیت سے رسالے کی تزئین و آرائش میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا حصہ ڈالا۔ نونہالوں کا یہ رسالہ سندھ بھر میں مقبول رہا۔

نائلہ نے اپنے قلمی سفر کا آغاز کب سے کیا، اس کا اندازہ لگانا اس لئے مشکل ہے کہ انہوں نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں، وہ ایک کل وقتی علمی، ادبی اور تعلیمی ماحول تھا۔ مقصود گل اور گلنار بدر کی بیٹی قاضی عبدالحئی قائل کی پوتی، قاضی خضرحیات، قاضی اختر حیات اور قاضی منظر حیات کی بھتیجی نے، اپنی پہلی تحریر کب لکھی ہو گی، یا کسی بھی اسٹیج پر پہلی مرتبہ مقررہ کی حیثیت سے کب جلوہ افروز ہوئی ہوں گی ، اس بابت کچھ بھی کہا جانا مشکل ہے، کیونکہ چھوٹے چھوٹے مضامین لکھنا تو میں نے اور نائلہ نے اپنی پرائمری کلاسوں ہی سے ایک ساتھ شروع کر دیا تھا اور دوسری تیسری کلاس سے ہی ابو جب ہم بہن بھائیوں کو کہیں بھی گھمانے لے جایا کرتے تھے تو واپسی پر ہماری اولین ذمہ داری یہ ہوا کرتی تھی کہ ہم اس سیر کا احوال لکھیں جو ابو بعد از تصحیح و ترمیم بچوں کے کسی رسالے، جریدے یا کسی اخبار میں شائع کرا دیتے تھے اور ہماری ہمت افزائی ہو جایا کرتی تھی۔

مگر نائلہ کی باضابطہ پہلی تحریر ایک شعری تخلیق ہی تھی، جو 1988ء کے قریب کسی اخبار میں ”نائلہ مقصود گل“ کے نام سے شائع ہوئی تھی، جب ان کی عمر محض 11 برس تھی اور وہ چھٹی کلاس کی طالب علم تھیں، مگر انہوں نے ”سپنا گل قاضی“ کے قلمی نام سے باضابطہ طور پر 1993ء میں لکھنا شروع کیا۔ سپنا بنیادی طور پر ایک شاعرہ تھیں مگر ان کی نثر بھی کمال تھی۔

سندھی ادب میں ایم اے کے آخری سال کے دوران سسئی کے لوک رومانوی کردار کے (حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی اور دیگر اساسی سندھی شعراء کی زبانی) شاعرانہ اظہار کے موضوع پر نامور محقق اور لطیف شناس اسکالر، ڈاکٹر شاہنواز سوڈھر کی نگرانی میں تحریر شدہ ان کا تحقیقی مونوگراف (مقالہ) ، ان کی نثری تحریری صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، جو جلد شائع ہو کر قارئین تک پہنچے گا۔ ان کی شاعری کے بھی کم از کم 3 مجموعے ترتیب و تدوین و اشاعت کے منتظر ہیں۔

سپنا کی شاعری کی کائنات، ایک بہت ہی خوبصورت تصوراتی دنیا پر مشتمل ہے، جس کے پس منظر میں حقیقت کے تلخ رنگوں کے داغ بھی نمایاں طور پر نظر آتے ہیں، جن کو پڑھنے سے درد کا ادراک اور ڈوب کر ابھرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ اپنے والد کی طرح ان کی شاعری میں بھی ان کے رومان کے تمام راستے، اپنی دھرتی اور اس سے وابستہ لوگوں کی محبت پر آ کر اختتام پذیر ہوتے ہیں۔

سپنا، ایک کامیاب شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ، باصلاحیت خطاط اور اسکیچ آرٹسٹ بھی تھیں۔ ان کی موتی کے دانوں کی مانند خوشخطی پر چھپائی کا گمان ہوا کرتا تھا۔

بحیثیت مباحثہ کار (ڈبیٹر) بھی نائلہ نے تیسری جماعت ہی سے اسٹیج  کے ساتھ ایسی دوستی رکھی، کے کسی بھی مجمعے کے سامنے کسی بھی موضوع پر تقریر کرنا، نظامت کے فرائض انجام دینا یا اپنی سریلی اور رسیلی آواز میں حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کو گنگنانا،  ان کے لئے کوئی مسئلہ رہا۔

زمانۂ طالب علمی میں اپنے سکول و کالج اور زمانۂ تدریس کے دوران اپنے کالجز میں منعقد ہونے والے تقریباً تمام جلسوں، سیمینارز، سمپوزیمز اور کانفرنسز کی کمپیئرنگ کے فرائض سپنا ہی انجام دیا کرتی تھیں۔ اسی ذوق اور لیاقت کے پیش نظر انہوں نے لاڑکانے کے ایک نجی ریڈیو کے لئے خصوصی عالمی و مذہبی دنوں کی مناسبت سے مختلف ریڈیو پروگراموں کی میزبانی بھی کی، جو صوبائی نشریاتی رابطے پر سندھ بھر میں نشر ہوتے رہے اور سامعین میں بے حد مقبول رہے۔

صحت کے حوالے سے بظاہر کسی بھی بڑی شکایت نہ ہونے کے باوجود انہیں سال 2018ء کے اواخر اور 2019ء کے اوائل میں سانس اکھڑنے کی غیر معمولی شکایت کا سامنا ہوا، جس کے تفصیلی معائنے کے بعد ان کے پھیپھڑوں میں پانی بھر جانے کی تشخیص ہوئی، اس سلسلے میں انہیں لاڑکانے کے معالجین نے علاج کی غرض سے مقامی ہسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا۔ گھر کے افراد نے وہی علاج کراچی میں کرانے کا ارادہ کیا۔ اس سلسلے میں بظاہر کوئی بھی ایمرجنسی پیش نظر نہیں تھی، ورنہ انہیں لاڑکانے ہی میں داخل کرا لیا جاتا۔

دو برس قبل، اتوار، 27 جنوری 2019ء کو صبح لاڑکانo سے بذریعہ روڈ کراچی کے لئے روانگی ہوئی۔ ابھی دو گھنٹے کا سفر طے کر کے دادو ہی پہنچے تھے کہ ان کی سانس کی تکلیف اچانک سے بڑھ گئی، جو لمحوں کے اندر اس قدر بڑھ گئی کہ انہیں دادو کے سول ہسپتال کے شعبۂ ایمرجنسی میں لانا پڑا مگر ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی چند لمحوں کے اندر اندر انہوں نے اپنی سانس کی امانت پروردگار عالم کے سپرد کر دی۔

ان کی وفات نہ صرف ان کے خاندان، عزیز و اقارب، دوستوں اور جاننے والوں کے لیے بلکہ سندھی ادب سے متعلق ہر خاص و عام کے لئے اس حد تک ناقابل یقین تھی کہ دو برس گزر جانے کے باوجود بھی اس جواں مرگ مسافر کی رخصت کا یقین نہیں ہو پا رہا۔ انتقال کے اگلے روز پیر، 28 جنوری 2019ء کو، بعد از ظہر انہیں کراچی کی ملیر ماڈل کالونی کے قریب مہران ڈیپو روڈ کے قدیم قبرستان میں دھرتی ماں کے سپرد کیا گیا، جہاں وہ ابدی سو رہی ہیں۔

ظاہری وجود کی طبی یا طبعی عمر کی تکمیل کے بعد فنا ہونے کی حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا البتہ ہر وجود، اپنی زندگی کے دوران انجام دیے جانے والے کار ہائے نمایاں کی بدولت زندہ رہ سکتا ہے۔ نائلہ کو اگرچہ قلمی دنیا میں ابھی مکمل طور پر اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع میسر نہ ہو سکا تھا۔ ابھی ان کے قلم سے اور کئی شاہکار تحریروں کا ظہور ہونا تھا، جو ان کہی رہ گئیں، مگر اس کے باوجود سپنا نے جو کچھ لکھا، ان تحریروں کا اجالہ انہیں اتنی جلدی ہم میں سے رخصت نہیں ہونے دے گا۔

سپنا گل قاضی کا گو کہ تخلص ”سپنا“ تھا مگر وہ اور ان کی کائنات تخلیق، ایک خوبصورت حقیقت ہے جو ہمیشہ جہان سندھی ادب میں جگمگاتی رہے گی۔ سپنا جیسے تخلیق کار، روح سفر اور نقیبان تحریک سخن ہوا کرتے ہیں۔

ہم روح سفر ہیں، ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ

(سندھی کی صاحب بیان شاعرہ نائلہ گل ”سپنا“ قاضی کی جدائی کے دوسرے برس کی مناسبت سے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).