پاکستان میں چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟


زندگی میں بچبن ہی وہ دور ہوتا ہے جب انسان کو کسی قسم کی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی کھاؤ، پیو، موج اڑاؤ مگر افسوس کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچبن نصیب ہی نہیں ہوتا اور پاکستان میں ایسا لاکھوں بچوں کے ساتھ ہو رہا ہے ، یہاں چائلڈ لیبر عام ہے ، یہاں آپ کو چائے کے ڈھابے، مکینک، فیکٹریوں، سڑکوں، گھروں غرض یہ کہ ہر جگہ بچے کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے اور یہ وہ بدنصیب بچے ہوتے ہیں جن سے چوبیس گھنٹے ہر قسم کا کام کروا لیا جاتا ہے اور بدلے میں جو تنخواہ ملتی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہوتی ہے ۔ تنخواہ کم ہونے کی وجہ یہ قرار دی جاتی ہے کہ وہ بچے ہیں حالاں کہ وہ بچے اپنے گھروں کے بڑے ہوتے ہیں اور بڑوں سے زیادہ کام کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق 168 ملین بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جن کی عمر 18 سال سے کم ہے۔ پاکستان میں بھی چائلڈ لیبرمیں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چلڈرن SPARC کے مطابق ملک بھر میں تقریباً ایک کروڑ 2 لاکھ بچے محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ان میں 60 لاکھ بچے 10 سال سے بھی کم عمر کے ہیں۔

جو سرکاری اعداد و شمار چائلڈ لیبر کے بارے میں جاننے کے لیے اکٹھے کیے گئے ، وہ 18 سال قبل کے تھے جن کے مطابق 73 فیصد لڑکے اور 27 فیصد لڑکیاں چائلڈ لیبر کا شکار ہے۔

چائلڈ لیبر کی سب سے اہم وجہ غربت کو قرار دیا جاتا ہے مگر یہ کہنا بھی درست نہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے پہلے لکھا کہ بچوں کو تنخواہیں کم دی جاتی ہیں جس سے اس بات کا تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ جو ماہانہ کمائی بچوں کی ہوتی ہے ، اس سے گھر نہیں چل سکتا۔

چائلڈ لیبر کی کئی وجوہات ہیں ، تعلیم کی کمی کے ساتھ یہاں نچلے طبقے میں بچوں کی تعداد نو سے دس ہوتی ہے جس کی وجہ سے والدین کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ ہر بچہ خود کمائے اور خود کھائے ، ان کے لیے انہیں گھر بٹھا کر کھلانا مشکل ہوتا ہے۔

یہاں قوانین پر عمل درآمد نہیں ، کسی بھی شخص پر جرمانہ اور قید نہیں لاگو کی جاتی کہ اس نے 16 سال سے کم عمر کے بچے کو کام پر رکھا ہے۔

ملک میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق، جو شخص بھی 16 سال سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھتا ہے یا اس کی اجازت دیتا ہے تو اسے 20 ہزار روپے تک جرمانہ یا قید کی سزا جس کی مدت ایک سال ہے ، ہو سکتی ہے، یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں۔ اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی کم از کم سزا 6 ماہ ہے جس کی مدت دو سال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔ اس قانون کے ہونے کے باوجود پاکستان میں فی الوقت آپ کو گھر گھر میں 10 سال سے کم عمر لڑکے اور لڑکیاں چوبیس گھنٹے کام کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔

عالمی ادارۂ محنت کے مطابق چائلڈ لیبر کے زمرے میں آنے والے بچے زیادہ تر قالین بننے، چوڑیاں بنانے کی صعنت، سرجیکل آلات بنانے، کوڑا چننے، چمڑا رنگنے کی صعنت کے علاوہ گھروں میں ملازمت کرتے پائے جاتے ہیں۔

چند ماہ قبل انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے تحت جو رپورٹ شائع ہوئی، اس میں دنیا کے 67 ایسے ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے، جہاں چائلڈ لیبر کے حوالے سے خطرناک صورتحال ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا چھٹا نمبر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس صورتحال کو بہتر کرنے میں حکومت سنجیدگی سے کوشش کرے اور مؤثر قانون سازی پر توجہ دے تو ملک میں چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن ہے۔

پاکستان میں فیکٹریوں اور چائے کے ڈھابوں میں بچوں کا کام کرنا عام بات سی ہے۔ یہ بچے کم پیسوں میں دس سے بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔

اس وقت لاکھوں کی تعداد میں بچے مزدوری کر رہے ہیں لیکن حکومت کے پاس ایسے اعداد و شمار نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کو یہ علم بھی نہیں کہ یہ بچے کہاں کام کر رہے ہیں اور انہیں بچانے کا کام کیسے کیا جائے۔

چائلڈ لیبر گو کہ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دونوں ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں مگر فرق صرف یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے قوانین موجود ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے قوانین صرف کاغذوں میں موجود ہیں ، ان پر عمل درآمد ناپید ہے اور خاص طور پر وہ بچے جو گھروں، ڈھابوں، دکانوں میں کام کرتے ہیں ، ان سے جانوروں کی طرح کا  لیا جاتا ہے ، جن بچوں کو گھر پر رکھا جاتا ہے ، بھلے یہ کہہ کر رکھا جائے کہ تھوڑا بہت کام کروایا جائے گا مگر ان سے بھی ہر قسم کا کام کروا لیا جاتا ہے ، وہ بھی انتہائی معمولی تنخواہ پر۔

اگر چائلڈ لیبر میں ملوث بچوں کے لیے عمر کا تعین ہو، تنخواہیں مقرر ہوں، گھنٹوں کا تعین ہو، تعلیم کا انتظام ہو، جسمانی اور جنسی تشدد پر سزائیں اور جرمانے مقرر کیے جائے تو پھر چائلڈ لیبر کو مکمل طور پر غلط نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اگر عمر کا تعین ہو اور تعلیم بھی فراہم کی جائے تو پھر بچے اپنا خرچہ اٹھانے کے ساتھ مفید شہری بھی بن سکیں گے ۔ اگر حکومت ان بچوں کے حوالے سے اقدامات نہیں کرے گی تو پھر ان بچوں کا ستعمال ڈرگ ٹریفیکنگ، اونٹوں کی دوڑ اور جسم فروشی جیسے جرائم میں کیا جائے گا۔

یوں تو ہمیں چائلڈ لیبر عمومی طور پر نظر آتا ہے اور وہ شاید قابل قبول بھی ہو مگر وہ بچوں کا جسم فروشی میں استعمال کسی کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔

اس لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہر سال سروے کروائے جائیں ، یہ بات جاننے کی کوشش کی جائے کہ کتنے بچے محنت مزدوری کر رہے ہیں ۔ ان کے ساتھ ان کے مالکان کس قسم کا سلوک کر رہے ہیں تو ہی پاکستانی بچوں کو غلط اور غیر محفوظ ہاتھوں میں جانے سے بچایا جاسکے گا ۔ ان کی تعلیم اور تربیت کا بندوبست کیا جا سکے گا کیونکہ اگر آج ہم بچوں کا خیال نہیں کریں گے اور ان کا جسمانی و ذہنی استحصال ہونے دیں گے تو کل ہمارے پاس وہ بچے ہوں گے جو  معاشی، معاشرتی ترقی میں ہماری مدد نہیں کر سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).