آو چھپ چھپ کے محبت کرتے ہیں



جو مزا چھپ کر محبت کرنے کا ہے، جو لذت تنہائی و بے وفائی کی ہے، جو کہانی رسوائی کی ہے، جو لطف بنا بتائے کا ہے، جو بے مول دل لگائی ہے، جو چھپن چھپائی کا ہے، جو ہرجائی کا ہے، جو گرمی بنا کسی ذمہ داری کے چڑھتی ہے، جو ابال کسی کے بے چاری ہونے پہ آتا ہے۔ اور جو ایک کے بعد ایک کہ کہانی ہے۔ بہت ہی سہانی ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ پچھلے دنوں منظر عام پہ آیا کہ جس میں محترم اپنی محبوبہ کو گود میں اٹھائے یا اس کی میت کو گود میں اٹھائے ہوئے ہیں اور۔۔۔ اور پکڑے جاتے ہیں

یہ سماج کا چہرہ ہے بلکہ یہ محبت کی تصویر ہے۔ جس محبت کا دل ہم اگلے ماہ منانے والے ہیں۔ جس کے حق میں ہم خوب فلسفے پیش کریں گے محبت کی سینکڑوں توجیحات بیان کریں گے۔ کیونکہ گھروں اور نسلوں کی گھریلو گھٹن نے اور معاشرے کے بدلتے تقاضوں نے ہمیں نہ تیتر بننے دیا نہ ہم بٹیر رہے کہ کوئی ہماری گردن پہ چھری چلا کر اپنا ایک وقت کا پیٹ ہی بھر لے۔

کمال آفرین ہے لڑکی کے والدین پہ کہ جنہوں نے بیٹی کی میت بھی، نہیں معلوم، غیرت کے نام پہ قبول کی ہوگی یا نہیں؟ اور سمجھا ہو گا اس نے جو کیا، اس کے ساتھ درست ہوا۔ اسے مر ہی جانا چاہیے تھا کہ ان کی بیٹی نے ان کو جیتے جی مار دیا۔

مگر ٹھہریے

کم از کم اس کیس اور اس طرح کی اور لڑکیوں کے کیسیز میں جب ہم لڑکیوں سے بات کرتے ہیں تو ایک نکتہ عجب ملتا ہے۔ کہ جب وہ اپنے گاؤں سے پڑھنے آتی ہیں تو انہیں گھر کی رشتہ دار خواتین کی جانب سے ایک نصحیت یا تو دبے لفظوں میں یا مزاح میں یا چھپ چھپا کے کر دی جاتی ہے کہ اب تم کسی اچھے مقام پہ جانے والی ہو تواپنا رشتہ بھہ شہر میں ہی تلاش کر لینا۔ تمہارے مطابق اب یہاں کوئی لڑکا نہیں ملے گا۔

اور جب لڑکی بھی ایک بار شہر دیکھ لیتی ہے تو گاؤں اس کے لیے اتنا اجنبی ہو جاتا ہے کہ وہ بھی پلٹ کر جانا نہیں چاہتی کہ اتنی آزادی تو اپنی ریاست میں بھی نہیں ملتی کہ جس کے آپ بھلے خود بادشاہ ہوں۔ کیونکہ بادشاہت کے بھی کچھ تقاضے و ضروریات ہوا کرتی ہیں۔

پھر کچی عمروں میں عمو ما پکے مرد ایسی بچیوں پہ محبت کے ڈورے ڈالتے ہیں اور وہ اپنے کچے پن کی وجہ سے ان کے پکے ڈراموں کو جانچ نہیں پاتیں کہ اسی کا نام محبت ہے یا یہ کوئی محبت کا کھیل ہے؟ اور اسی کشمکش میں بے شمار لڑکیاں دو ٹانگوں کے درمیان لگے آرے سے کاٹ دی جاتی ہیں۔ کچھ پہ ٹریکٹر چل جاتے ہیں۔ اور نئی لڑکی ملنے تک وہ ایک داشتہ نما محبوبہ بنی رہتی ہے۔ مردانہ محبت کے سارے فلسفے اتنے پست ہوتے ہیں کہ ان کی آخیر کبھی گردن سے اوپر نہیں جاتی ہمیشہ ناف سے نیچے آتی ہے۔ گویا فلش کموڈ، نالی کسی بھی گلی محلے کی دیوار جس پہ لکھا ہوتا ہے ”یہاں پیشاب کرنے والا کتا ہے“ (مگر ناڑے کھولے سب بیٹھے ہوتے ہیں ) اور سوچ سب مترادف ہوتے ہیں۔

اس کی ایک بہت بڑی وجہ والدین خود بھی ہیں کہ جب وہ اولاد پال رہے ہوتے ہیں تو انہیں فقط یہ بتایا جاتا ہے کہ بہن تمہاری غیرت ہے۔ کبھی یہ نہیں بتایا جاتا کہ کسی کی بہن بھی غیرت ہے۔ تمہاری نہ سہی اپنے گھر والوں کی۔ کبھی یہ نہیں بتایا جاتا کہ ڈاکہ اپنے گھر میں ڈالا جائے یا دوسرے کے، ڈاکہ ہی ہوتا ہے۔

جب یہ بتایا جاتا ہے کہ تم پہ فرض ہے کہ تمہاری بہن کی طرف کسی کی غلط نظر نہ اٹھے تو تم کو بھی چاہیے کہ تمہاری بھی غلط نظر کسی کی بہن پہ نہ اٹھے۔

دوسری طرف والدین عملی طور پہ اپنی بیٹی کی ایک غیر معمولی حفاظت سے بیٹوں کو بیٹی کی حفاظت کی تربیت دے رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح اب ان دو رشتوں کی تربیت معاشرے کے اعتبار سے کرنا تو وہ سیکھ جاتے ہیں۔ مگر دوسروں کی بیٹی کی عزت کیسے کرنی ہے اس کی تربیت تو شادی والے باب میں بھی نہیں دی جاتی۔ اور عموماً یہی سوچا جاتا ہے کہ کسی کی بیٹی ہم صرف اپنے بیٹے کے جسمانی ارمان پورے کرنے اور نسل آگے بڑھانے کے لیے لائیں گے۔ باقی جو ہمارے ساتھ ہوا ہے اس کا بدلا محترمہ دلہن سے لیا جائے گا۔ گویا وہ ایک پورا کنبہ سنبھالنے والی مفت کی ملازمہ ہو گی۔

ایسی صورت میں یہی ہو گا جو ہو رہا ہے۔ جب والدین اپنی اولاد کو ہی انسان اور برابر کا انسان نہیں سمجھیں گے۔ ان کے ساتھ خود چھپن چھپائی کھلیں گے تو بچے بھلے لڑکی ہو یا لڑکی ان میں یہ چھپی چھپی محبتوں کے مزے والی کہانی تو جنم لے گی۔

ہمارے معاشرے میں شادی کا بندھن جنس سے کس غلط طرح جڑا ہو ہے اس کا اندازہ شادی کے لطائف سے ہوتا ہے۔ گویا جنس ایک جن ہے جو ہم پہ عاشق ہو چکا ہے اور ہمیں یہ بات کسی کو بتانی بھی نہیں ہے۔

گھروں میں ڈسکس بھی نہیں کرنی۔ نصاب میں پڑھائی بھی نہیں جانی، دوستوں سے کرتے بھی چھپ چھپ کر، اور یہ کہہ کر بتانی ہے ”یار کسی کو بتانا نہیں۔“

تو یہ لڑکے لڑکیاں جنہیں ہم تعلیم بھی دینا چا ہ رہے ہیں اس کے لیے آزادی بھی دے رہے ہیں۔ ان پہ کمائی بھی لگا رہے ہیں ان کو اچھے مقام پہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔

یہ دونوں یہ سب کیسے سیکھیں گے کہ ہمیں ساتھ کیسے چلنا ہے؟
گویا ہم ان کی شخصیت کی تربیت نہیں کر رہے۔
ہم معیوب کام چھپ کے کرتے یا گندے کام چھپ کے کرتے ہیں۔
کیا خیال ہے؟ ایسا ہی ہے ناں

تو محبت جس کو ہمارے خمیر میں گوندھا گیا ہے وہ بھی کوئی ایسا ہی جذبہ ہے جس سے بو آتی ہو۔ جس کو کرنے کے بعد ، ہمیں اس پہ مٹی ڈالنی پڑے گی کہ کسی دوسرے کو ہماری کارکردگی کی بو نہ آئے۔

عورت ہی نہیں، یہاں مرد بھی سماج کے بندھنوں میں اتناہی قید ہے کہ وہ اپنے جذبوں کا اظہار صیح طور پہ نہیں کر پاتا۔ نہ ہی درست سمت میں کنٹرول کر پاتا ہے۔

اس صورت حال میں، ایسی ہی صورت حال جنم لے گی۔ جسے ہم نے اس عظیم تصویر میں دیکھا ہے

اور

کاش میرے بس میں ہوتا تو میں ”محبت“ کے نام کی بہترین تصویر کا ایوارڈ اس تصویر کو ضرور دیتی۔ کہ مجھے علم ہے ہم محبت کے اسی عکس کے عکاس ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).