امریکی شاعرہ اماندا گورمن کی مشہور نظم کا ترجمہ



امریکی صدر جو بائیڈن کی تقریب۔ حلف برداری کے موقع پر پڑھی گئی اماندا گورمن کی شاندار نظم کا آزاد اردو ترجمہ۔ بائیس سالہ اماندا گورمن سیاہ امریکی شاعرہ ہیں۔ انہیں امریکہ میں نوجوانوں کی پہلی ملک الشعرا ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ترجمے میں نظم کا عنوان فیض احمد فیض کی ایک مشہور و معروف نظم سے مستعار ہے۔ جبکہ اوریجنل نظم کا اصل عنوان ہے
The Hill We Climb

اماندا گورمن کی اس معرکہ آرا تخلیق کو اردو میں ڈھالا ہے ادریس بابر نے۔

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

اس دن کی آمد پر ہم اپنے آپ سے پوچھتے ہیں، کبھی ختم نہ ہونے والی پرچھائیوں کے بیچ ہمیں روشنی کیسے میسر ہو سکتی ہے؟ جبکہ ہمیں اتنا نقصان بھرنا ہے جیسے کسی کو سمندر ہاتھ پیر مار کر پار کرنا ہو۔ ہم تو گویا درندے کے شکم سے برآمد ہونے میں کامران رہے ہیں۔

ہم نے یہ سیکھا ہے کہ سکوت کا مطلب ہمیشہ امن نہیں ہوتا اور ”مٹی ڈالو“ کا تصور ہمیشہ مبنی بر انصاف نہیں ہوتا۔ اور اس سب کے باوجود صبح طلوع ہو چکی ہے اور وہ بھی ہماری اپنی توقع سے کئی گھڑیاں قبل۔ کسی نہ کسی طرح ہم نے یہ کارنامہ کر ہی دکھایا ہے۔ کسی نہ کسی طرح ہم نے ایک ایسی قوم کا مشاہدہ بلکہ مقابلہ کیا ہے جو شکستہ نہیں بلکہ محض ادھوری ہے۔

ہم ایک ایسے ملک اور ایک ایسے زمانے کے جانشین ہیں، جہاں ایک دبلی پتلی سیاہ فام لڑکی جو غلاموں کی نسل سے ہو اور جسے اکیلی ماں نے پالا پوسا ہو، وہ بھی ملک کی صدر بننے کا خواب دیکھ سکتی ہے، ابھی چاہے اسے خود صدر کے سامنے نظم پڑھنے کا موقع ہی میسر آیا ہو۔

بیشک ہم بہترین نہیں ہیں، بے عیب ہونے سے کوسوں دور ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ایک ایسا اتحاد بنانے لگے ہیں جو ہر لحاظ سے کامل ہو۔ ہم تو ایسا اتحاد قائم کرنے چلے ہیں جو بامقصد ہو، اور ایک ایسے ملک کی تشکیل کے لئے کوشاں ہیں جو کہ بنی نوع انسان کی تمام ثقافتوں، رنگوں، کرداروں اور حالات سے ہم آہنگ ہو۔ اور اسی لیے ہم یہ خاطر میں نہیں لائیں گے کہ ہمارے درمیان کون سی خلیجیں حائل ہیں بلکہ ان مسائل طرف توجہ دیں گے جو ہمارے سامنے ہیں۔ ہم ان تمام خلیجوں کو پاٹ دیں گے کیونکہ ہم اپنے مستقبل کو ترجیح دینا جانتے ہیں۔ ہمیں اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ دینا ہو گا۔

ہمیں اپنے ہتھیار پھینکنے ہوں گے تاکہ ہم میں سے ایک کے بازو دوسرے کے بازوؤں تک پہنچ سکیں۔ ہم کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچانا چاہتے بلکہ سبھی کے لئے ہم آہنگی چاہتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو دنیا بھر کو پتا چلے کہ یہ سچ ہے، کہ تکلیف اٹھانے کے ساتھ ساتھ ہم نمو پاتے چلے گئے، اور ہم نے بھلے کتنے ہی آزار سہے، آرزو مندی کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔

اس کے با وجود کہ ہم تھک چکے تھے، ہم نے کوشش جاری رکھی۔ یہ کہ ہم سدا ایک دوسرے سے جڑے رہیں گے، فتح یاب رہیں گے، اس لئے نہیں کہ ہم پھر کبھی شکست کا مزا نہیں لکھیں گے، بلکہ اس لیے کہ ہم پھر کبھی تقسیم کے بیج نہیں بونے دیں گے۔

آسمانی صحیفے بھی ہمیں جو تصور قائم کرنے کو کہتے ہیں اس میں ہر شخص اپنی انگور کی بیل اور اپنے انجیر کے درخت کے سائے تلے چین سکون سے رہے گا، اور کوئی بھی کسی کو ڈرا دھمکا نہیں پائے گا۔

اگر ہم واقعی اپنے زمانے کے شایان شان زندہ رہنا چاہتے ہیں تو فتح ہمارے لیے تلوار لہراتے پھرنے کا نام نہیں بلکہ ہر وہ پل جو ہم نے بنایا ہے اسے عبور کرنے سے عبارت ہے۔ یہ پہاڑی ہم تبھی سر کر سکتے ہیں اگر ہم اپنی تمام تر استقامت بروئے کا رلائیں۔ اس کی سیدھی وجہ یہ ہے کہ امریکی ہونا۔ محض ایک عظیم ورثے پر فخر جتلانے سے کہیں زیادہ کچھ ہے۔ اس میں وہ ماضی بھی شامل ہے جس میں ہم نے قدم رکھ دیا ہے اور یہ چیز بھی کہ اس کی بحالی کیسے ممکن ہو گی۔

ہم نے ایک ایسی طاقت کا مقابلہ کیا ہے جو ہماری قوم کو باہم توڑنے کی بجائے توڑ پھوڑ پر آمادہ تھی۔ جمہوریت میں تاخیر تک جسے گوارا تھی، چاہے اس کا مطلب ملک کی تباہی بربادی کیوں نہ ہو۔

اور یہ کوشش قریب قریب کامیاب ہی ہو چلی تھی۔ لیکن یاد رہے کہ جمہوریت کو عارضی طور پر تاخیر کا نشانہ تو بنایا جا سکتا ہے، لیکن اسے مستقل طور پر کبھی شکست نہیں دی جا سکتی۔ اسی صداقت میں، اسی ایمان میں، ہم بھروسا رکھتے ہیں۔ کیونکہ جیسے ہم مستقبل پر نظر رکھے ہوئے ہیں ویسے ہی تاریخ کی نظریں ہم پر گاڑی ہیں۔

بالکل! یہ اصلاح احوال کا دور ہے۔ ہم اس قوت کے فریب سے خوف زدہ تھے۔ ہمیں لگتا تھا ہم اس خوفناک گھڑی کے وارث بننے کے لئے تیار نہیں، لیکن اسی ساعت کے بطن سے ہمیں ایک نیا باب لکھنے کی طاقت ملی، ایک ایسی شکتی جو ہمارے لیے امید افزا اور مسرت بخش ہے۔

لہذا، جہاں پہلے ہم پوچھتے تھے کہ ”ہم تباہی پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟“ ، وہاں اب ہم زور دے کر کہتے ہیں کہ ”تباہی ہم پر غالب ہی کس طرح سکتی ہے؟“ ۔ جو بھی ہوا، ہم اس کی طرف واپس مارچ نہیں کریں گے، بلکہ جو ہونا ہے اس طرف قدم بڑھائیں جائیں گے، ایک دھرتی جو زخمی سہی پھر بھی سموچی ہے، جو مہربان ہوتے ہوئے دلاور بھی ہے، اور آزاد ہونے کے ساتھ ساتھ محکم بھی ہے۔ ہم نہ تو الٹے پاؤں واپس مڑیں گے نہ ہی کسی خوف و ہراس کے آگے گھٹنے ٹیکیں گے۔

ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری بے عملی اور جمود اگلی نسل کو منتقل ہو سکتی ہیں۔ ہماری فاش غلطیاں ان کے واسطے بھاری بوجھ بن جائیں گئی۔ تاہم ایک بات طے ہے۔ اگر ہم رحمت کو طاقت سے ملا دیں اور طاقت کو صداقت میں ضم کردیں تو پھر محبت ہی ہماری میراث ٹھہرے گی اور تبدیلی ہمارے بچوں کا پیدائشی حق بن کے رہے گی۔

تو آئیں ہم اپنے بعد ایک ایسا ملک چھوڑ کے جائیں جو اس ملک سے کہیں بہتر ہو جو ہمیں دیا گیا تھا۔ مجھے اپنے کانسی کے سینے میں سمائے سانس کی قسم! ہم اس زخمی دنیا کو ایک شاندار دنیا میں بدل کریں گے۔ ہم امریکہ کے مغرب کی سونا لدی پہاڑیوں میں سر اٹھائیں گے، ہم امریکہ کے ہوا بردوش شمال مشرق سے بلند ہوں گے جہاں ہمارے اجداد نے پہلے پہل انقلاب کا خواب دیکھا تھا۔

ہم امریکہ کی وسط غربی ریاستوں کے جھیل کنارے پھیلے شہروں میں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ہم امریکہ کے دھوپ میں تپے ہوئے جنوب کے بیچ سے اٹھیں گے۔ ہم اپنے وطن کے کونے کونے میں تعمیر۔ نو کریں گے، مفاہمت سے کام لیں گے اور بحالی کو فروغ دیں گے، ہمارے لوگ متنوع اور خوبصورت لوگ، مشقت زدہ اور خوبصورت بن کر ابھریں گے۔

آمد آمد ہے اس دن کی جب ہم پرچھائیوں کو جھٹک کر نمودار ہوں گے، آتش بجاں ہو کر، بے خوف ہو کر۔

صبح نو نمودار ہو رہی ہے اور کیوں نہ ہو کہ ہم ہی تو اسے بازیاب کرانے میں کامیاب رہے ہیں۔ کیوں نہ ہو کہ روشنی تو ہمیشہ ہمیش سے موجود ہے، ہاں ہم اتنے دلیر ہوں سہی کہ روشنی کو دیکھنے کے قابل ہوں، ہم اتنے بہادر ہوں سہی کہ خود روشنی بن جانے کے اہل ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).