لال قلعہ: انڈیا کی تاریخی، ثقافتی اور جذباتی ہم آہنگی کی علامت


انڈین دارالحکومت دہلی کے قلب میں واقع لال قلعہ گزشتہ روز ساری دنیا کی میڈیا میں اس وقت سرخیوں میں آ گیا جب ملک کے یوم جمہوریہ کے موقعے پر کسانوں کی ریلی کے سینکڑوں افراد لال قلعے میں داخل ہو گئے اور اس کی فصیلوں پر کسان تحریک کے پرچم لہرا دیے۔

پولیس کی اس قدر تعداد میں تعیناتی کے باوجود کسانوں کی ایک بھیڑ کا لال قلعے میں داخل ہونا کسانوں کے حق میں ہوگا یا نھیں، لیکن یہ قلعہ صدیوں سے چلی آ رہی جدو جہد کی علامت کا مظہر ضرور ہے۔

تاریخی طور پر اگر دیکھیں تو لال قلعہ دور جدید سے قبل سے ہی انڈیا کی سالمیت اور تنوع کے مرکز کی علامت رہا ہے اور یہ خیال صدیوں سے لوگوں کے ذہن میں پیوست ہے کہ لال قلعہ جس کے قبضے میں، ہندوستان اس کا۔

بنارس ہندو یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر تعبیر کلام کا کہنا ہے کہ پورے برصغیر پر لال قلعے کی حاکمیت اورنگزیب کے دور میں اپنے عروج پر پہنچتی ہے جب وہ جنوبی ہند کو بھی اپنے تسلط میں لے آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا کسانوں نے دلی کے لال قلعہ سے انڈین جھنڈا اتار کر خالصتان کا پرچم لہرایا تھا؟

کیا 111 سالہ بڑھیا کی کہانی نے بابر کو ہندوستان کی فتح کا خواب دکھایا؟

کسان مورچہ کا دلی میں پریڈ ختم کرنے لیکن احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا اعلان

چنانچہ سنہ 1857 کا ‘غدر’ یا ‘پہلی جنگ آزادی’ ہو، یا پھر موجودہ میانمار کے دارالحکومت رنگون میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی جلا وطنی، انڈیا کی تحریک آزادی کے رہنما اور آزاد ہند فوج کے بانی سبھاش چندر بوس کا ‘دہلی چلو’ نعرہ ہو، یا پھر انڈیا کی آزادی کے دن 15 اگست سنہ 1947 کو لال قلعے کے لاہوری دروازے کی فصیلوں سے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کا خطاب، یہ سب لال قلعے کی عظمت اور ‘دی آئیڈیا آف انڈیا’ اور اس کی سالمیت کی علامت رہا ہے۔

ان سب پر نظر ڈالنے سے پہلے لال قلعے کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور اس کی تعمیر سے لے کر اب تک اس کو فتح کرنے اور ہندوستان کو علامتی طور پر فتح کرنے کا محاکمہ کرتے ہیں۔

دہلی کی تاریخی اہمیت

زمانۂ قدیم سے دہلی کو جنوب ایشیا کے اس خطے میں مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ راجہ اندر کی راجدھانی اندرپرستھ تھی لیکن اس کی عملداری کہاں تک تھی، اس کے متعلق قطیعت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔

البتہ سنہ 1206 میں مملوک سلطنت کے قیام کے بعد سے دہلی ہندوستان کی اہم ترین ریاستوں کا دارالسلطنت رہی۔

اگرچہ دوسری ریاستیں بھی خطے میں پھلتی پھولتی رہیں لیکن جو دبدبہ اور رتبہ دہلی سلطنت کو ملا وہ اس دور میں کسی دوسری سلطنت کو نہیں مل سکا۔

مملوک سلطنت کے بعد خلجی سلطنت (1330-1290) کا قیام عمل میں آیا اور اس کا پایۂ تخت بھی موجودہ دہلی قرار پایا۔ واضح رہے کہ موجودہ دہلی میں خلجی کے بعد تغلق، سید اور لودھی سلاطین کے پایۂ تخت کے مختلف مقامات پر ہونے کے آثار اب بھی موجود ہیں۔

مغلوں نے سنہ 1526 میں دہلی کو فتح تو کر لیا لیکن انھوں نے اپنا دارالحکومت دہلی سے تقریبا ڈھائی سو کلومیٹر دور شہر آگرے کو بنایا۔ یہاں تک کہ مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر کے پوتے اکبر نے وہاں سے تقریبا 50 سال تک حکومت کی۔

لیکن جلال الدین محمد اکبر کے پوتے شاہ جہاں نے ایک بار پھر دہلی کو اپنا دارالسلطنت بنایا اور سنہ 1639 میں شاہجہان آباد نام کا شہر بسایا جو کہ دہلی کے اندر ہی سابقہ تمام سلطنتوں کے شمال میں فیروز شاہ کوٹلہ سے ذرا آگے کی جانب آباد ہوا۔

یعنی تقریباً 400 سال بعد بھی اس شہر کے قلعے کا علامتی طلسم زندہ اور برقرار ہے۔ سنہ 1857 میں یہ غدر کا مرکز تھا جہاں سے انگریزی حکومت کے خلاف ایک جدجہد کا آغاز کیا گیا تھا جو ناکامی کا شکار ہو گيا۔

اس بغاوت یا انقلاب کے بعد سے انڈیا میں انگریزوں کی مکمل عملداری قائم ہو گئی۔ اب تک وہ مشرق میں آباد شہر کولکتہ سے حکومت کر رہے تھے لیکن دہلی کی تاریخی اور جغرافیائی افادیت کے پیش نظر سلطنت برطانیہ نے اپنا دارالحکومت منتقل کرکے دہلی کر دیا۔

لال قلعے کی علامتی معنویت

سرخ پتھر سے تعمیر شاہجہاں آباد کے قلعے کو آج لال قلعے کے نام سے جانا جاتا ہے جو اپنی شان و شکوہ اور قوت و صلابت کا استعارہ ہے۔

انگریزی میں اسے ’ریڈ فورٹ‘ کہا گيا اور دنیا بھر میں یہ اسی نام سے مشہور ہے۔ لیکن اسے سب سے پہلے ‘قلعہ مبارک’ کہا گيا پھر، ‘قلعہ شاہجہان آباد’ اور پھر ‘قلعہ معلی’ کہلایا۔ بعد میں عرف عام میں اسے لال قلعہ کہا گیا۔

قلعے میں بہت سی عمارتیں شاہجہاں کے بعد بھی تعمیر ہوئیں، یہاں تک کہ انگریزوں نے بھی اس میں اپنے انداز کی مختلف عمارتیں بنوائیں۔

جب افغان بادشاہ نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا تو انھوں نے دہلی کے لال قلعے کو فتح کر کے یہ بتا دیا کہ وہ ہندوستان پر قابض ہو گئے ہیں۔ لیکن وہ جاتے جاتے لال قعلے سے تخت طاؤس اور کوہ نور ہیرا بھی لیتے گئے۔

1739 میں نادر شاہ کے حملے کے بعد مراٹھوں، سکھوں، جاٹوں، گجروں، روہیلا اور افغانیوں نے حملے کیے اور مغلوں کے اقتدار کو پے بہ پے زک پہنچایا۔

موجودہ دور میں لال قلعے کی علامتی معنویت پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بنارس ہندو یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر تعبیر کلا نے کہا کہ انڈیا میں کوئی دوسری ایسی عمارت نہیں ہے جسے یہ مرتبہ حاصل ہو کہ وہ انڈیا کے تنوع، تہذیبی ہم آہنگی اور یگانگت کو اس طرح پیش کرتی ہو جیسا کہ لال قلعہ پیش کرتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ‘اورنگزیب کے دور سے اب تک لال قلعے کو جو مرتبہ حاصل ہے وہ کسی دوسری عمارت کو حاصل نہیں ہے۔ ہم اورنگزیب کی بات اس لیے کر رہے ہیں کہ اسی کے عہد میں اس پورے بر صغیر پر لال قلعے کی حکمرانی تھی۔’

انھوں نے بتایا کہ جب مغل حکومت زوال پذیر ہو گئی اور بادشاہ شاہ عالم کے زمانے میں یہ کہا جانے لگا کہ ‘از دہلی تا پالم، بادشاہی شاہ عالم’، اس زمانے میں بھی دوسری آزاد ریاستیں جیسے نظام حیدرآباد، نواب اودھ یا نواب بنگال یہ تینوں بڑی ریاستیں اپنے آپ کو علامتی طور پر مغل حکمرانی کے ماتحت سمجھتے تھے، اگر چہ وہ اپنے فیصلے اور دوسری چیزوں میں آزاد اور خود مختار تھے۔’

جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے اکیڈمی آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں پروفیسر محمد سہراب کا کہنا ہے کہ دور جدید میں لال قلعہ گاندھی، نہرو، ابوالکلام آزاد اور سبھاش چندر بوس کے ہندوستان کے تصور کی علامت ہے جس سے قومی سالمیت، جمہوری اقدار کی پاسداری اور مذہبی ہم آہنگی کی ایک طویل تاریخ وابستہ ہے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ‘اس آئیڈیا آف انڈیا کو ہندوتوا نوازوں نے نقصان پہنچایا ہے اور گذشتہ روز کسانوں کی وہاں آمد نے ایک بار پھر اس کی تاریخی معنویت کو اجاگر کیا ہے۔’

پروفیسر سہراب نے کہا کہ ‘لال قلعہ جس مذہبی اور تہذیبی فیڈرلزم یعنی وفاق کو پیش کرتا آیا ہے، ہندوتوا نواز اس ایجنڈے کو زک پہنچاتے رہے ہیں۔ اور انڈیا میں ان دنوں جو ایک قسم کی آمریت پیدا ہو رہی ہے اس کو کسانوں نے چیلنج کیا ہے۔’

ان کے خیال میں لال قلعہ تاریخی طور پر غلامی اور تسلط کے خلاف بغاوت کی علامت رہا ہے۔

انھوں نے حال ہی امریکہ کے کیپیٹل ہل میں سفید فام کی برتری کے نظریات کے حاملین سے کسانوں کی تحریک کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘جہاں وہ ابراہم لنکن کے زمانے میں اٹھنے والی نسل پرستانہ تحریک کی یاد دلاتا ہے، وہیں اس کے برعکس گذشتہ روز لال قلعے تک پہنچنے والی کسان تحریک ہندوستان میں آمریت کی جانب بڑھنے والے قدم کے چیلنج کا مظہر ہے۔’

لال قلعہ

کسان تحریک کے تناظر میں لال قلعے کی تاریخی معنویت

مغل شان و شوکت کی علامت رہنے والا لال قلعہ ایک زمانے تک وطن پرستی اور بہادری کی کہانیوں سے گونجتا رہا ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جاوید عالم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب 15 اگست 1947 کو انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے لال قلعے کی فصیل پر آزاد ہندوستان کا پرچم (ترنگا) لہرایا، تو وہاں سے ایک نئے ملک کا جنم ہوتا ہے اور اس کی باز گشت ہر سال یوم آزادی کے موقعے پر سنائی دیتی ہے جب ملک کے وزیر اعظم ہر سال اس کی فصیل سے قوم کو خطاب کرتے ہیں۔’

انھوں نے معروف تاریخ داں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر مشیر الحسن کے حوالے سے بتایا کہ لال قلعہ سے کیا جانے والا خطاب ملک کے اندر کے علاوہ بیرونی دنیا کو بھی انڈیا کا پیغام ہوتا ہے۔

جامعہ ملیہ میں ہی پولیٹیکل سائنس کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نوید جمال نے بی بی سی کو بتایا کہ لال قلعے سے کی جانے والی تقریر میں انڈیا کی پالیسی کو بیان کیا جاتا ہے جو کہ پوری دنیا کے لیے اہمیت کا حامل ہے اور یہ کام گذشتہ 74 سال سے مسلسل جاری ہے۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ دہلی کی تاریخی اور سیاسی حیثیت تو مسلم ہے ہی اس کا جغرافیائی محل وقوع بھی اسے انڈیا کا قلب بناتا ہے۔

اخبار ’دی ہندو‘ میں شائع ایک مضمون میں ثقافت کے تحفظ کے کارکن اور تاریخ داں وکرم جیت سنگھ روپ رائے کے حوالے سے لکھا ہے کہ آزاد انڈیا کے لیے ایک ایسے مقام کا انتخاب جس سے لوگ جذباتی طور پر جڑ سکیں، اہم تھا۔

یہ بات اہمیت کی حامل تھی کہ یہ عمارت سامراجی دور کی یاد دہانی نہ کرائے۔ اس لیے سنہ 1947 میں دہلی کو انڈیا کا دارالحکومت بنائے جانے کے بعد یہی واحد عمارت تھی جو ان سارے تقاضوں کو پورا کرتی تھی۔

خیال رہے کہ تاریخی طور پر انڈیا کے مجاہد آزادی سبھاش چندر بوس نے جب انگریزوں کے خلاف اپنی جنگ کا رنگون میں اعلان کی تھا تو انھوں نے ‘دہلی چلو’ کا نعرہ دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ‘تم میں مجھے خون دو میں تمہیں آزادی دوں گا’۔

اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ ‘ہمارے مشن اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک ہمارے زندہ بچ جانے والے ہیروز دہلی کے لال قلعے میں انگریزی سلطنت کی قبروں پر فتح کی پریڈ نہ کر لیں۔’

تاریخ کے پروفیسر امر فاروقی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ لال قلعے کو انڈیا کی اہم ترین تقریب کے لیے چنا جانا علامتی اور تاریخی طور پر 1857 میں کیے جانے والے مظالم کو درست کرنا نھیں تھا، بلکہ یہ دہلی میں ایسی واحد عمارت تھی جو برٹش انڈیا کی یادگار نھیں تھی۔

تاج برطانیہ کو بھی اس بات کا علم تھا اور جب دسمبر سنہ 1911 میں دارالحکومت کو دہلی منتقل کیا گیا تو اس وقت شاہ جارج پنجم اور ملکہ میری انڈیا کے دورے پر تھیں اور انھوں نے 13 دسمبر کو قلعے سے ‘جھروکا درشن’ دیا تھا، جو افتخار اس سے قبل صرف ہندوستانی بادشاہوں کو حاصل تھا۔

سنہ 1857 میں جس طرح 80 سال سے زائد عمر والے تاجدار بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو ملک سے طول و عرض سے آنے والے باغیوں نے اپنا رہنما اور سرپرست بنایا تھا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، وہ ایک ایسا استعارہ تھا جسے سبھاش چندر بوس کی شعلہ بیان تقریر نے ایک بار پھر سنہ 1940 کی دہائی کے وسط میں زندہ کر دیا تھا۔

لال قلعہ

تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ لال قلعے کی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا اس پر تسلط ہوا تو وہیں مغل بادشاہ اور شہزادوں اور باغیوں کے خلاف مقدمہ سنایا گیا اور بعض کو پھانسی اور بعضے کو جلاوطنی کی سزا سنائی گئی۔

اس کے تقریباً 90 سال بعد دوسری عالمی جنگ میں قید ہونے والے آئی این اے کے رہنماؤں کرنل شاہنواز خان، کرنل پریم کمار سہگل اور کرنل گربخش سنگھ ڈھلوں کو ان کے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران لال قلعے میں ہی قید رکھا گیا تھا۔

لال قلعے کی تاریخی اہمیت کے ساتھ اس کے ساتھ انڈیا کے ہر مذہب و ملت کے لوگوں کے جذباتی لگاؤ کا ذکر پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہروں نے بھی کیا، اور قوم سے ان کے پہلے خطاب کے بعد سے وہاں سے مسلسل انڈیا کے وزیر اعظم خطاب کرتے آ رہے ہیں اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی وہاں سے گذشتہ چھ سالوں سے خطاب کرتے آ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp