برصغیر کی فلمی صنعت: سہراب مودی وہ ہدایتکار جن کی فلموں کے شائقین نابینا افراد بھی تھے


پکار

’با ادب باملاحظہ ہوشیار’،’نگاہ روبرو‘، ’گوش برآواز‘ اور ’مابدولت‘۔۔۔ کون ہے جس نے تاریخی فلموں یا ڈراموں میں یہ مکالمے نہیں سنے۔ مگر کم لوگ ہیں جو اس بات سے باخبر ہیں کہ یہ مکالمے سب سے پہلے سہراب مودی نے اپنی فلم ’پکار‘ میں استعمال کیے تھے اور انھیں اختراع کرنے والے مصنف کمال امروہی تھے۔

برصغیر میں فلم سازی کا آغاز دیومالائی فلموں سے ہوا اور پھر آہستہ آہستہ ان کا رخ تاریخی فلموں کی جانب مڑ گیا اور تاریخی واقعات پر مبنی فلمیں بننے کا آغاز ہوا۔

اس طرح کی فلموں کا سلسلہ عالم آرا سے جودھا اکبر اور چندر گپت تک پھیلا ہوا ہے، مگر اس ضمن میں جس ہدایت کار کو رجحان ساز کہا جاسکتا ہے وہ بلاشبہ سہراب مودی تھے۔

سہراب مودی، جن کا پورا نام سہراب مہروان مودی تھا، دو نومبر1897 کو رامپور کے ایک پارسی گھرانے میں پیدا ہوئے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب تھیٹریکل کمپنیوں پر پارسیوں کی اجارہ داری تھی۔ سہراب مودی نے بھی اپنے کیریئر کا آغاز تھیٹریکل کمپنیوں میں اداکاری سے کیا۔ پھر ہدایت کاری کی طرف آئے اور ایک تھیٹریکل کمپنی قائم کی، جس کا نام ’آریہ سبودھ تھیٹریکل کمپنی‘ تھا۔ یہ کمپنی 11 سال تک قائم رہی۔

1931 میں عالم آرا سے متکلم فلموں کا آغاز ہوا تو عوام کا رجحان تھیٹر سے ہٹ کر فلموں کی جانب ہو گیا۔

سہراب مودی بھی اس تبدیلی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انھوں نے شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے ’ہیملٹ‘ کو اردو زبان میں پردہ سیمیں پر پیش کرنے کا ڈول ڈالا۔

یہ فلم ’خون کا خون‘ کے نام سے پیش ہوئی۔ اداکاروں میں سہراب مودی کے علاوہ دہلی کی مشہور گلوکارہ شمشاد بیگم عرف چھمیا اور ان کی بیٹی نسیم بانو بھی شامل تھیں۔ سہراب مودی کی اس اولین کاوش کو لوگوں نے بہت سراہا۔

خون کا خون 1935 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی، اس کی کامیابی سے متاثر ہوکر اگلے برس سہراب مودی نے اپنے فلم ساز ادارے ’منروا مووی ٹون‘ کی بنیاد رکھی ۔ اسی زمانے میں ان کی ملاقات کمال امروہی سے ہوئی۔

کمال امروہی کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا، ان کے رشتے کے بھائیوں سید محمد تقی، رئیس امروہوی اور جون ایلیا نے ادب کی دنیا میں دھوم مچائی۔

کمال امروہی کو ابتدا ہی سے فلموں کا شوق تھا اور اسی شوق کے ہاتھوں وہ بمبئی پہنچے تھے۔ بمبئی میں کمال امروہی نے کسی نہ کسی طرح سہراب مودی تک رسائی حاصل کر لی۔

سہراب مودی

انھوں نے سہراب مودی سے کہا کہ میں آپ کے فلم کی کہانی اور مکالمے لکھنا چاہتا ہوں، سہراب مودی، کمال امروہی کی جرات سے بڑے حیران ہوئے۔ کمال امروہی نے ان کی حیرت کو دیکھتے ہوئے کہا کہ ’مودی صاحب! میں دیکھنے کی نہیں سننے کی چیز ہوں۔‘

یہ جملہ سنتے ہی سہراب مودی چونک پڑے اور انھوں نے کمال امروہی کو اپنی اگلی فلم کی کہانی اور اس کے مکالمے لکھنے کی ذمے داری سونپ دی۔ کمال امروہی نے انھیں اپنی ایک کہانی آہوں کا مندر سنائی جو سہراب مودی کو بہت پسند آئی۔ سہراب مودی نے اس کہانی پر فلم ’جیلر‘ بنائی جو بہت مقبول ہوئی۔

جیلر کی مقبولیت کے بعد سہراب مودی نے تاریخی موضوعات پر فلمیں بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس موضوع پر ان کی پہلی فلم ’پکار‘ تھی جس نے تاریخی فلموں کی کامیابی کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔

یہ فلم 1939 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی، فلم کی کہانی اور مکالمے کمال امروہی نے لکھے تھے، ان کے لکھے ہوئے مکالموں نے، جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے، انڈیا بھر میں دھوم مچا دی۔ اس فلم میں ملکہ نور جہاں کا کردار نسیم بانو نے اور جہانگیر کا کردار چندر موہن نے ادا کیا تھا۔ یہی وہ فلم تھی جس نے نسیم بانو کو ’پری چہرہ‘ کا خطاب عطا کیا۔

سعادت حسن منٹو فلم ’پکار‘ کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ’فلم ’پکار‘ کی نمائش عظمیٰ پر میں مدعو تھا۔ جہانگیر کے عدل و انصاف کا ایک من گھڑت قصہ تھا۔ جو بڑے جذباتی اور تھیٹر کے انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ فلم میں دو باتوں پر بہت زور تھا۔

مکالموں پر اور ملبوسات پر۔ مکالمے گو، غیر فطری اور تھیٹر کا انداز لیے ہوئے تھے لیکن بہت زوردار اور پرشکوہ تھے جو سننے والوں پر اثر انداز ہوتے تھے چونکہ ایسی فلم اس سے پہلے نہیں بنی تھی اس لیے سہراب مودی کی ’پکار‘ سونے کی کان ثابت ہونے کے علاوہ برصغیر کی صنعت فلم سازی میں ایک انقلاب پیدا کرنے کا موجب بنی۔

نسیم کی اداکاری کمزور تھی، لیکن اس کمزوری کو اس کے خداداد حسن اور نور جہاں کے لباس نے جو اس پر خوب سجتا تھا اپنے اندر چھپا لیا۔‘

مرزا غالب

1941 میں منروا مووی ٹون کی ایک اور فلم ’سکندر‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ سکندر اعظم کے ہندوستان پر حملے پر مبنی ایک تاریخی فلم تھی۔

فلم میں سکندر اعظم کا مرکزی کردار پرتھوی راج نے ادا کیا۔ ابتدا میں سنسر بورڈ نے اس فلم کی نمائش کی اجازت دے دی مگر بعد میں بورڈ کو اس فلم کے کچھ مناظر پر اعتراض ہوا جو دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے حکومت برطانیہ کے خلاف ردعمل پیدا کرسکتے تھے چنانچہ کنٹونمنٹ کے علاقوں میں اس فلم کی نمائش ممنوع قرار دے دی گئی۔ یہ فلم بھی کامیاب ہوئی اور متعدد مرتبہ نمائش پذیر ہوئی۔

1950 میں بمبئی کے ایک سینما گھر میں سہراب مودی کی یادگار فلم ’شیش محل‘ نمائش پزیر ہوئی۔ سہراب مودی خود بھی سینما گھر میں موجود تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ فلم بینوں کی اگلی نشست پر ایک شخص آنکھ بند کر کے بیٹھا ہوا ہے۔

سہراب مودی کو دلی تکلیف ہوئی کہ وہ فلم بین ان کی فلم دیکھنے کی بجائے سو رہا ہے۔ انھوں نے منیجر کو بلایا اور کہا کہ اس شخص کو ہال سے جانے کے لیے کہیں اور اس کے ٹکٹ کے پیسے واپس کر دیں۔ تھوڑی کے بعد منیجر سہراب مودی کے پاس آیا اور اس نے بتایا کہ وہ شخص نابینا ہے اور صرف آپ کی فلم کے مکالمے سننے کے لیے آیا ہے۔

منروا مووی ٹون نے جو دوسری فلمیں پیش کیں ان میں پرتھوی ولبھ جھانسی کی رانی، مرزا غالب اور نوشیروان عادل خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

1953 میں ریلیز ہونے والی جھانسی کی رانی ہندوستان کی پہلی رنگین فلم تھی جس کے لیے خصوصی کیمرے، آلات اور تکنیک کار امریکہ سے منگوائے گئے تھے۔ فلم بہت زیادہ کامیاب نہیں رہی البتہ مرزا غالب بہت کامیاب ہوئی۔ اس فلم کی بھی کوئی تاریخی بنیاد نہیں تھی۔

کمال امروہی
سہراب مودی کی فلم ‘پکار’ کے مکالمے اختراع کرنے والے مصنف کمال امروہی تھے

فلم میں غالب کا کردار بھارت بھوشن نے اور غالب کی محبوبہ کا کردار ثریا نے ادا کیا۔ یہ فلم 1954 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی اور اس نے اس برس کا بہترین فلم کا قومی ایوارڈ حاصل کیا۔ اس فلم میں ثریا کی گائی ہوئی غالب کی غزلوں نے ہندوستان میں بھر میں دھوم مچا دی۔

ایک محفل میں جب انڈین وزیراعظم جواہر لال نہرو کی ملاقات ثریا سے ہوئی تو انھوں نے ثریا سے کہا کہ تم نے غالب کو پھر سے زندہ کردیا ہے۔ مرزا غالب کی نمائش سے منروا مووی ٹون کو بہت آمدنی ہوئی اور اس آمدنی کے ایک حصے سے سہراب مودی نے دہلی میں مرزا غالب کا مزار تعمیر کروایا۔

سہراب مودی کی دوسری فلموں میں آتما، ترنگ، خان بہادر، میٹھا زہر، شیش محل، طلاق، بھروسہ، پھر ملیں گے، راج ہٹ، کندن اور میرا گھر میری جنت جیسی فلمیں شامل ہیں۔

ان فلموں میں سے بعض میں سہراب مودی نے فلم سازی اور ہدایت کاری کے ساتھ ساتھ اداکاری کے جوہر بھی دکھائے، ہدایت کار کی حیثیت سے ان کی آخری فلم ’میناکماری کی امر کہانی‘ تھی اور اداکار کی حیثیت سے ’رضیہ سلطانہ‘ جو فلم ’پکار‘ کے کہانی نویس اور مکالمہ نگار کمال امروہی کی زیر ہدایت بنائی گئی تھی۔

سہراب مودی کہا کرتے تھے ’جس زمانے میں ہم نے فلمیں بنائیں اس زمانے میں تکنیکی سہولتوں کا فقدان تھا۔ مگر ہم ہمت نہیں ہارتے تھے اور ان کم سہولتوں کے باوجود اعلیٰ فلمیں تخلیق کرتے تھے۔ جھانسی کی رانی کے دنوں میں ہم نے امریکہ سے ایک کیمرہ مین ارنسٹ ووہلر کو بلوایا۔ اس نے جب ہمیں اس حالات میں کام کرتے ہوئے دیکھا تو ہمارے نتائج دیکھ کر حیران رہ گیا۔‘

’ہم اچھے نتائج کے لیے اس لیے بھی محنت کرتے تھے کہ فلمی صنعت دنیا کی واحد صنعت ہے جہاں ایک ناکامی ساری زندگی کی محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔ ہمیں ہمیشہ اپنی پچھلی فلم کی بجائے اپنی اگلی فلم کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے، یہی وجہ تھی کہ میں کہا کرتا تھا میری بہترین فلم ابھی بنی نہیں ہے، پھر ہم میں اعتماد بھی بہت تھا، جو آج کل کے فلم سازوں اور ہدایت کاروں میں دور دور تک نظر نہیں آتا ہے، ایک مرتبہ ’دی لاسٹ ہورائزن‘ والے فرینک کاپر میرے سٹوڈیوز میں آئے تو انھوں نے کہا ’سہراب مودی انڈیا کے سیسل بی ڈیمل ہیں‘ میں نے کہا ’معاف کیجیے گا، میں آپ کے جملے میں ذراسی تصحیح کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ سیسل بی ڈیمل امریکہ کے سہراب مودی ہیں۔‘

پکار
منٹو نے لکپا کہ نسیم کی اداکاری کمزور تھی، لیکن اس کمزوری کو اس کے خداداد حسن اور نور جہاں کے لباس نے جو اس پر خوب سجتا تھا اپنے اندر چھپالیا

سہراب مودی کی بیوی مہتاب بھی خاصی معروف اداکارہ تھیں ان کا اصل نام نجمہ تھا اور وہ 20 اپریل 1918 کو بمبئی میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے خاموش فلموں کے دور میں فلم ’کمال شمشیر‘ میں کام کیا۔ تاہم انھیں صحیح کامیابی کیدار شرما کی فلم ’چتر لیکھا‘ سے ملی، جس میں انھوں نے غسل کے مناظر فلم بند کروا کر اس زمانے میں سنسنی پھیلا دی تھی۔

ان کی دوسری فلموں میں رن چنڈی، سینما کی رانی، بھولا شکار، قیدی، معصوم، بھگت کبیر، شمع، قانون، جیون، ایک دن کا سلطان، ساتھی اور بیرم خان کے علاوہ جھانسی کی رانی شامل تھیں۔ جھانسی کی رانی جو سہراب مودی نے بنائی تھی بحیثیت اداکارہ مہتاب کی آخری فلم تھی۔

مینا کماری کی امر کہانی

سہراب مودی کی وفات 28 جنوری 1984 کو بمبئی میں ہوئی۔ وفات سے چند برس پہلے انھوں نے اپنی زندگی کی کامیاب ترین فلم ’پکار‘ کو نئے ستاروں کے ساتھ دوبارہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس فلم کے گیت بھی انھوں نے ریکارڈ کروا لیے تھے، مگر ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔

اپنی وفات سے قبل سہراب مودی، تان سین کے بیٹے بلاس خان کی زندگی پر ایک فلم ’گرو دکھشنا‘ کے نام سے بنا رہے تھے، اس فلم میں تان سین کا کردار راج کمار کو اور اکبر اعظم کا کردار امجد خان کو دیا گیا تھا۔

تان سین کے بیٹے بلاس خان کے لیے سہراب مودی کے ذہن میں تین اداکار سنی دیول، فاروق شیخ اور انیل کپور تھے۔ جن میں سے ایک کا انتخاب ہونا تھا۔ بلاس خان کی محبوبہ کا کردار پدمنی کولہاپوری ادا کر رہی تھیں، مگر گرودکھشنا کے مہورت کے بعد سہراب مودی اچانک علیل ہو گئے اور یوں ان کی یہ آخری فلم بھی نامکمل رہ گئی۔

اپنی فلم ’مرزا غالب‘ کے لیے صدر جمہوریہ کا گولڈ میڈل اور ہندوستانی فلموں میں بے پناہ خدمات کے لیے دادا صاحب پھالکے اعزاز حاصل کرنے والے سہراب مودی اپنے پیچھے اپنی بیوی مہتاب اور دو بیٹوں کے علاوہ اپنی نامکمل فلم گرودکھشنا اور اپنے فن کے لازوال شاہکار چھوڑ گئے ہیں جن پر برصغیر کی فلم سازی کی صنعت ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp