پاکستان سیٹیزن پورٹل کی ناکامی میں کس کا ہاتھ؟



قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ کے باب ”ڈپٹی کمشنر کی ڈائری“ میں عیدو نامی اس شخص کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ جس کی زمینوں کا کچھ مسئلہ تھا اور پٹواری سے تنگ آ کر اس نے وزیر اعلیٰ سے لے کر گورنر، وزیر برائے مہاجرین، کمشنر، ڈپٹی کمشنر سب کو درخواست جمع کرا رکھی تھی۔ وہ سب کی سب درخواستیں اوپر سے ”برائے مناسب کارروائی“ کی ہدایت لیتے لیتے دوبارہ اس شخص تک پہنچ جاتیں جس کے خلاف درخواست جمع کرائی گئی ہوتی۔

خان صاحب اقتدار میں آئے تو انہوں نے آتے ساتھ ہی شہریوں کی سہولت کے لئے شکایات پورٹل قائم کیا۔ جس پر کسی سرکاری ادارے یا شہری کے خلاف شکایت کی جا سکتی ہے۔ شکایت حل نہ ہونے کی صورت میں منفی فیڈ بیک دیا جا سکتا ہے۔ اس وقت عوام کو سبز باغ دکھایا گیا کہ نیگیٹو فیڈ بیک آنے کی صورت میں افسر کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

وزیراعظم کے شکایات پورٹل کا سن کر ہم نے بھی بہت چاؤ سے اسے انسٹال کر لیا اور لگے ہاتھوں ایک ادارے کی شکایت بھی کر دی لیکن ہونا کیا تھا، وہی ڈھاک کے تین پات، کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ نیگٹو فیڈ بیک دیا گیا تو بھی مسئلہ حل نہ ہوا۔ مگر ہم نے ہمت نہ ہاری اور اس کے علاوہ دیگر مختلف مسائل پر بھی چار شکایات کا اندراج کر دیا۔ لیکن افسوس کہ کسی ایک شکایت پر بھی مسئلہ حل نہ ہوا۔

سننے میں آیا ہے کہ شروع شروع میں اس کی کارکردگی کافی مؤثر تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہی بیوروکریسی کا شاہانہ مزاج آڑے آتا گیا اور شکایت حل ہونے کی بجائے حل کیے بغیر ہی کلوز کی جانے لگیں۔ جب سے ہم اس ذریعہ سے شکایت کر رہے ہیں، ابھی تک کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا۔

وزیراعظم کا شکایات پورٹل بھی قدرت اللہ شہاب کے دور کا وہ پٹواری بن چکا ہے کہ جس پر کسی کے خلاف کی جانے والی ہر شکایت اسی شخص تک پہنچ جاتی ہے اور وہ بغیر کسی مناسب کارروائی کے یہ کہہ کر شکایت کلوز کر دیتا ہے کہ اجی چھوڑیے جی، ان صاحب کا پیشہ وارانہ کام ہی شکایت کرنا ہے۔ صاحب کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ ان کی آہ و زاری پہ کان دھریں۔

جس طرح مشہور ہے کہ ہر سرکاری ہسپتال میں ایک ڈاکٹر صرف اس بات پر مامورہوتا ہے کہ وہ آنے والے مریض کے لواحقین سے یہ کہتا ہے کہ ”اینے نہیں بچنا، اینوں لہور لے جاؤ، اسی طرح مجھے لگتا ہے کہ ہر ادارے اور ہر افسر نے اپنا ایک ماتحت مامور کر رکھا ہے جس کا کام صرف اور صرف شکایات پورٹل پر آنے والی شکایات کو بغیر حل کیے بند کرنا ہے۔

شروع شروع میں یہ کہا گیا تھا کہ نیگیٹو فیڈ بیک آنے والی شکایت کو وزیراعظم کے دفتر کا عملہ خود دیکھے گا اور اس پر ایکشن لے گا مگر یہ سب بھی دوسرے وعدوں کی طرح ہوائی باتیں، جھوٹے وعدے اور سبز باغ ہی ثابت ہوئے کہ اب شکایت دوبارہ اسی محکمے کو بھیج دی جاتی ہے اور وہ محکمہ حل کیے بغیر ہی شکایت بند کر دیتا ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سٹیزن پورٹل پر کی گئی ایسی تمام شکایات جن کا فیڈبیک منفی میں ہے، ان کا وزیراعظم صاحب از خود نوٹس میں لیں مگر شاید اس سے بھی حل نہ نکلے کیونکہ رواج تو یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب جس چیز کا نوٹس لیں ، وہ چیز مارکیٹ سے ہی غائب ہو جاتی ہے، کہیں ایسا ہی نہ ہو کہ وزیراعظم صاحب کے نوٹس پر شکایت کرنے والا ہی اٹھا لیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).