دوسری بیوی


میرا بھی ضبط ہے میں آپ کے ساتھ پہلے دن سے کیسے رہ رہی ہوں۔ بہت کچھ برداشت کر کے میں نے آج تک آپ کی فیملی پر کچھ نہیں بولا ہمیشہ انتظار کیا ہے کیوں کہ میں جانتی ہوں میں دوسری بیوی ہوں میرا مقام بعد میں ہے اور میری مجبوری صرف محبت ہے ورنہ اس میں کوئی شک نہیں کمی آپ کو بھی نہیں تھی مجھے بھی نہیں میں نے بھی بہت سی قربانیاں دی ہیں آپ کو اس کا علم بھی اور مزید بھی دے رہی ہوں میں بزدل ہوتی تو کبھی بھی آپ سے ملنا پسند نہ کرتی تعلق نہ بناتی نکاح نہ پڑھتی۔ صبر میرا زیادہ ہے آپ تو پھر فون بند کر کے چلے جاتے ہو آرام سے۔ کبھی سوچا ہے مجھ پر کیا گزرتی ہے جب یوں چلے جاتے ہو۔

اگر میں نے کبھی کچھ نہیں کہا تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا یا کوئی پرواہ نہیں یہ میرا صبر ہے آپ کی محبت میں۔ مگر افسوس آپ کو آج تک مجھ پر اعتبار نہیں ہوا۔

مجھے بھی پہلے دن سے معلوم تھا میرا انجام کیا ہوگا مگر میں آپ کے ساتھ چلی۔

آپ نے تو بات ہی ختم کر دی یار۔

آمنہ فخر سے کال پر بات کر رہی تھی درد نے آمنہ کو کس طرح گھیرا تھا یہ اس کو بھی معلوم نہیں تھا۔ فخر اور آمنہ دونوں ہی اس بات سے با خبر تھے کہ یہ ان کی آخری کال ہے۔

عورت کی سب سے بڑی کمزوری ہے، وہ مان جاتی ہے۔ مرد پہلی شادی کرے تب بھی عورت کا درد ایک سا ہوتا ہے جہاں قانون قدرت ہے مرد چار شادیاں کر سکتا ہے وہاں اللہ نے عورت کو صبر جیسی نعمت سے نوازا ہے۔

عورت کی بہادری کا امتحان اس وقت ہوتا جب دوسری عورت کو برداشت کرنا ہو۔

فخر نے آمنہ کو پہلی دفعہ سڑک کراس کرتے دیکھا تھا اور بیوی اور ایک بیٹا ہونے کے باوجود کس طرح محبت میں گرفتار ہو گیا کچھ علم میں نہیں تھا۔ آمنہ معصوم ہونے کے ساتھ سخت دل بھی تھی۔ ہلکا سا میک اپ کرنے سے ہی پھولوں کی طرح کھلتی تھی اس میں کوئی شق نہیں تھا آمنہ کی معصومیت کی وجہ سے کوئی بھی انسان آرام سے اس کی محبت میں گرفتار ہو سکتا تھا آمنہ جیسی سخت دل لڑکی کا محبت کے جال میں قید ہونا بہت بڑی بات تھی۔ فخر کی خوبصورتی بھی اپنی مثال آپ تھی مگر محبت کی چمک کس طرح ان دونوں پر عاشق ہوئی دونوں کو خبر نہیں تھی۔ فخر اور آمنہ ایک ساتھ ہوتے تو لوگوں کے لیے قابل رشک ہوتا۔ مگر جب تک حقیقت سے آشنا نہ ہوتے۔ جیسے ہی کسی کے علم میں آتا آمنہ فخر کی دوسری بیوی ہے لوگ اس کو برا بھلا کہتے اور آمنہ ہر رسوائی محبت میں عبادت سمجھ کر قبول کرتی۔

کیا آپ کو یہ نکاح فخر ولد حسن کے ساتھ قبول ہے آمنہ کو ایک نامکمل خواب لگا۔ کیا آپ کو یہ نکاح فخر ولد حسن کے ساتھ قبول ہے آمنہ کے لیے ابھی بھی یہ خواب سا سماں تھا۔ کیا آپ کو یہ نکاح فخر ولد حسن کے ساتھ قبول ہے آمنہ کو یقین ہو گیا تھا یہ اب کوئی خواب نہیں۔ آمنہ کی آنکھوں میں آنسو کیوں تھے یہ آمنہ بھی نہیں جانتی تھی۔

محبت حاصل کرنے میں باپ کی ناراضگی تھی اور یہ ناراضگی کس طرح اس پر عذاب بننے والی تھی اس کے بھی معلوم میں نہیں تھی۔

آمنہ سخت دل کے ساتھ حساس طبیعت لڑکی بھی تھی آمنہ کو ہمیشہ پیار والا رویہ پسند تھا پیار سے ہر بات ماننا اس کا پسندیدہ کام تھا فخر سخت مزاج تھا مگر آمنہ کی معصومیت کے آگے فخر کس طرح پیار سے پیش آتا تھا یہ فخر کی بھی محبت کا ثبوت تھا۔

آمنہ اور فخر کی شادی میں خاص رول فخر کے بچپن کے دوست احسن کا تھا مگر آمنہ کے علم میں نہیں تھا کہ یہی انسان ان کے بچھڑ جانے کی وجہ بن سکتا ہے۔

آمنہ اپنی سالگرہ کی رات فخر کا انتظار کر رہی تھی اور یہ چار سال میں پہلی سالگرہ تھی جس فخر وقت پر نہیں آ سکا تھا۔

فخرپر کتنا پریشر تھا یہ کبھی آمنہ کو بھی نہیں بتا پایا تھا فخر بہت بہادر اور ہر مشکل کو آسان لینے والا انسان تھا۔

سالگرہ کے اگلے دن تک آمنہ کا فخر سے رابطہ نہیں ہو پایا تھا اور آمنہ ہمیشہ کی طرح فخر کی فون کال کا انتظار کرتی آمنہ اپنی جاب کو بھی وقت ایمانداری سے دیتی اس لیے اکثر اس کو انتظار رہتا مگر رابطہ کرنا ممکن نہ سمجھتی۔

مگر آمنہ اس بات سے بے خبر تھی کہ اب فخر کی کال کبھی نہیں آئے گی۔

احسن نے آمنہ کو کس طرح فخر کے ایکسیڈنٹ کا بتایا تھا یہ احسن کے لیے بھی مشکل ترین وقت تھا آمنہ آئی سی یو کے باہر فخر کو دیکھ تو سکتی تھی مگر اس کی سانس وہ بھی خرید نہیں سکتی تھی۔ آمنہ اور فخر کس طرح جدا ہو گئے تھے اس کا غم آمنہ آخری سانس تک نہیں بھول پائی تھی۔

رحیم میں بھی آمنہ کو فخر ہی نظر آتا تھا رحیم ہی فخر کی آخری نشانی تھی۔ فخر کی وفات کے وقت رحیم 6 ماہ کا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).