سینیٹ انتخابات: وفاقی کابینہ کا اوپن بیلٹ کے لیے آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ


حکومتِ پاکستان نے ایوانِ بالا (سینیٹ) کے انتخابات خفیہ رائے شماری کے بجائے اوپن بیلٹ سے کرانے کی آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی حکومت سینیٹ انتخابات کے مروجہ طریقۂ کار کو بدلنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس مقصد کے لیے کابینہ نے آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

حکومت نے یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے جب حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ حکمران جماعت کی سیاسی کشیدگی میں شدت برقرار ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ سادہ اکثریت رکھنے والی حکومت کے لیے حزبِ اختلاف کی حمایت کے بغیر آئینی ترمیم منظور کرانا ممکن نہیں ہے۔

یاد رہے کہ آئین میں کسی بھی ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔

صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے سینیٹ الیکشن شو آف ہینڈ یا اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رائے مانگی تھی۔ صدر نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت وزیرِ اعظم پاکستان کی تجویز منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجا تھا۔

ریفرنس میں حکومت نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ قانونی طور پر الیکشن شو آف ہینڈ یا اوپن بیلٹ کے ذریعے ہو سکتا ہے اور اس کا مقصد سینیٹ الیکشن میں شفافیت لانا ہے۔

'ملک میں آج بھی اسٹیبلشمنٹ کی حکومت ہے'

صدرِ پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ بھجوائے گئے ریفرنس میں رائے طلب کی گئی تھی کہ کیا آئین میں ترمیم کیے بغیر الیکشن ایکٹ 2017 کی بعض شقوں میں تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں یا نہیں؟

سپریم کورٹ نے اس صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ایک موقع پر کہا تھا کہ سینیٹرز کا انتخاب کرنے والے رائے دہندگان اپنی سیاسی جماعتوں کو جواب دہ ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ حکومت پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں سے بات کر کے کوئی سیاسی حل نکالتی۔

‘حکومت سینیٹ انتخابات کا ہارس ٹریڈنگ کے بغیر انعقاد چاہتی ہے’

وفاقی وزیرِ اطلاعات شبلی فراز نے کابینہ کے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سینیٹ انتخابات کا شفاف اور بغیر ہارس ٹریڈنگ انعقاد چاہتی ہے جس کے لیے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کی ترمیم لا رہے ہیں تا کہ ہر کسی کو معلوم ہو سکے کہ کون کسے ووٹ دے رہا ہے۔

حزبِ اختلاف کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے کہا ہے کہ حکمران جماعت کی جانب سے بل باضابطہ طور پر پارلیمان میں پیش ہونے کے بعد اس معاملے پر رائے دیں گے۔

یاد رہے کہ سینیٹ کے انتخابات رواں برس فروری کے آخر یا مارچ کے اوائل میں ہونا ہیں۔ ایوانِ بالا میں اقلیت رکھنے والی حکومت آئندہ انتخابات کے بعد اکثریت کے لیے کوشاں ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف کے ساتھ محاذ آرائی کے ماحول میں پارلیمنٹ میں اکثریت نہ رکھنے کے باوجود آئینی ترمیم لانے کا اعلان محض حکومتی سیاسی بیانیہ کی ترویج دکھائی دیتی ہے۔

حکومت سینیٹ میں اکثریت چاہتی ہے: مبصرین

تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ حکومت سینیٹ میں اکثریت کا حصول چاہتی ہے تاکہ قانون سازی کے ذریعے اپنے انتخابی منشور کے مطابق اصلاحات لا سکے۔

'پارٹی کے اندرونی جھگڑوں سے حکومت کو نقصان پہنچا'

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مظہر عباس نے کہا کہ حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر اس کی جماعت کے اراکین نے پارٹی امیدواروں کو ووٹ نہ دیے تو وہ ایوانِ بالا میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہو سکتے ہیں۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ حکومت کو یہ خدشہ اس لیے بھی ہے کیوں کہ گزشتہ سینیٹ انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کے 20 کے قریب اراکین صوبائی اسمبلی نے پارٹی امیدواروں کو ووٹ نہیں دیے تھے جس پر عمران خان نے بعض کی رکنیت بھی معطل کردی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال میں بھی حکمران جماعت کے بعض اراکین اسمبلی نالاں دیکھائی دیتے ہیں۔

آئینی ترمیم کے وقت اور طریقۂ کار پر سوالات

پارلیمانی امور کی کوریج کرنے والے صحافی عامر وسیم کہتے ہیں کہ حکومت اگر ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کے لیے یہ ترمیم لانا چاہ رہی ہے تو ہم اس کی نیت پہ شک نہیں کرتے مگر اس کے وقت اور طریقۂ کار پر سوالات موجود ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عامر وسیم نے کہا کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حکومت کو سپریم کورٹ سے شاید ایسے امکانات نظر آئے ہوں کہ عدالتِ عالیہ اس حوالے سے صدارتی ریفرنس کو پارلیمنٹ کو ارسال کر سکتی ہے۔

عامر وسیم کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ حکومت کو اپنے اراکین اسمبلی پر بھی مکمل اعتماد نہیں کہ وہ پارٹی کے مطابق ووٹ دیں گے یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکمران جماعت نے گزشتہ الیکشن میں بھی سینیٹ انتخابات کے طریقۂ کار میں تبدیلی کی بات کی تھی تو پھر انہوں نے یہ ترمیم لانے میں ڈھائی سال انتظار کیوں کیا۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے بدھ کو پارلیمانی پارٹی سے خطاب میں کہا تھا کہ سینیٹ کے انتخابی طریقۂ کار میں تبدیلی کے لیے ترمیمی بل رواں اجلاس میں ہی پیش کیا جائے گا تاکہ عوام کو معلوم ہوسکے کہ کون سی جماعتیں شفاف انتخابات کی حامی نہیں۔

'سیاست بڑا گندا کام ہے، فوج دور ہی رہے تو بہتر ہے'

انہوں نے کہا کہ اس ترمیم کی مخالفت کرنے والی جماعتیں بھول گئی ہیں کہ ماضی میں وہ خود اوپن بیلٹ کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔

اپوزیشن آئینی ترمیم کی مخالفت کیوں کر رہی ہے؟

تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اپوزیشن کیوں اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ جب کہ 2019 میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی مشترکہ اپوزیشن کی تحریک اکثریت رکھنے کے باوجود ناکام رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے سیاست کو اس قدر تقسیم کر دیا ہے کہ حکومت کے اچھے اقدام میں بھی حزبِ اختلاف ساتھ دینے کو تیار نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کی نظر میں اصولی طور پر پارلیمنٹ کے اندر انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

مظہر عباس نے کہا کہ اگر حکومت یہ آئینی ترمیم لانے میں سنجیدہ ہوتی تو حزبِ اختلاف کے ساتھ بات چیت کا ماحول بناتی اور اس ترمیم کو انتخابات کے قریب پیش کرنے کی بجائے کئی ماہ پہلے لاتی۔

پارلیمانی صحافی عامر وسیم نے بتایا کہ سینیٹ آف ہول کمیٹی بھی سینیٹ کے انتخابی طریقۂ کار میں تبدیلی کی تجویز دے چکی ہے اور اگر حکومت حزبِ اختلاف سے بات چیت کرکے اس اقدام میں تاخیر نہ کرتی تو یہ ممکن ہو سکتا تھا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa