ویکسین کی عام دستیابی کا سنگین چیلنج


عالمی سطح پر کووڈ۔ 19 سے متاثرہ مریضوں کی تعداد اس وقت دس کروڑ کی خطرناک حد پار کر چکی ہے۔ ایسے میں عالمی برادری کی ساری امیدیں ویکسین کی عام دستیابی سے وابستہ ہیں اور یہ بات خوش آئند ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں ویکسی نیشن کا عمل جاری ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ خدشات بھی کھل کر سامنے آئے ہیں کہ کیا ویکسین تک ہر ایک کی پہنچ ممکن ہو سکے گی؟ کیا ترقی یافتہ ممالک بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو ویکسین فراہم کر پائیں گے؟ کیا کم ترقی یافتہ ممالک کے پاس اتنے وسائل موجود ہیں کہ وہ ویکسین خرید سکیں؟

یہ سوالات اس لیے اہم ہیں کہ تاحال ویکسین کی فراہمی انتہائی محدود ہے اور ویکسین کے حصول میں امیر اور غریب کے مابین ایک واضح خلیج موجود ہے۔ عالمی سطح پر ویکسین کی غیر منصفانہ تقسیم پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ 49 امیر ممالک پہلے ہی 39 ملین سے زیادہ خوراکیں استعمال کر چکے ہیں، لیکن کچھ کم ترقی یافتہ ممالک میں ویکسین کی محض چند خوراکیں ہی دستیاب ہو سکی ہیں۔

کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق گیانا میں صدر سمیت صرف 55 افراد کو ہی ویکسین لگائی گئی ہے۔ یہ امر تشویشناک ہے کہ تاحال دستیاب ویکسین کا پچانوے فیصد 10 ترقی یافتہ ممالک کی دسترس میں ہے۔ پیپلز ویکسین الائنس کے مطابق امیر ممالک دنیا کی مجموعی آبادی کا صرف چودہ فیصد ہیں لیکن ان کی جانب سے اس وقت دستیاب آٹھ اہم ویکسینز کا 53 فیصد پہلے ہی خریدا جا چکا ہے۔ صرف کینیڈا ہی کی مثال لی جائے تو ملک کی جانب سے آرڈر کردہ تمام ویکسینز اگر ڈیلیور کر دی جاتی ہیں تو کینیڈا کے ہر شہری کو ویکسین کی پانچ خوراکیں دی جا سکیں گی۔

حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ امیر ممالک ویکسی نیشن پروگرام شروع کر رہے ہیں جبکہ دنیا کے سب سے کم ترقی یافتہ ممالک ویکسین کی راہ تکتے ہوئے صرف انتظار کر رہے ہیں۔ ایک جانب چند مغربی ممالک ویکسین کی خریداری اور ذخیرہ اندوزی میں پیش پیش ہیں تو دوسری جانب کچھ مغربی ویکسین ساز کمپنیاں منافع کے حصول کی خاطر ویکسین کے عالمی تعاون ”کووایکس“ کو یکسر نظر انداز کر رہی ہیں۔

اگرچہ یہ معقول سی بات ہے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک جنہوں نے ویکسینز تیار کی ہیں وہ اپنے لوگوں کے لئے سب سے پہلے ویکسین کے استعمال کا حق بھی رکھتے ہیں لیکن دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ ویکسین ذخیرہ کرنے کی بجائے ایسے ممالک کو بھی فراہم کی جائے جہاں ویکسین کی فوری ضرورت ہے۔ وگرنہ دنیا بخوبی جان چکی ہے کہ جب تک تمام ممالک سے وائرس کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ، کوئی بھی ملک خود کو محفوظ تصور نہیں کر سکتا ہے۔ ویکسین کی غیر مساوی تقسیم وبا کے خلاف اجتماعی تعاون کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہے۔

ویکسی نیشن کی بات کی جائے تو چین باقی دنیا سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس نے ویکسین کو صرف اپنے عوام تک محدود نہیں کیا ہے بلکہ دنیا کے مختلف ممالک کو ویکسین فراہم کی گئی ہے۔ چین ویکسین کو عالمی سطح پر قابل رسائی بین الاقوامی عوامی مصنوعات بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ چینی صدر شی جن پھنگ نے عالمی فورمز پر یہ عہد کیا تھا کہ چین ویکسین کی تیاری کے بعد اسے عوامی مصنوعات کا درجہ دے گا اور اس وقت چین نے اپنے عملی اقدامات سے اس وعدے کو سچ ثابت کر دکھایا ہے۔

تاحال پاکستان سمیت چلی، متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر، اردن، ترکی، انڈونیشیا، برازیل اور دیگر ممالک میں چینی ویکسین کے استعمال کی منظوری دی جا چکی ہے۔ 40 سے زیادہ ممالک نے چینی ویکسین درآمد کرنے کی درخواست کی ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک کے رہنماؤں نے خود ویکسین لگواتے ہوئے چینی ویکسین پر اپنا بھرپور اعتماد ظاہر کیا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات یہی ہیں کہ چین کی تیار کردہ ویکسین محفوظ اور موثر ہے۔ اس کی نقل و حمل بھی آسان ہے جس سے ترقی پذیر ممالک میں اسٹوریج اور نقل و حمل کے اخراجات بہت حد تک کم ہو جاتے ہیں۔ چین کی کاوشوں سے ترقی پذیر ممالک میں ویکسین کی رسائی اور فراہمی میں بہت حد تک بہتری آئی ہے، اور چین نے دنیا بھر میں ویکسین کی مساوی تقسیم کو مضبوطی سے فروغ دیا ہے۔ چین کے پاس وافر وسائل بھی موجود ہیں جس کی بدولت ویکسین کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ممکن ہے۔

موجودہ صورتحال کا بنیادی تقاضا یہی ہے کہ اس وبا سے نمٹنے کے لیے تمام ممالک سرحدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یکجہتی اور تعاون کو فروغ دیں۔ مشترکہ مستقبل کے حامل انسانی صحت کے معاشرے کی تعمیر انسانیت کی بقا کے لیے اول شرط ہے۔ چین کی طرح دیگر بڑے ممالک کو بھی ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو ویکسین کی فراہمی میں ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہوئے عملی مثال قائم کرنی چاہیے اور دنیا کو امید اور اعتماد کا پیغام دینا چاہیے۔ یہی انسانیت کی بہترین خدمت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).