عمران خان کا بلین ٹری سونامی منصوبہ: سائنسدانوں کی نظر میں قدرتی جنگلات لگانے کے سنہری اصول


سائنسدانوں نے شجرکاری کے دس سنہری اصول وضح کیے ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اگلی دہائی میں اقوام عالم کی یہ اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

شجر کاری ماحولیاتی تبدیلی سے بچنے اور بائیوڈائیورسٹی (نباتاتی تنوع) کے تحفظ کا بہترین طریقہ ہے لیکن لندن کے کیو گارڈن میں رائل بوٹینکل گارڈن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ غلط درخت غلط جگہوں پر لگانے سے فائدے کی جگہ نقصان ہو سکتا ہے۔

اُن اصولوں میں سب سے پہلے جنگلات کا تحفظ اور اس کوشش میں مقامی لوگوں کو شامل کیا جانا ہے۔

پاکستان کا دس بلین درخت لگانے کا ہدف

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت دس بلین درخت لگانے کا ہدف بتایا ہے۔ یہ دس بلین درختوں کا ہدف پانچ برس کے لیے ہے۔

پلان کے مطابق پہلے تین سال میں 3.2 بلین درخت لگائے جائیں گے۔

حکام کے مطابق اگلے سال جون تک ایک بلین درخت لگا دیے جائیں گے۔ اس ایک بلین کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دسمبر تک 20 کروڑ درخت لگائے جائیں گے اور پھر مزید 30 کروڑ درخت جون تک لگا دیے جائیں گے۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے ماحولیات ملک امین اسلم کے مطابق اس وقت تک پاکستان 50 کروڑ درخت لگا چکا ہے۔

واضح رہے کہ ورلڈ بینک نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں ایسے چھ اضلاع کی نشاندہی بھی کی ہے، جہاں اگر شجرکاری نہ کی گئی تو وہ 2050 تک ریگستان بن جائیں گے۔

جنگلات زمین کے لیے اہم ہیں

جنگلات دنیا کے تین چوتھائی حیوانات اور نباتات کو محفوظ بناتے ہیں اور فضا سے کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتے ہیں اور خوراک، ایندھن اور ادویات بھی فراہم کرتے ہیں۔

لیکن وہ تیزی سے صاف ہو رہے ہیں، ڈنمارک کا جتنا رقبہ ہے اتنے رقبے پر ہر سال لگے پرانے جنگلات صاف ہو جاتے ہیں۔

درخت

کیو بُوٹینک گارڈن سے وابستہ محقق ڈاکٹر پال سمتھ کا کہنا ہے کہ درست اقسام کے درخت درست جگہوں پر لگانا تمام ملکوں کے لیے ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ دنیا کو ایک ایسی دہائی کا سامنا ہے جو کرۂ ارض کو بچانے کے لیے انتہائی اہم ہو گی۔

دنیا کے کئی حصوں میں بڑے پیمانے پر درخت لگانے کے منصوبے جاری ہیں تاکہ جو درخت اور جنگلات صاف ہو گئے ہیں ان کا ازالہ کیا جا سکے۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ وہ اس پارلیمنٹ کی بقیہ مدت کے دوران ہر سال برطانیہ بھر میں 30 ہزار ایکڑ پر نئے جنگلات لگانے کا ہدف مقرر کیا جا رہا ہے۔

افریقہ کی قیادت ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے پانچ ہزار میل طویل جنگلات کی ایک دیوار کھڑی کرنا چاہتے ہیں، جو گریٹ بیریئر ریف سے تین گنا بڑی ہو گی۔

درخت لگانا یا شجر کاری ایک خاصہ پیچیدہ عمل ہے اور جس کا کوئی ایک آسان حل موجود نہیں ہے۔

ایک تحقیق کار ڈاکٹر کیٹ ہارڈویک کا کہنا ہے کہ اگر کسی علاقے میں غیر موزوں درخت لگائے جائیں تو اس سے فائدے سے زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اکثر اوقات قدرتی جنگلات جن میں نباتات اور حیوانات پھلتے پھولتے ہیں وہاں لکڑی کے حصول کے لیے تجارتی بنیادوں پر قطار اندر قطار درخت لگا دیے جاتے ہیں جو کچھ دہائیوں بعد کاٹ لیے جاتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ ‘لوگوں کو یہ ترغیب دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جہاں ممکن ہو وہ ایسے جنگلات اگانے کی کوشش کریں، جو قدرتی جنگلات جیسے ہوں اور جن سے فضا میں موجود کاربن کو جذب کرنے سمیت کثیر فائدے اٹھائے جا سکیں۔’

گلوبل چین بائیولوجی نامی ایک بین الاقوامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پرانے جنگلات کی جگہوں پر منصوبہ بندی کے تحت لگائے مصنوعی جنگلات سے کاربن گیس کو کم کرنے میں مدد نہیں ملی بلکہ اس کے مضر اثرات ہی مرتب ہوئے ہیں۔

دس سنہری اصول

موجودہ جنگلات کو پہلے محفوظ بنائیں

جنگلات کو اپنی قدرتی حالت میں رکھنا ہمیشہ ہی بہتر ہوتا ہے۔ پرانے جنگلات زیادہ کاربن کو جذب کرتے ہیں اور وہ جنگل کی آگ، طوفانوں اور خشک سالی سے زیادہ بہتر تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ کیو کے بُوٹینکل گارڈن کے پروفیسر ایگزنڈر انتونائل کا کہنا ہے کہ جہاں بھی ممکن ہو ہمیں اس بات پر زور دینا چاہیے کہ جنگلات کی کٹائی کو روکا جائے اور بچے کچے جنگلات کو محفوظ بنانا ہی ترجیح ہونی چاہیے۔

مقامی لوگوں کو درخت لگانے یا شجر کاری کی مہم میں آگے رکھنا چاہیے۔

اس بات کا مشاہدہ کئی مرتبہ کیا جا چکا ہے کہ جہاں کہیں بھی مقامی لوگوں کو شجر کاری یا جنگلات لگانے کی مہمات میں شامل کیا گیا ہے وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں۔ کیونکہ جنگلات کو محفوظ رکھنے میں سب سے زیادہ فائدہ مقامی آبادی ہی کو ہوتا ہے۔

نباتاتی تنوع کی بحالی میں تیزی سے کئی اہداف حاصل ہو سکتے ہیں

جنگلات کی بحالی کے کئی اہداف ہونے چاہیں جن میں ماحولیاتی تبدیلی کو روکنا، قدری ماحول کا تحفظ فراہم کرنا اور لوگوں کو ثقافتی اور معاشی فائدے پہنچانا۔

جنگلات کی بحال کے لیے درست جگہوں کا انتخاب

جنگلات وہاں لگائے جانے چاہیں جہاں پہلے کبھی جنگلات رہے ہوں لیکن وقت کے ساتھ اس علاقے سے درخت صاف کر دیے گئے ہیں۔ جنگلات وہاں نھیں لگانے چاہیں جہاں دوسرے ‘نیچرل ہیبیٹیٹ’ ہوں مثلاً گھاس کے میدان یا دلدلی علاقے۔

جہاں ممکن ہو وہاں جنگلات کے قدرتی پھیلاؤ کو استعمال کیا جائے۔ درختوں کو قدرتی طور پر اگنے دینا ہی زیادہ موثر اور سستا عمل ثابت ہو سکتا ہے۔

درختوں کی صحیح اقسام کا انتخاب ہی نباتاتی تنوع کو بڑھا سکتا ہے۔

جہاں درختوں کو لگانے کی ضرورت ہو وہاں موزوں اقسام کا انتخاب بہت اہم ہوتا ہے۔

سائنسدانوں کا مشورہ ہے کہ مقامی سطح پر پائے جانے والے درخت کچھ نادر اقسام اور کچھ معاشی طور پر اہم درختوں کے ساتھ ملا کر لگائے جانے چاہیں اور ایسے درختوں سے پرہیز کرنا چاہیے جو نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔

اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ درخت بدلتے ہوئے ماحول میں رہ سکیں۔

درختوں کے پودے لگانے کے لیے ایسے بیج استعمال کیے جائیں، جو مقامی آب و ہوا کے لیے موزوں ہوں اور مستقبل میں بدل بھی سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp