میری فکری و نظریاتی بد دیانتی کے نفسیاتی پہلو (2)۔


(حصہ اول)

ہم ایک سادہ اور عام فہم سی مثال سے آغاز کرتے ہیں۔ میرا بیٹا وقاص دو سال کا ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے ایک بات نوٹ کی گئی کہ سڑک سے گذرتے گارڈ کی سیٹی سے وہ شدید خوفزدہ ہو جاتا تھا۔ بھاگ کر کسی کی پناہ میں جاتا اور رونا شروع کر دیتا۔ عائشہ نے ایک دن سڑک سے گذرتے گارڈ کو دیکھا اور رکنے کا اشارہ کیا۔ وقاص کو گارڈ کے پاس لے گئی اور وقاص کو کہا دیکھو یہ بھائی ہے (وہ ہر اجنبی شخص کو بھائی کہتا ہے)۔ گارڈ اور وقاص کی سلام دعا کے بعد عائشہ نے گارڈ کو بتایا کہ یہ آپ کی سیٹی سے ڈرتا ہے آپ سیٹی جیب سے نکالیں اور آہستہ سے بجائیں۔ جیسے ہی وقاص نے سیٹی کی آواز سنی وہ ماں سے چمٹ گیا۔ عائشہ نے سیٹی گارڈ سے لی اور خود بجائی۔ تھوڑی دیر بعد جب وقاص نارمل ہونا شروع ہوا تو وقاص کو لے کر اند ر آگئی۔ دوسرے دن ہم نے مشاہدہ کیا کہ گارڈ کی سیٹی سے وقاص نروس ہوا لیکن شدید خوفزدہ نہیں ہوا۔ ہم نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی کہ یہ وہی سیٹی والابھائی ہے۔ تیسرے یا چوتھے دن ہم نے مشاہدہ کیا کہ گارڈ کی سیٹی بجانے کے جواب میں وقاص ہونٹوں کو سکیڑ کر سیٹی بجا رہا تھا اور نقلیں اتار کے خوش ہو رہا تھا۔

آئیے اب اس واقعہ کا تکنیکی جائزہ لیں۔

پہلی دفعہ وقاص خوفزدہ کیوں ہوا تھا؟ خوف ان چند جذبات سے تعلق رکھتا ہے جو انسانی نفسیات کا پہلے دن سے حصہ ہوتے ہیں۔ آپ نے نومود بچے کو ایک دم سے ڈرتے کانپتے دیکھا ہو گا۔ وہ ماں کے رحم میں اپنے آپ کو محفوظ خیال کرتا رہا کیونکہ اس کے چاروں جانب حفاظتی دیوار تھی۔ دنیا میں آتے ہی اس کو گرنے کا خوف جکڑ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نومولودوں کے اس ڈر کا تجربہ کار عورتیں یہ حل نکاتیں تھیں کہ ان کو کپڑوں میں سختی سے لپیٹ دیا جاتا تھایا چارپائیوں کے ساتھ لٹکتے کپڑے کے پنگھوڑے آپ نے دیکھے ہوں گے

ان پنگھوڑوں میں بھی بچہ پھنس کر محفوظ خیال کرتا تھا۔ گرنے کا خوف وہ واحد خوف ہے جو ہم وراثت میں لیتے ہیں۔ (اب تک کی تحقیق یہی کہتی ہے)

\"\"

جب سیٹی کی آواز آئی تو یہ وقاص کے دماغ کے لیے نئی اجنبی اور تیز آواز تھی۔ آواز کی دو شاہراہیں ہیں۔ ایک کو نچلی شاہراہ اور دوسری کو اوپر والی شاہراہ کہہ لیں۔ اوپر والی شاہراہ تجربے اور سیکھنے پر انحصار کرتی ہے۔ نچلی شاہراہ براہ راست ہے۔ بچوں میں تجربات کی ابھی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے نچلی شاہراہ زیادہ استعمال ہو تی ہے۔ نچلی شاہراہ کا ردعمل فوری ہوتا ہے۔ ردعمل دینے میں کل وقت 12 ملی سیکنڈ لگتا ہے۔ جب سیٹی کی آواز آئی تو کانوں کے ذریعہ یہ آواز Thalamus میں پہنچی۔ دماغ کے اس حصے نے یہ اطلاع فوری طور پر Amygdala تک پہنچا دی۔ دماغ کے اس حصے نے Hypothalamus کو ڈیٹا پہنچایا۔

یہاں سے دلچسپ کہانی شروع ہوتی ہے۔ Hypothalamus فوری طور پر System Nervous Sympethetic کو جگاتا ہے۔ جگانے کا یہ عمل بے حد پیچیدہ ہے۔ اس کے لیے دو کیمیائی مواد چھوڑے جاتے ہیں Norepinephrine اور Epinphrine۔ دوسری طرف Hypothalamus تیس کے قریب ہارمونز خون میں شامل کر دیتا ہے۔ جبکہ توانائی کے ذخیروں کو متحرک کیا جاتا ہے اور پٹھوں کو سخت ہو نے کا پیغام پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس جسمانی افراتفری کے نتیجے میں دو ردعمل پیدا ہوتے ہیں۔ مقابلہ کرو یا بھاگ جاؤ۔

یہ تو تھی نچلی یا مختصر شاہراہ جس کا دورانیہ 12ملی سیکنڈ تھا۔

دوسری دفعہ وقاص نروس کیوں ہوا تھا؟

جب وقاص کی Conditioning Fear ہوگئی یعنی اس کو گارڈ سے اور گارڈ کی سیٹی سے شنا سائی ہو گئی۔ اب دوسرے دن گارڈ کی سیٹی سے وقاص شدید خوفزدہ نہیں ہوا لیکن نروس ہو گیا۔ بالائی شاہراہ 24 ملی سیکنڈ کا وقت لیتی ہے۔ سیٹی کی آواز Thalamus تک پہنچی۔ یہاں Thalamus نے ایک مناسب حرکت کی۔ سیٹی کی اطلاع بجائے براہ راست Amygdala تک پہنچانے کے بجائے Cortex Sensory تک پہنچا دی۔

Cortex Sensory نے کہا، اوکے اوکے مجھے اس معاملے کو ہینڈل کرنے دو، ہیلو Hippocampus (یاداشت سے متعلق حصہ) کیا اس طرح کی آواز کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی ڈیٹا ہے؟ کوئی متعلقہ ڈیٹا، یہ کس طرح کی آواز ہے؟ کیا کوئی خطرہ ہے؟

مسٹر Hippocampus کہتا ہے۔ سر ایک گارڈ اور سیٹی کے حوالے سے کچھ تصویریں پڑی ہیں اور یہ گارڈ ہے جو سیٹی بجاتا ہے یہ آواز اس سے مل رہی ہے۔ سر ہمارے پاس، Concept and Context Object موجود ہے۔

اؤ کے اوکے۔ تھینک کیو مسٹر Hippocampus۔ اور سنو مسٹر Amygdala کوئی پریشانی نہیں ہے معاملات کنٹرول میں ہیں۔ جلد بازی میں تم یہ اطلاع Hypthalamus کو نہ دے دینا، کم بخت کرفیو ہی لگا دیتا ہے۔

اور وقاص نروس ہونا ختم کر دیتا ہے۔

وقاص گارڈ کی سیٹی کی نقلیں کیوں اتارتا ہے؟ چوتھے دن جب گارڈ نے سیٹی ماری تو Thalamusنے یہ اطلاع Sensory Cortex کو بھیجی جس کے حوالے سے Hippocampus نے فوری تعاون کیا اور معاملہ ’عالم بالا‘ میں ہی رفع دفع ہو گیا۔ یہاں سے انگریزی والا Fun شروع ہوتا ہے۔ خوف کی ناموجودگی میں تخلیق ابھرتی ہے۔

تو کسی رویے کو سیکھنے اور پھر بھلانے میں بہت دقتیں حائل ہیں۔ معاملات اس قدر سادہ نہیں ہیں۔ اور کیونکہ ہم نے معاملات کو سادہ لیا ہے اس لیے زمین کے دریا اور ندیاں سرخ ہوئی ہیں۔

پس نوشت (دیانت داری سے غلط نظریے پر قائم رہنے والے اور بد دیانتی سے غلط نظریے پر قائم رہنے والے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس مضمون کو دیانت داری سے غلط نظریے پر قائم رہنے والے کے تناظر میں پڑھا جائے۔ کسی نظریے کے غلط ہونے کی تعریف کو بھی اس حد تک محدود رکھیں کہ ہم صرف اس نظریے کو غلط کہیں گے جو فرد کی ذاتی یا معاشرے کی اجتماعی زندگی کے معیار زندگی کو متاثر کر رہا ہو)۔


حصہ اول
وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments